- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


علامة طباطبائي.. فلسفہ الحکمة المتعالیة کے آخری فلسفی
8 رجب 1442هـ

عارف وفلسفی سید محمدحسین طباطبائی ابن محمد طباطبائی مذھب جعفری کے بیسوی صدی عیسوی کے آخری دھائی کے اہم ترین فلسفی مفکرین میں سے ہیں ۔اسی طرح آپ اس مذہب کے سب سے مشہور مفسر قرآن بھی ہے ، آپ کی ولادت 1892ء بمطابق 1321ھ کو تبریز میں ہوئی اور 1981 ء بمطابق 1410ھ کو آپ کی وفات ہوئی ۔ آپ کی پرورش ایک علمی گھرانے میں ہوئی ،یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے اجداد میں تسلسل کے ساتھ چودہ افراد تبریز کے مشہور علماء میں شمار ہوتے رہے ۔

علامہ طباطبائی نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے آبائی شہر تبریز میں ہی حاصل کی ۔دینی تعلیمی نظام میں چھ سالہ مقدماتی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نجف الاشرف عراق تشریف لے گئے جو کہ اس زمانے میں بھی بہت بڑا عملی مرکز مانا جاتا تھا ،نجف الاشرف میں آپ نے دس سال کے عرصے میں سطوح علیا اور بحث خارج کے مراحل طے کئے اور پھر اپنے وطن تبریز لوٹ آئے ، تبریز واپس آکر تقریبا بارہ سال کاعرصہ شیراز کے گاؤں شاد آباد میں زراعت اور تالیف وتصنیف کے عمل میں مشغول رہے ،انہی سالوں میں آپ نے علم عرفان اور فلسفے سے متعلق اپنی کتابیں تحریر فرمائیں جن میں "الانسان قبل الدنیا " ، الانسان فی الدنیا "اور " الانسان بعد الدنیا " جیسی کتابیں شامل ہیں ۔

بارہ سال تک تبریز میں رہنے کے بعد مختلف اسباب کی بناء پر آپ عازم قم القدسہ ہوئے جو کہ علوم محمد و آل محمد علیہم السلام کے مراکز میں سے ایک بہت بڑا مرکز شمار ہوتا تھا ۔ پھر آپ نے اپنی زندگی کے باقی ایام قم المقدسہ ہی میں گزارے ۔ قم میں آپ دینی نےعلوم میں سے فقہ و اصول اور فلسفہ کی تدریس کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن کی تدریس کا بھی سلسلہ جاری رکھا جو بالآخر آپ کی شہرہ آفاق تفسیر " المیزان فی تفسیر القرآن " کی صورت میں منصہ شہود پر آگئی ۔ اس کے علاوہ آپ نے تحقیق و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور آپ کی زیادہ تر تالیفات اسی دورکی یاد گار ہیں ۔

 قم المقدسہ میں قیام کے دوران آپ کا طہران بھی جانا،آنا رہا اور وہاں بھی آپ نے دینی تعلیمات اور فلسفہ کی کلاسیں پڑھانے کا انتظام کیا ۔ آپ کی ان کلاسوں میں بہت سے ایسے شاگرد حاضر ہوتے تھے کہ جو بعد میں اسلامی فکر کے بڑے علماء میں شمار ہونے لگے ، اسی طرح ان کلاسوں میں مشہور محقق فرانسیسی مستشرق "ہنری کوربان " بھی شریک ہوا کرتے تھے جو اسلام کا تحقیقی مطالعہ کر رہے تھے ۔ تقریبا بیس سال تک علامہ طباطبائی کے ساتھ مباحثہ و مناقشہ کرنے کے بعد ہنیری کوربان نے اسلام قبول کیا اور مذہب جعفری کو اختیار کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے بارے میں خاص طور پر دلچسپی رکھتے تھے ۔

علامہ طباطبائی نے اجازہ اجتہاد اپنے استاد آیت اللہ محمد حسین نائینی سے حاصل کیا تھا جبکہ آیت اللہ شیخ علی القمی جو کہ آپ کے استاد اور کتاب " المستدرک علی وسائل الشیعہ " کے مصنف آیت اللہ محدث نوری کے چچا تھے ،نے آپ کو اجازت روایت دی تھی ۔ اسی طرح آپ قرآن مجید کے ایسے مفسر تھے کہ جن کی مثال قدیم و جدید مفسریں میں بہت کم ملتی ہے ۔

آپ کے اساتذہ میں سے

۔ علامہ شیخ محمد حسین نائینی (فقہ واصول)

۔  علامہ شیخ محمد حسین کمپانی (فقہ واصول)

۔ علامہ سید حسین بادکوبی (فلسفہ)

 ۔ علامہ سید ابوالحسن اصفہانی (فقہ)

 ۔ علامہ سید ابو القاسم خوانساری (ریاضیات )

۔ الحاج  یرزا علی قاضی (علوم عرفان و اخلاق ) وغیرہ زیادہ مشہور تھے جبکہ آپ کے شاگردوں میں سے

۔ شہید آیت اللہ مرتضی مطہری 

 ۔ شہید آیت اللہ دستغیب

۔ شہید موسی صدر  

۔ شہید سید بہشتی

 ۔ شہید ڈاکٹر مفتح 

 ۔ آیت اللہ جوادی عاملی

 اورآیت اللہ مصباح یذدی وغیرہ نمایاں ہیں ۔

 ان کے علاوہ آپ کےبہت سے شاگرد جن میں سے کچھ داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں اور کچھ اب بھی اللہ کے فضل و کرم سے زندہ ہیں ۔ درحقیقت آپ کے شاگرد ہی تھے کہ جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران کی فکری وثقافتی بنیادیں فراہم کی تھیں کہ جن پر انقلاب کی عظیم عمارت تعمیر ہوئی ۔ اور آپ ہی کے شاگردوں میں سے بہت سوں کو اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جو دورحاضر میں اسلامی مکتبہ فکر کی پھر پور نمائندگی کر رہے ہیں ۔

