ان کا نام بریر بن خضیر ہمدانی مشرقی ہے اور ان کے والد کا نام حصین یا حضیر یا حفیر ہے، ان کا سلسلہ نسب بنی مشرق سے جا ملتا ہے، جو ہمدان کےمرکزی اورمعروف یمنی عرب قبائل میں سے ایک ہے۔ بلکہ وہ ان کا سردار اور معزز ترین شخص تھا۔
آپ شہر کوفہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت بریر بن خضیر کو امیر المومنین امام علی علیہ السلام اور دو اماموں حسنین علیھما السلام کی صحبت میں زیادہ زندگی گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت بریر کو قاریوں کا سردار بھی کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی تفسیر قرآن کے علاوہ تلاوت بھی مٹھاس اور خوبصورتی سے سرشار ہوا کرتی تھی۔ آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنھوں نے مولا علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے روایت اخذ کر کے نقل کیے ہیں۔ جیسا کہ مامقانی رضوان اللہ تعالی علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت بریرعلیہ السلام نے امام علی اور امام حسین علیھما السلام سے جو کچھ نقل کیا تھا اسے آپ نے "القضایا و الاحکام" نامی کتاب میں لکھا تھا۔ حضرت بریر علیہ السلام دانشمندی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔آپ اپنی قوم بنی ہمدان کا سردار ہونے کے ساتھ ساتھ جرأت اور بہادری میں بھی بے مثال تھے یہاں تک کہ دسویں محرم سنہ 61ھ کو با وقار اندا ز میں ہجرت کر کے اپنے آقاو مولا امام حسین علیہ السلام کی حمایت کرتے ہوے جام شہادت نوش فرمایا اوران کو اپنے آقا و مولا حضرت امام حسین علیہ السلام کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت بریر کا امام حسین علیہ السلام کی حمایت کرنے اور شہید ہونے کے بارے میں کچھ اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عراق کے )شہر)کوفہ سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ امام حسین علیہ السلام کی بیعت کریں اور ان کے اصلاحی منصوبے میں ان کا ساتھ دیں۔ان کی بیعت کعبہ شریف کے قریب ہوئی اور پھر وہاں سے اپنے مولا کے ساتھ کربلا کی طرف رخت سفر باندھ لیا تاکہ اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کے سامنے جام شہادت نوش کرسکے۔ موت سے ان کی انسیت کایہ عالم تھا کہ وہ دسویں محرم کو اپنی شہادت کے قریب حضرت عبدالرحمٰن الانصاری کے ساتھ مذاق کر رہے تھے، حالنکہ اس جنگ کی فضا میں اس مذاق پر حضرت عبداللہ انصاری نے ان کی سرزنش کی تو حضرت بریر اس طرح گویا ہوئے "خدا کی قسم، میری قوم کو معلوم تھا کہ میں جھوٹ کو پسند نہیں کرتا، خدا کی قسم جو ہمارے ساتھ ہونے والا ہے میں اس بات پر خوش ہوں۔ خدا کی قسم ہمارے اور حور العین کے درمیان رکاوٹ صرف یہ قوم اور ان کی تلواریں ہیں۔میں بہت زیادہ چاہتا ہوں کہ یہ لوگ اپنی تلواروں کے ساتھ ہمارے مقابلے میں آجاے"۔
معرکہ کربلا میں حضرت بریر کی شجاعت، اہل بیت کے ساتھ ان کی وفاداری اور عقیدت کی انتہا اس طرح ظاہر ہوئی کہ جب دونوں طرف کی افواج کے درمیان جنگ شروع ہوتے وقت انہوں نے یزید بن معقل کو مباہلے کی دعوت دی، اس پر اس نے کہا کہ
’’اے بریر بن خضیر تم کیسے دیکھتے ہو کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟‘‘
بریر نے کہا: " اللہ کی قسم خدا نے میرے ساتھ اچھا کیا، اور خدا نے تمہارے ساتھ برا کیا."
