- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


ابن ماجد اور مسلمانوں کی جہاز رانی میں خدمات
2 محرم 1443هـ

ہم حقیقت کو نہیں جانتے ہیں اس لیے یہ سمجھتے ہیں کہ جدید دنیا کی بڑی بحری دریافت یعنی امریکہ کے کرسٹوفر کولمبس نے دریافت کیا جس کا تعلق اٹلی سے تھا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سلسلہ کی کڑی تھی جس کا آغاز کافی پہلے ہو چکا تھا جس میں بحری راستے دریافت کیے جا رہے تھے اور جغرافیہ میں ترقی کا سلسلہ تھا۔یہ بات سچ  ہے کہ یہ دریافت عرب کے مسلمان علما کی جستجو اور تحقیق کا نتیجہ تھا اور ان کے اس زمانے کے ماہر ترین ملاح ہونے کی علامت بھی تھا جس کے علم کی بنیاد پر کولمبس امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ویسے تو مسلمان سائنسدانوں نے ہر علم میں کام کیا مگر جغرافیہ اور اور بحری علوم کے وہ شہسوار تھے۔انہوں نے بحری علوم پر کتابیں لکھیں،تحریروں کے مجموعے تیار کیے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یونانیوں،چینیوں اور اپنے سے پہلے والے ہندی ماہرین فن کی غلطیوں کو درست کیا اور اس علم کو آگے بڑھایا۔

مسلمان علما کو اس وقت علم کے تمام وسائل دستیاب تھے باالخصوص جغرافیہ کا خاص اہتمام تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی اسلامی حکومت کی حدود بہت زیادہ پھیل گئی تھیں عصر نبوی او ربعد کے زمانے میں اسلامی ریاست ایک طرف چین تک جا پہنچی تھی اور  دوسری طرف سپین اور فرانس کے مغرب تک پھیل گئی تھی۔ اس لیے بہت ضروری ہو گیا تھا کہ علم جغرافیہ میں ترقی ہوتی اور اس طویل اسلامی زمین پر غور کیا جاتا۔

