اللہ تعالی کے تمام انبیاء ؑ کا رب کی طرب بلانے کا طریقہ انتہائی اعلی تھا اور وہ اللہ کی طرف دعوت بہترین مکالمے کے ذریعے دیتے تھے اور وہ ہر طرح سے مخالفین کو راضی کرتے تھے۔انبیاءؑ کا طریقہ بہترین تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاءؑ کا پہلا اورآخری مقصد لوگوں کی ہدایت کرنا اور ان کی اصلاح کرنا تھا۔ انبیاءؑ کا مقصد دنیا میں کوئی عہدہ حاصل کرنا نہیں تھا جیسا کہ عام طور پر آج کے معاشرے میں لوگ ہر کام دنیا میں کسی نا کسی مقام و مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہاں پر حضرت ابراہیم ؑ کی ان کے چچا آزر سے جو بات چیت ہوئی اسے بیان کریں گے جب حضرت ابراہیمؑ نے آزر کو بتایا کہ کس طرح جنہیں وہ خدا مانتا ہے وہ کسی قسم کا فائدہ و نقصان نہیں پہنچا سکتے ؟
مکالمے کی تفصیل میں جانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آزر کے لیے حضرت ابراہیم ؑ نے لفظ اب کا استعمال کیا ہے اس کی وضاحت کرلی جائے۔عربی زبان میں لفظ اب کا مطلب صرف سلبی باپ نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس سے مراد نانا بھی ہوتا ہے،اسی طرح کبھی کبھی اس سے مراد تربیت کرنے والا،استاد اور مرشد بھی ہوتا ہے چچا کے لیے یہ لفظ بطریق اولی استعمال ہوتا ہے اور ہماری بحث بھی اس کے چچا کے لیے استعمال ہونے پر ہے۔اللہ تعالی نے لفظ اب کو چچا کے لیے قرآن مجید میں استعمال کیا ہے:
((أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وإله آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إلها وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ))(سورة البقرة ـ 133)
کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا؟ اس وقت انہوں نے اپنے بچوں سے کہا: میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ سب نے کہا: ہم اس معبود کی بندگی کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آبا و اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے جو یکتا معبود اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔
حضرت یعقوب ؑ کی اولاد نے کہا کہ ہم اپنے آباء ابراہیمؑ،اسحقؑ اور اسماعیلؑ کے خدا کی عبادت کریں گے،یہاں حضرت اسماعیلؑ کو آباء میں سے شمار کیا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت اسماعیلؑ آل یعقوب کے باپ نہیں تھے بلکہ حضرت یعقوب ؑ کے چچا تھے مگر یہاں لفظ اب ان کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔مسلمان علما کا اتفاق ہے کہ انبیاءؑ کے باپ موحد ہوتے ہیں اسی لیے حضرت ابراہیمؑ سے لے کر حضرت آدمؑ تک کا پورا سلسلہ موحدین کا ہے اور ان میں سے کوئی بھی کافر نہیں ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ اللہ نے مجھے پاکیزہ اصلاب سے پاکیزہ رحموں میں رکھا اور جہالت کی ناپاکیوں نے مجھے ناپاک نہیں کیا۔
حضرت ابراہیمؑ کا اپنے چچا کو دعوت دینا در اصل ان تک پیغام توحید کو پہنچانا ہی تھا جیسا کہ باقی انبیاءؑ نے بھی ایسا ہی کیا اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی سب سے پہلے اپنے خاندان کو تبلیغ دین کا حکم دیا گیا ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ))(سورة الشعراء ـ 214)
اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔
اسی طرح حضرت ابراہیمؑ نے بھی سب سے پہلے دعوت توحید اپنے قبیلے والوں کو دینا شروع کی ۔ یہاں سے ہم حضرت ابراہیمؑ اور آزر کے درمیان ہونے والے مکالمے پر بات کرتے ہیں اس کو نقل کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
((ِوَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا (41) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا (42) يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا (43) يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا (44) يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا (45) قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا (46) قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا (47) وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا (48) فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا (49) وَوَهَبْنَا لَهُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا(50))(سورة مريم 41 ـ 50)
