- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


مکالمہ کے آداب قرآن کی روشنی میں
10 رمضان 1441هـ

انسان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور یہ پسند نہیں کرتے کہ اکیلے اور تنہائی میں رہیں۔اسی باہمی میل جول اور رہن سہن کی وجہ سے انسان کو علمی طور پر مدنی الطبع کہا جاتا ہے۔جب انسان مل جل کر رہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کریں اور ایک دوسرے کی آراء کو جانیں۔یہ دوسرے جانوروں کی طرح کا رابطہ اور گفتگو نہیں ہوتی جو انتہائی محدود ہے۔

قرآن مجید نے مثبت نتائج کے حصول کے لیے باہمی گفتگو اور مکالمہ کے آداب بتائے ہیں کہ یہ کیسے ہو گا ؟ تاکہ اس کے بہتر اور مستحکم نتائج نکلیں۔ان آداب کی پیروی سے انسان باہمی اختلاف جو لڑائی اور تضاد کی طرف لے جائے اس سے بچ سکتا ہے۔قرآن نے علم کی بنیاد پر مکالمہ کے آداب واضح کیے ہیں تاکہ ایسے نقصانات سے بچا جا سکے جو مکالمہ کے درست نہ ہونے سے ہو سکتے ہیں۔اس حوالے سے چند امور کی طرف قرآن مجید میں رہنمائی کی گئی ہے:

۱۔بہترین اندازِ مکالمہ

قرآن مجید اس بات کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ احسن انداز میں مکالمہ کیا جائے ارشاد باری تعالی ہے:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَة وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَة وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِه وَ ہُوَاَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ (سورة النحل ـ 125)

)اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

اللہ تعالی نے احسن انداز میں مکالمہ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے ایک تو اللہ نے فضل کیا اور لوگوں کی رہنمائی اور ان کی ہدایت کے لیے انبیاءؑ کو مبعوث فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں بار بار تاکید فرمائی کہ وہ احسن انداز میں اپنا مقدمہ پیش کریں یہاں تک ان کافروں کے سامنے بھی احسن انداز اختیار کریں جو خدا اور اس کے پیغام کے دشمن تھے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

)وَلَا تُجَادِلُواأَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ))سورة العنكبوت ـ 46(

اور تم اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر بہتر طریقے سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کہدو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب) پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔

مکالمہ کی ہدایت الہی یہ ہے کہ سب سے پہلے جو سامنے موجود ہے اس کی ادلہ اور حجج کو سنا جائے اور پھر ان پر بہترین انداز میں تنقید کی جائے اور رائے کا اظہار کیا جائے۔اس انداز مکالمہ میں بہت زیادہ اثر ہے اور اس سے اس مدمقابل کو جو شدید مخالف ہے اسے بہترین دوست بنا سکتے ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (سورہ فصلت ۳۳)

اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا: میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ )سورہ فصلت ۳۴)

اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔

وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَمَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ (سورۃ فصلت ۳۵)

اور یہ (خصلت) صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔

ان تمام آیات سے پتہ چلتا ہے کہ بہترین انداز میں مکالمہ کرنا ہی قرآنی طرز مکالمہ ہے۔

۲۔دلیل سے بات کرنا

قرآن کریم جس مکالمہ کی بات کرتا ہے دراصل وہ طرف مقابل کے فائدے کا مکالمہ ہے ۔وہ بحث برائے بحث نہیں ہے جس میں مدمقابل کو شکست دینا ہی مطلوب ہوتا ہےکہ جس میں دلیل اور منطق کی کوئی بات نہیں ہوتی۔اسلام جس مکالمہ کی بات کرتا ہے اس میں منطق کی طاقت ہوتی ہے نہ یہ کہ آواز کی زور آزمائی ہو۔دلیل کے مقابل دلیل ہو گی برہان کے مقابل برہان ہو گا۔قرآن مجید کی بہت سی آیات اسی طرف رہنمائی کرتی ہیں ارشاد باری تعالی ہے:

وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ۔بَلٰی٭مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

اور وہ کہتے ہیں: جنت میں یہودی یا نصرانی کے علاوہ کوئی ہرگز داخل نہیں ہو سکتا، یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں، آپ کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔ ہاں! جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ نیکی کرنے والا ہے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی حزن ۔

اَمِ اتَّخَذُوۡامِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ ۚ ہٰذَا ذِکۡرُ مَنۡ مَّعِیَ وَذِکۡرُ مَنۡ قَبۡلِیۡ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ۙ الۡحَقَّ فَہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ (سورۃ الانبیاء:۲۴)

کیا انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا لیے ہیں؟ کہدیجئے: تم اپنی دلیل پیش کرو، یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے پہلے والوں کی کتاب ہے، (ان میں کسی غیر اللہ کا ذکر نہیں) بلکہ اکثر لوگ حق کو جانتے نہیں اس لیے (اس سے) منہ موڑ لیتے ہیں۔

اَمَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَمَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ(سورۃ النمل:۶۴)

یا وہ بہتر ہے جو خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ کہدیجئے: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم لوگ سچے ہو۔

فَلَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُوۡتِیَ مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ۚ قَالُوۡا سِحۡرٰنِ تَظٰہَرَا ۟ٝ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا بِکُلٍّ کٰفِرُوۡنَقُلۡ فَاۡتُوۡا بِکِتٰبٍ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ہُوَ اَہۡدٰی مِنۡہُمَاۤ اَتَّبِعۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ القصص:۴۸،۴۹)

پھر جب ہماری طرف سے حق ان کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے: جیسی (نشانی) موسیٰ کو دی گئی تھی ایسی (نشانی) انہیں کیوں نہیں دی گئی؟ کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا جو قبل ازیں موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: یہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے والے جادو ہیں اور کہا: ہم ان سب کے منکر ہیں۔۴۸ کہدیجئے: پس اگر تم سچے ہو تو تم بھی اللہ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخش ہو، میں اس کی اتباع کروں گا۔

ان تمام آیات میں دلیل ،برہان اور حجت کی بات کی جا رہی ہےکہ انہیں کی بنیاد پر مکالمہ کو آگے بڑھایا جائے گا۔

۳۔انصاف کی سربلندی

قرآن کریم جس مکالمہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس میں انصاف کی سربلندی اور حق کی پیروی کی بات ہے اس میں  ہر صورت غلبہ کی نفسیات کار فرما نہیں ہیں۔اس میں مطمع نظر یہ ہوتا ہے کہ مدمقابل کو کچھ مزید وضاحت کی ضرورت ہے تاکہ اس کے لیے حقیقت واضح ہو جائے اور وہ انصاف و حقیقت کو پا سکے ۔یہاں مقصد، کالمہ کرنے والے یا جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس  سے کسی قسم کے تعصب کا اظہار کرنا نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ مکالمہ میں مورد بحث مسئلہ میں مخالف  رائے کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں غلطی کو معاف کیا جاتا ہے اور  حقیقت کے آشکار ہو جانے پر اسے قبول کیا جاتا ہے۔مکالمہ کے ذریعے بہتر سے بہترین تک پہنچنے کی جستجو کی جاتی ہے۔جس طرف دلیل لے جائے اس نظریہ  اور حقیقت کو قبول کیا جاتا ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ(سورۃ آل عمران:۶۱)

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

یہ آیت مجیدہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ  ادلہ کی روشنی میں جو نتیجہ آئے اسے قبول کیا جانا چاہیے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ قُلِ اللّٰہُ ۙ وَاِنَّاۤ اَوۡاِیَّاکُمۡ لَعَلٰی ہُدًی اَوۡ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ(۲۴) قُلۡ لَّا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّاۤ اَجۡرَمۡنَا وَلَا نُسۡـَٔلُ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ (۲۵) قُلۡ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفۡتَحُ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ ؕ وَ ہُوَ الۡفَتَّاحُ الۡعَلِیۡمُ(۲۶) قُلۡ اَرُوۡنِیَ الَّذِیۡنَ اَلۡحَقۡتُمۡ بِہٖ شُرَکَآءَ کَلَّا ؕ بَلۡ ہُوَ اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (سورۃ سبا :۲۴۔۔۲۷)

ان سے پوچھیے:تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ کہدیجئے: اللہ، تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔۲۴ کہدیجئے:ہمارے گناہوں کی تم سے پرسش نہیں ہو گی اور نہ ہی تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال ہو گا۔۲۵  کہدیجئے: ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان حق پر مبنی فیصلہ فرمائے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا، دانا ہے۔ ۲۶  کہدیجئے: مجھے وہ تو دکھاؤ جنہیں تم نے شریک بنا کر اللہ کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز نہیں، بلکہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا صرف اللہ ہے۔