دوسری طرف مختلف روایات اور رواج کے لوگ مختلف خطوں میں اسلامی دنیا میں رہ رہے تھے نئے لوگ مسلمان ہو رہے تھے ان تما م کے ملنے سے جہاں دیگر انسانی علوم میں ترقی ہوئی وہاں جغرافیہ میں زیادہ ترقی ہوئی۔اسلامی علاقوں میں بڑے دریا اور سمندر واقع تھے اسی طرح اسلام ایشیا،افریقہ اور یورپ تک پھیل چکا تھا اس لیے سمندری فن و علوم نے کافی ترقی کی۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان علما نے ان معلومات کی تصحیح کی اور ان میں اضافہ کیا جو یونانی تہذیب میں تھیں۔ مسلمان مصنفین و مولفین نے سمندروں پر تفصیلی بات کی ہے اور اس کے مختلف پہلووں پر لکھا ہے ان میں مشہور الکندی، ابن طیب، مسعودی، ابن سینا، بیرونی اور ادریسی وغیرہ ہیں۔ ان تمام میں بھی معروف مورخ مسعودی نے اپنی کتاب مروج الذہب میں سمندروں پر بہت زیادہ بحث کی ہے۔مسعودی نے تیسری صدی ہجری میں جو آٹھوی عیسوی صدی بنتی ہے اس میں سمندروں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اس نے مد جزر کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔اسی طرح اس نے سمندری ہواوں اور موسموں کے متعلق بھی تفصیل سے لکھا ہے جو سمندری میں آتے رہتے ہیں۔مسعودی نے لکھا ہے کہ جو لوگ بھی ان سمندروں میں جانا چاہتے ہیں انہیں ان سمندروں اور ان کے مخصوص حصوں میں چلنے والی ہواوں کو جاننا ہو گا۔اس نے تجربات اور سمندر میں مستقل جاری رہنے والی تبدیلیوں سے یہ سب جانا ہے۔یہ تجربات ایک نسل دوسری نسل کو بتا جاتی تھی اور عملا اس کو سکھا بھی دیتی تھی یہ سکھانا علامات کے ذریعے تعلیم کے ذریعے ہوتا تھا جس میں مستقل جاری رہنے والے حالات کو بتا دیا جاتاتھا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دوسری اور تیسری صدی کے مسلمان عرب علما نے یونانیوں کے قدیم جغرافیہ پر اعتماد کیا۔ انہوں نے بعد میں اس میں بہت زیادہ تبدیلیاں اور اضافے کیے۔انہوں نے یونانیوں کے غلطیوں کو درست کیا اس طرح مسلمانوں نے ان کے بہت سے نظریات کی تصحیح کی۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مقدسی بشاری متوفی ۳۸۰ھ/ ۹۹۰ م ایک عظیم مسلمان جغرافیہ دان تھے جو یونانیوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔انہوں نے یونانیوں کی جغرافیائی اور بحری غلطیوں کی تصحیح کی۔بالخصوص انہوں نے سمندروں کی محیط اور شکلوں کی تصحیح کی۔ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مشہور کتاب احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم میں ایک خاص فصل سمندروں اور دریاوں کے تعارف پر دی ہے۔محیط ہندی سے ہے کہ جان لو اسلام میں دو سمندروں کا ذکر ہے جو چین اور افریقہ میں سوڈان کے درمیان ہیں۔ان میں سے ایک مشرق میں سردیوں کے مقام سے چین اور سوڈان کے درمیان سے نکلتا ہے جب یہ اسلامی مملکت تک پہنچتا ہے تو جزیرۃ العرب کو تشکیل دیتا ہے جیسا کہ ہم پہلے مثال میں اس کا ذکر کر چکے ہیں۔اس کے مزید دو خلیج اور کئی شاخیں ہیں۔لوگوں نے ان کے اوصاف میں اختلاف کیا ہے اسی طرح مصوروں نے ان کی مختلف تصاویر بنائی ہیں۔ کچھ نے اسے چین اور حبشہ کے درمیان دکھایا ہے ایک بحر قلزم جسے بحر احمر بھی کہا جاتا ہے اور دوسری طرح خلیج عربی ہے۔ہندی کے نقشے میں جس کی تصویر کشی کی گئی ہے یہ حقیقت کے قریب ہے۔اس سے دو خلیج جیسے خلیج عربی اور دو سمندر بحر عرب اور بحر احمر ملے ہوئے ہیں۔

المقدسی نے کچھ روشن مقامات کی طرف اشارہ کیا ہے جن پر رات کو جہاز کے کپتانوں کو متوجہ کرنے کے لیے آگ بھڑکائی جاتی تھی تاکہ کپتان جان سکیں کہ سمندر کا کنارہ اس طرف ہے۔مقدسی نے سمندروں کی تعداد اور دیگر تفاصیل میں یونانیوں کی معلومات پر تنقید کرتے ہیں اور اس وقت تک کے مسلمان جغرافیہ دانوں کی آراء کا تذکرہ کیا ہے۔

مسعودی نے اس کو ذکر کیا ہے کہ مسلمان ماہرین علم سمندر نے یونانی نظریات پر تنقید کی ہے۔مسعودی لکھتا ہے کہ میں بہت سے ایسے لوگوں کو پایا جو بحر چین،ہند،سندھ،یمن، قلزم اور حبشہ کے بارے میں ان باتوں کے خلاف لکھتے ہیں جو پہلے سے ذکر کر دی گئی ہیں۔وہ مسافت اور علامات کو بھی الگ ذکر کرتے ہیں۔