۴۱۔ اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے، یقینا وہ بڑے سچے نبی تھے۔۴۲۔ جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) سے کہا: اے ابا! آپ اسے کیوں پوجتے ہیں جو نہ سننے کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ دیکھنے کی اور نہ ہی آپ کو کسی چیز سے بے نیاز کرتا ہے۔۴۳۔ اے ابا! بتحقیق میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری بات مانیں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔۴۴۔ اے ابا! شیطان کی پوجا نہ کریں کیونکہ شیطان تو خدائے رحمن کا نافرمان ہے۔۴۵۔ اے ابا! مجھے خوف ہے کہ خدائے رحمن کا عذاب آپ کو گرفت میں لے لے، ایسا ہوا تو آپ شیطان کے دوست بن جائیں گے۔۴۶۔ اس نے کہا: اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہو گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے ضرور سنگسار کروں گا اور تو ایک مدت کے لیے مجھ سے دور ہو جا۔۴۷۔ ابراہیم نے کہا: آپ پر سلام ہو! میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا یقینا وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے۔۴۸۔ اور میں تم لوگوں سے نیز اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان سے علیحدہ ہو جاتا ہوں اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا، مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہوں گا۔۴۹۔ پھر جب ابراہیم ان لوگوں سے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پوجتے تھے ان سے کنارہ کش ہوئے تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے اور سب کو ہم نے نبی بنایا ۔۵۰۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت سے بھی نوازا اور انہیں اعلیٰ درجے کا ذکر جمیل بھی عطا کیا ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پر حضرت ابراہیمؑ نے منطقی انداز اختیار کرتے ہوئے اور بہترین دلیل کے ساتھ آزر سے بات کی ہےاس میں انہوں نے اللہ کی حقانیت کو ثابت کیا ہے اور بتوں کی ناتوانی کو بتایا ہے کہ وہ کسی قسم کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ انسان جب عبادت کرتا ہے تو وہ اس رب کی عبادت کرتا ہے جو اس کے نفع و نقصان کا مالک ہے اور یہ بت اس طرح کی کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ ہم دعوت توحید کو علم کلام میں ذرا اور طرح سے موضوع بحث بناتے ہیں۔ دفع ضرر محتمل یعنی ایک صاحب قوت کا پیغام آتا ہے اور اس پر عمل نہ کرنے کی بڑی سزا ہے اب اگر عمل نہ کریں تو جو سزا ہے وہ بہت بڑی ملنے کا خطرہ ہے اس لیے اس سے بچنے کے لیے اس حکم کے پر عمل کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے جس طرح دریافت کیا یہ استفہام انکاری کہلاتا ہے کہ جن کی آزر پرستش کر رہا ہے وہ کسی بھی طرح کا نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ جن کی پرستش آزر کر رہا ہے وہ اتنے بے بس ہیں کہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو وہ اپنے ماننے والوں کے نفع و نقصان میں کیسے موثر ثابت ہو سکتے ہیں؟
حضرت ابراہیمؑ اور آزر کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کی عقائد میں بڑی اہمیت ہے اس میں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے چچا آزر سے کہا وہ ایسے خدا کی عبادت کرے جو اسے کچھ دے سکے ،اسے فائدہ پہنچا سکے اور اس سے بڑھ کر اس پر آنے والی مشکلات کو دور کرے اور جس کی وہ عبادت کر رہا ہے وہ اسے فائدہ پہنچانے والے ہوں۔ یہ بات بڑی واضح ہے کہ وہی مشکلات کو دور کرسکتا ہے جو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ خدا کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بندوں کی حاجات کو جانتا ہو اور پھر ان کی حاجات کو پورا کرے اور بتوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ایسی کسی صلاحیت کے حامل نہیں ہیں کیونکہ وہ سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں اور ان کے پاس خود کچھ نہیں ہے یہ کسی دوسرے کی کیا مدد کریں گے ۔قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کسی کو کچھ دے نہیں سکتا۔