اسی طرح علامہ طباطبائی رح بیسوی صدی میں فلسفہ حکمت متعالیہ کے اہم ترین علمبردار بھی شمار ہوتے تھے ۔ بلکہ اس فلسفی مکتبہ فکر کے مطالب کو ترتیب دینے ، منظم کرنے اور تشریح کرنے والوں میں آپ کا مقام سب سے بلند دکھائی دیتا ہے ۔ آپ ہی کی کوششوں ، تدریس ،تحقیق اور تشریح کے نتیجے میں حکمت معالیہ اس زمانے میں اسلامی فلسفہ میں دلچسپی رکھنے والوں خصوصا عالم اسلام اور بالاخص حوزہ ہائے علمیہ میں معروف ہوا ۔

علامہ طباطبائی نے جدید فلسفہ اسلامی پر کئی کتابیں لکھیں ، لیکن نظریہ معرفت اسلامی میں آپ نے جو نطریات پیش کئے ،اور مفہوم اعتبار کو جس اہتمام سے آپ نے بیان کیا ،اور معارف فلسفی میں اسے اہمیت دینے پر جو آپ نے زور دیا وہ فسلفہ جدید میں آپ کی سب سے نمایاں خدمت شمار ہوتی ہے ، اس سلسلے میں آپ نے ایک رسالہ "رسالۃ فی الاعتبارات " بھی لکھا ۔

اگرچہ اسلامی دنیا میں آپ کی شہرت بے مثال تفسیر قرآن "المیزان فی تفسیر القرآن " سے ہوئی ،جس کے بارے میں ہم یہ دعوی کرنے میں حق بجانب ہیں کہ تفسیر قرآن کے میدان میں اسلامی  علوم کے سفر میں یہ سب سے اہم اور سب سے بہتر تفسیر لکھی گئی ہے ۔ لیکن معاصر حوزہ علمیہ میں آپ کی شہرت علم فلسفہ پر لکھی گئی آپ کی دو کتابوں "بدایۃ الحکمۃ " اور " نہایۃ الحکمۃ " سے ہوئی ہے ، جن میں آپ نے اسلامی فلسفہ کا خلاصہ حکمت متعالیہ کے مبانی کے مطابق بیان کیا ہے ۔ ان دونوں کتابوں کو آپ نے تدریسی اصولوں کے مطابق لکھا ہے ،اسی لئے یہ دونوں کتابیں موجودہ حوزہ ہائے علمیہ میں پڑھائی جانے والی سب سے اہم فلسفی کتابیں شمار ہوتی ہیں ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان مزکورہ کتابوں کے علاوہ بھی فکر و فلسفہ اسلامی کے بارے میں آپ کے اور بھی اہم مؤلفات ہیں ، جن میں "اصول الفلسفہ والمنہج الواقعی " کہ جس پر حاشیہ نگاری اور تشریح آپ کے شاگرد شہپید مرتضی مطہری نے کی ۔ اسی طرح " مقالات تاسیسیۃ فی الفکر الاسلامی "کہ جس میں بعض جدید فکری مسائل کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔ اس کے علاوہ آپ کی کتاب "حوار مع ہنری کربان " کہ جس میں دین ، فلسفہ و عرفان کےمختلف مسائل پر ہنری کوربان سے آپ کے بحث و گفتگو کو بیان کیا گیا ہے۔  علامہ طباطبائی جو چیز دنیا تک پہنچانا چاہتا تھا اس کا خلاصہ شاید آپ وہ مشہور قول ہے کہ " دین اسلام اور عقل کے درمیان افتراق ممکن نہیں ہے ، اور جب بھی قعل کسی عرفانی حقیقت تک رسائی سے عاجز آ جائے تو اسے علم و معرفت کے ھقیقی مصدر کے طور پر اسے دین اور وحی کی طرف رجوع کرنا چاہئے "۔

علامہ طباطبائی کی مشہور کتابوں میں :

 سے آپ کے علمی مباحثے

1۔ هنري كوربان

2۔ أصول الفلسفة

3۔ بداية الحكمة

4۔ نهاية الحكمة

5۔ الميزان في تفسير القرآن (23 مجلد)

6۔ الأعداد الأوليَّة

 7۔ علي والفلسفة الإلهيَّة

8۔ القرآن في الإسلام

  9۔ المرأة في الإسلام

10۔ من روائع الإسلام

  11۔ تعليقات على كتاب الأسفار للملّا صدرا

 12۔ تعليقات على كتاب أصول الكافي للكلينيّ

 13۔ تعليقات على كتاب بحار الأنوار لمحمد باقر المجلسيّ

14۔ تعليقات على كتاب الكفاية في علم أصول للآخوند الخراسانيّ.

  15۔ رسالة في الإنسان قبل الدُّنيا

 16۔ رسالة في الإنسان في الدُّنيا

17۔ رسالة في الإنسان بعد الدُّنيا.

 18۔ رسالة في الأسماء والصِّفات

19۔ رسالة في الاعتبارا

 20۔ رسالة في الأفعال

21۔ رسالة في البرهان

22۔ رسالة في التحليل

23۔ رسالة في التركيب

24۔ رسالة في الذَّات

25۔ رسالة في القوَّة والفعل

26۔ رسالة في المشتقات

27۔ رسالة في المغالطة

28۔ رسالة في نظم الحكم

29۔ رسالة في الوسائط

30۔ رسالة في الإسلام

ان کے علاوہ مختلف موضوعات پر بہت سے دیگر مقالات و رسائل شامل ہیں