یزید نے کہا: "تم جھوٹ بول رہے ہو اور آج سے پہلے تم جھوٹ نہیں بولتے تھے کیا تمھیں یاد ہےکہ میں تم سے ملنے کے لئے بنی دودان میں آیا تھا اور تم کہ رہے تھے کہ بے شک عثمان فلاں فلاں تھا اور معاویہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہےاور علی ابن ابی طالب برحق اور ہدایت کا امام ہے؟"
بریر نے جواب دیا:’’میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ میرا عقیدہ اور میرا قول ہے۔‘‘
یزید نے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ تو گمراہوں میں سے ہے۔‘‘
بریر نے کہا: ’’کیا تم میرے ساتھ مباہلہ کرو گے؟ اور ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جھوٹے پر لعنت کرے، اور اہل حق اہل باطل کو مار ڈالے ۔پھر تم میرے ساتھ لڑنے کے لئے آجاو۔‘‘ پس یزید نے اسے قبول کر لیا اور حضرت بریر کے قریب آگیا۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ مباہلہ کے لئےاٹھا کر خدا سے دعا کی کہ وہ جھوٹے پر لعنت بھیجے اور اہل حق اہل باطل کو مار ڈالے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگے اور ایک دوسرے کو مارنے لگے ابتدا میں یزید نے بریر پر ایک ہلکی سی ضرب لگائی اس سے کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچالیکن حضرت بریر علیہ السلام نے یزید پر ایک ایسی ضرب لگائی کہ تلوار اس کی مغز کو کاٹتی ہو ئی دماغ تک پہنچ گئی۔ حضرت بریر کا وار اتنا شدید تھا کہ بریر کی تلوار اس کے سر میں پیوست ہوگئی اور یزید بن معقل واصل جہنم ہوگیا۔
آپ کی حکمت اور جرأت کی ایک مثال یہ ملتی ہے کہ آپ نے جنگ سے پہلے امام حسین علیہ السلام سے عمر بن سعد کے پاس جانے کی اجازت مانگی۔انھیں اجازت مل گئی اوروہ عمر کے خیمے میں داخل ہوا اور سلام کیے بغیر بیٹھ گیے۔عمر کو بہت غصہ میں آیا اور کہا: اے ہمدانی بھائی، مجھے سلام کرنے سے تمھیں کس چیز نے روکا؟میں خدا اور اس کے رسول کو پہچاننے والا مسلمان نہیں ہوں میں بھی حق کی گواہی دیتا ہوں!
حضرت بریر علیہ السلام نے اس سے کہا: "اگر تم خدا اور اس کے رسول کو جانتا ہے۔ جیسا کہ تم دعوی کر رہا ہے۔ تو تم رسول اللہ کے گھر والوں کے پاس ان کو قتل کرنے کی خواہش میں نہ نکلتا! حالنکہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ فرات اپنی پاکیزگی کے ساتھ ڈھلتی ہے، اور یہ فرات اس طرح چل رہی ہے جیسے سانپ چلتی ہیں، اس فرات سے سرزمین عراق کے کتے پانی پی لیتے ہیں ،ان کے سور اس سے سیراب ہو رہےہیں۔اور حسین بن علی علیھما السلام،ان کے بھائی، ان کی عورتیں اور ان کا خاندان پیاس سے مر رہے ہیں!تو نے ان کے لیے فرات کے پانی کو پینا ناممکن بنا دیا ہے۔ اور تم دعوا کر رہا ہے کہ تم اللہ اور رسول کو جانتے ہیں ۔
حضرت بریر کی باتوں کو سننے کے بعد عمر بن سعد ایک گھنٹہ تک زمین کی طرف دیکھتا رہا، پھر اپنا سر اٹھایا اور کہا: خدا کی قسم اے بریر، میں یقین سے جانتا ہوں کہ جس نے بھی ان سے جنگ کی اور ان کا حق غصب کیا لازماً آگ اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگا۔لیکن اے بریر کیا آپ مجھے رے کی ریاست چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہو، اور یہ کسی اور کے لئے مل جائے گی!؟خدا کی قسم میں اپنے آپ کو اس سوال کا جواب دینے والا نہیں پاتا۔