حضرت ابراہیمؑ نے اپنی دلیلوں کو جاری رکھا اور جو باتیں آزر نہیں جانتا تھا وہ بتاتے رہے تاکہ اپنے چچا آزر کو منطقی انداز میں دعوت دین دے سکیں۔ ان کا چچا اس بات سے ٖغافل کہ حضرت ابراہیمؑ کو علم اور نبوت میں سے پروردگار نے جو کچھ عطا کیا تھا۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
((يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا))(سورہ مریم ۴۳ )
۴۳۔ اے ابا! بتحقیق میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری بات مانیں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔
یہاں حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی ان نعمتوں علم اور نبوت کا ذکر فرمایا ہے کہ جو پروردگار نے انہیں عطا کیں تھیں اور جن سے آزر لاعلم تھا۔اسی طرح آزر اس بات سے بھی لاعلم تھا کہ اللہ نے حضرت ابراہم ؑ کو جو علم عطا کیا تھا۔حضرت ابراہیم ؑ کا راستہ بڑا واضح تھا اس میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں تھی اور حضرت ابراہیمؑ اس پورے مکالمے سے اپنے چچا کی ہدایت چاہتے تھے۔ شیطان کی عبادت رحمن کے عذاب کا باعث ہے یہان پر شیطان کی عبادت سے مراد اس کے راستے پر چلنا اور اس کے سامنے جھکنا ہے اور جو شیطان کی عبادت کرتا ہے وہ جہنم میں جائے گا اور اس کا راستہ نقصان کا راستہ ہے۔
اس پورے مکالمے میں حضرت ابراہیمؑ بڑی محبت اور بڑی نرمی کے ساتھ پیغام خدا پہنچا رہے ہیں۔جس طرح آزر انکار کر رہا ہے یہ سرکشوں والا انکار ہے اور آزر حضرت ابراہیمؑ کو رجم کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔یہ بات ملحوظ رہے کہ رجم کرنا سخت ترین سزاوں میں سے ہے۔یہ مکالمہ نبوت کے ابتدائی ایام کا ہے جب تک حضرت ابراہیمؑ نے ان کے بت نہیں توڑے اور اسی طرح نمرود کی آگ میں آپ کے پھینکے جانے سے پہلے کی بات ہے۔
اس کے بعد آزر اور سختی کرتا ہے اور اپنے بھتیجے سے قطع تعلقی کی بات کرتا ہے اور خود سے دور کرنے اور الگ ہونے کا کہتا ہے جیسے قرآن نے نقل کیا ((اهْجُرْنِي مَلِيًّا)) جب حضرت ابراہیم ؑنے دعوت میں اصرار کیا تو یہ جواب تھا۔یہ جواب بتاتا ہے کہ آزر شکست کھا چکا تھااور اگر حضرت ابراہیمؑ وہاں موجود رہتے تو یہ اسے اپنے عقیدے کی توہین لگتی تھی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آزر کی دلیلیں کمزور تھیں جو اس کے عقائد کا تحفظ نہیں کر سکتی تھیں۔
اس طرح آزر نے جو جوابات حضرت ابراہیمؑ کو دیتے تھے ان میں سختی نظر آتی ہے اور دھمکی اور مار پیٹ کی طرف مائل نظر آتا ہے جبکہ حضرت ابراہیمؑ اپنے قول فعل میں اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بہت سے مقامات پر حضرت ابراہیمؑ کی طرف سے آزر کے لیے محبت کے کلمات آئے ہیں قرآن میں آیا ہے:
((سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا)) (سورہ مریم ۴۷ )
۴۷۔ ابراہیم نے کہا: آپ پر سلام ہو! میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا یقینا وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے۔
حضرت ابراہیمؑ نے بہترین دعوت دی اسی طرح حضرت ابراہیمؑ نے آزر کو خوف خدا دلانے کے لیے اللہ کے عذاب سے بھی ڈرایا اور دیگر باتیں بھی کیں جن سے امکان تھا کہ آزر ایمان لے آئے۔ اس سب کے باوجود وہ ایمان نہیں لایا پھر بھی حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے لیے دعا کرنے کا وعدہ کیا اور فرمایا :
((سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي)) میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا
حضرت ابراہیمؑ نے اپنے چچا آزر کو صحیح راستے پر لانے کی پوری کوشش کی اور اس کے لیے دعا اور استغفار کرتے رہے۔ آزر نے دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا اور انکار پر ڈٹا رہا۔ ایسا نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت میں کوئی فرق آئے یہ اس وجہ سے تھا کہ آزر میں حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور وہ حق و حقیقت کو قبول نہیں کرتا۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا)) (سورہ مریم ۴۸)
اور میں تم لوگوں سے نیز اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان سے علیحدہ ہو جاتا ہوں اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا، مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہوں گا۔