مسلمان ماہرین سمندر،کشتی بان اور سمندر پر سفر کرنے والے مسلمان جنہوں نے سمندر،اس کے راستوں اور اس کی مسافتوں کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے اسی طرح بحری آلات کے بارے میں بھی انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے یہ سب علمی تجربے کی بنیاد پر لکھا گیا۔ان لوگوں نے کشتی بانی کے آلات اور رصد کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے جیسے اسٹرولاب اور کمپاس ، جو "سوئی گھر" کے نام سے جانا جاتا ہے۔سب سے پہلے اسی نے اس کے خواص کو کشف کیا تھا اور اس نے اس کا آئیڈیا چینیوں سے لیا تھا۔ اس کے بعد اس کا کشتی رانی میں بڑے پیمانے پر اس کے استعمال کا طریقہ بتایا۔اس کے ساتھ ساتھ  اس کے استعمال کے لیے ستاروں سے مدد کا طریقہ ایجاد کیا۔اس کے بنانے میں ابراہیم فرازی،ابن یونس مصری، زرقانی اور بیرونی نے اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے اسے مختلف حصوں عراقی،مصری اور اندلسی میں تقسیم کیا۔ان کی ایجاد کردو جدولوں سے بحری اور بری سفروں میں مدد لی گئی ہے۔

سلیمان تاجر کے نام سے معروف ملاح جو کہ تیسری صدی میں زندگی کرتے تھے ان ابتدائی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے بحیرہ عرب کے راستوں اور اس کے اسرار سے پردرہ اٹھایا۔اس نے تجارت کی غرض سے ہند اور اس سے بھی آگے جنوب ایشیا کی طرف جزیرہ سیلان اور مالٹا کی طرف سفر کیا اور چین کو بھی دیکھا۔اس کے جہاز بحر متوسط، بحر احمر ،خلیج عربی او ربحر ملایو میں سفر کرتے تھے۔اس نے ان سمندروں میں اپنے سفروں کی روئیداد کو ۲۳۷ھ / ۸۵۱م میں رحلۃ التاجر سلیمان کے نام سے طبع کیا۔ اس پر ایک اور عربی کاتب ابا زید حسن السیرافی نے اضافات کیے جو ہند،چین اور علاقہ عرب کے سمندری حالات کے متعلق تھے اور ان کا تعلق نویں اور دسویں میلادی صدی سے تھا۔اس میں اس نے بعض بہت مفید چیزوں کو اضافہ کیا جس میں سمندری جانوروں سے متعلق معلومات تھیں اسی طرح پتھروں اور معدنیا ت کے متعلق بھی باتیں شامل تھیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مسلمان اور عرب جغرافیہ دانوں نے جو ملاح بھی تھے اپنے تجربات اور علم کی روشنی میں کئی بہترین کتابیں تصنیف کیں۔یہ انتہائی تحقیقی کتابیں ہیں جن میں بڑی وضاحت اور تحقیق کے ساتھ اپنے مسلسل تجربے کی روشنی میں اور عملی تجربات کی بنیاد پر ان بحری آلات کی مدد سے لکھا۔اس میں ان آلات کی مدد سے بہترین خطوط عرض و طول بنائے گئے۔

مورخ ڈاکٹر حسین مونس نے اپنی کتاب جغرافیہ اور اندلس کے جغرافیہ دان میں لکھا ہے کہ کرسٹو فر کولمبس نے جزر ہند غربی کی طرف مغرب سے جانے کا راستہ مشہور مسلمان اندلسی ابی عبید البکری سے لیا۔ اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عرب طول کا اعتبار مشرق کے جس نقطے سے کرتے تھے اسے ارین کہا کرتے تھے یہ وہ مکان ہے جہاں خط نصف نہار میں گزرتا ہے جہاں پر رات و دن برابر ہو جاتے ہیں۔ان میں سے ایک مشہور جغرافیہ دان ہمدانی ہے اس نے اپنی کتاب صفۃ جزیرۃ العرب میں عرب میں مشہور شہروں جن میں مکہ اور مدینہ بھی ہیں ذکر کیا ہے۔اس نظریہ کے مطابق کولمبس کا یہ نظریہ بنا کہ زمین کا ایک اور مرکز بھی ہے جو مغرب کے نصف پر موجود ہے قبہ ارین کہا جا ئے گا جو مقام میں اس سے بلند ہو گا جو مشرق میں ارین موجود ہے۔