چنانچہ حضرت بریر علیہ السلام اپنے مولاحضرت امام حسین علیہ السلام کے پاس واپس آگئے اور کہا: "اے فرزند رسول اللہ! عمر بن سعد آپ کو رے کی بادشاہت کے بدلےمیں قتل کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے انھیں حق کی حفاظت کی خاطر ہونے والی جنگ سے پہلے ظالموں کو تبلیغ کرنے کے لیے مقرر فرمایا تو اس وقت آپ ان کے درمیان کھڑے ہو کر بلند آواز کے ساتھ کہنے لگے اے قوم ! تم اللہ سے ڈرو، تم لوگوں کے درمیان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کے ثقل (یعنی اہل بیتؑ) ہیں، یہرسول اللہ کی ذریت اور ان کی عترت ہیں اور رسول گرامی قدر کی بیٹیاں اور عزت و ناموس تمہارے درمیان ہیں۔ ان کے بارے میں تمہارے کیا منصوبے ہیں؟ آخر تم ان سے کس چیز کا انتقام لینا چاہتے ہو؟! ابن سعد کے لشکر والوں نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ ہم انہیں ابن زیاد کے سپرد کر دیں اور وہ ان کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرے اس پر عمل کیا جاے ۔ بریر نے ان سے کہا: کیا تمہیں یہ قبول نہیں ہے کہ یہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس لوٹ جائیں؟ اے اہل کوفہ تمہارے لیے ہلاکت ہو! کیا تم اپنے خطوط اور اپنے ان عہد و پیمان کو بھول گئے جو تم لوگوں نے ان سے باندھے تھے اور اس وقت تم نے اللہ کو گواہ بنایا تھا!! تم لوگ برباد ہو ! کیا تم لوگوں نے اپنے نبی کے اہل بیت کو دعوت نہیں دی تھی !! کیا تم نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ تم لوگ ان کے ماتحت اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرو گے؟! جب اہل بیت آ گئے ہیں تو تم انہیں ابن زیاد کے سپرد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور تم لوگوں نے ان پرفرات کا پانی بند کر دیا ہے !! تم لوگوں نے اپنےنبی کی ذریت اور خاندان سے کس قدر بُرا سلوک کر رہے ہیں! تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے! اللہ روز قیامت اللہ تمہیں ہر گز سیراب نہ کرے، تم کس قدر برائی اور ظلم پر تلے ہوئے ظالم لوگ ہیں ۔
اس پر بُریر نے کہاحمد و ثناء اس اللہ کے لیے ہے جس نے تم لوگوں کے بارے میں میری بصیرت میں اضافہ کیا ہے، بار الہٰا ! میں اس قوم کی حرکتوں سے تیری بارگاہ میں براءت کا اعلان کرتا ہوں، بارالہٰا! انھیں شدید مشکلات میں گرفتار کر دے یہاں تک کہ یہ تجھ سے اس حالت میں ملاقات کریں کہ تم ان پر شدید غضبناک ہو۔
روایات میں ہے کہ حضرت بریر بن خضیر نے جب یہ بدعا کی تو ابن سعد کے لشکر والوں نے بریر پر تیر برسانا شروع کر دیئے ۔پھر وہ لوگوں کے پاس چلے گئے اور اس طرح رجز پڑھ رہے تھے۔
أنا بُرير وأبي خُضيــــــــــــر
ليث يروع الأسد عند الزئـــر
يعرف فينا الخيـر أهل الخيـر
أضربكم ولا أرى من ضيــ
كذاك فعل الخير من بُريــــر
میں بریر ہوں اور میرے والد خضیر ہیں میں وہ شیر ہوں جو دھاڑتا ہے تو شیر بھی ڈر جاتے ہیں اہل خیر ہم کو خیر سے پہچانتے ہیں تمہیں ایسی ضرب لگاؤں گا اور میں اس کو نقصان نہیں سمجھتا اسی طرح سے بریر سے نیک کام انجام پاتا ہے۔
آپ کے بارے میں جو خوبصورت باتیں کہی گئی ہیں ان میں علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی ہے کہ "وہ خدا کے نیک اور صالح بندوں میں سے تھے"
جیسا کہ شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے بارے میں کہا: "بریر اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ تلاوت کرنے والے تھے۔"
شیخ مامقانی نے بھی ان کی ولایت کی توثیق کی ہے، اہل بیت علیہم السلام سے ان کی محبت،بے مثال عقیدت مسلم بات تھی۔ ان کی وثاقت و عظمت کے سب لوگ یہاں تک کہ مخدرات تک معترف تھیں ۔وہ موثق اور عظیم ذات ہیں۔ ان کی شہادت نے ان کی عظمت و قداست میں مزید اضافہ کیا اور امام حسین علیہ السلام کےمکمل پیروکار ہونے کو ثابت کردیا ۔ اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے۔(آمین)