مشہور عربی ملاح اور سمندر شناس احمد بن ماجد علی ہیں آپ سمندری علوم کے ماہر تھے آپ سمندر کے اسرار اور راستوں کے جاننے والے تھے۔جب آپ اس دنیا سے گئے تو سمندری علوم پر قیمتی کتب لکھ کر گئے ان کی یہ کتب و رسائل بحری اور کشتی رانی کے علوم پر مشتمل ہیں۔مغربی ماہرین نے ابن ماجد کی کتب سے استفادہ کیا ہےکہا جاتا ہے کہ ان کی کتب کے ذریعے ہی معروف پرتگالی واسکوڈے گاما نے دریافتیں کیں۔ابن ماجد کے رسائل و کتب کی تعداد سترہ تک ہے۔ان میں سے ایک کتاب "كتاب الفوائد في أصول علم البحر والقواعد" اور دوسری کتاب "حاوية الاختصار في أصول علم البحار" ہےیہ بحر رجز کی معلومات پر مشتمل ہے۔ان کی دیگر کتب میں بحری علوم،بحری علوم کے قواعد و ضابطے اور اسرار مذکور ہیں۔ابن ماجد کی معلومات نے فرانسی مستشرق جبریل فران کو حیرت میں ڈال دیا اس لیے اس نے بیسویں صدی کے اوائل میں انہیں پیرس سے نشر کیا۔فران نے ان کے مقدمے میں کہا ابن ماجد عظیم مولف ہیں وہ اس قابل ہیں کہ علمی دنیا میں موجود رہیں ۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ زمانہ وسطی کے جغرافیہ کی اہم کتب ان کی ہیں۔ ابن ماجد نے جنوبی سمندروں پر بہت اعلی معلومات دی ہیں اسی طرح انہیں نے مشرقی افریقہ،تائیوان جو چین کے ساتھ ہے ان کے بارے میں پندرویں صدی میں بڑی دقیق معلومات دیں۔ان کی کتابوں میں بحر احمر ،خلیج عربی اور بحر ہند کے بارے میں بھی بہت اہم تفاصیل ہیں۔مغربی چین اور ایشیا کے عظیم سمندر کے بارے میں بھی معلومات دی گئی ہیں۔ابن ماجد اور سلیمان مہری نے بحرہند کے ملاحوں کے لیے معلومات کو مختصر انداز میں بیان کیا ہے انہوں نے ہندی،افریقی،مغربی اور مشرقی بحری معلومات سے استفادہ کیا ہے۔اس طرح عربی بحری علم میں بہت زیادہ اضافہ کیا اور بہت زیادہ قیمتی معلومات دی ہیں باالخصوص جہاز رانی کی تاریخ اور جنوبی سمندروں میں تجارت کے بارے میں یہ وادسکوڈے گاما کے وہاں پہنچنے سے پہلے کی بات ہے۔

اس طرح علوم جغرافیہ اور جہاز رانی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ان کی معلومات میں کوئی غلطیاں نہیں ہیں۔اس کے برعکس ان سے پہلے یونانیوں کے جغرافیہ میں کافی اغلاط موجود تھیں۔انہیں معلومات کی بنیاد پر کریستوفر کولمبس کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ امریکہ دریافت کر سکے۔مسلمانوں کی جہاز رانی میں ترقی اور دریافتوں کا اظہار مشہور عثمانی جہاز ران محیی الدین بیری ریس سے بھی ہوتا ہے جس سولہویں صدی میں جو بڑے نقشے بنائے وہ اس قدر درست ہیں جدید ماہرین کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور انہوں نے یہ نقشے آج سے چار سو سال پہلے بنائے تھے۔