- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


عارف،متکلم،عابد امین اور متقی حضرت قنبرؓ
10 رمضان 1443هـ

آپ کا نام قنبر بن حمدان ؓہے جبکہ آپ کی کنیت ابی ہمدان ہے۔آپ کا شمار پہلی صدی ہجری کے بزرگ شخصیات میں سے ہوتا ہے۔آپ امیر المومنین حضرت علی ؑ کے غلام تھے۔آپ کی شہرت حضرت امیر المومنینؑ کی اطاعت گزاری اور فرمانبرداری سے ہے۔ حضرت قنبر ؓ صرف خادم نہیں تھے بلکہ آپ حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد،امانتدار،مخلص ساتھی اور ہم راز تھے۔ آپ نے چشمہ علوی سے خود کو سیراب کیا،آپ کی تربیت گھرانہ امامت و ولایت میں حضرت علیؑ ،حضرت فاطمہؑ اور حضرات حسنین علیہم السلام نے کی۔اسی طرح آپ ان لوگوں میں سے تھے جو امیر المومنین ؑ کا حق پہچانتے تھے اور امیر المومنین ؑ کی ولایت پر ثابت قدم رہے۔آپ نے ہمیشہ امیر المومنین ؑ اوراہلبیت علیہم السلام کے حق کا دفاع کیا یہاں تک کہ ایک رات آپ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے پیچھے چل رہے تھے ایسے میں حضرت علیؑ نے انہیں دیکھ لیا اور پوچھا کیا بات ہے قنبرؓ؟ حضرت قنبرؓ نے جواب دیا میں آپ کی پیروی میں یہاں تک آیا ہوں(تاکہ آپ کی حفاظت کروں)حضرت امیر ؑ نے فرمایا : کیا تم میری اہل زمین سے حفاظت کرو گے یا اہل سماء سے حفاظت کرو گے؟ تو حضرت قنبر ؓ نے کہا میں اہل زمین سے آپ کی حفاظت کروں گا۔ اس پر امیر المومنینؑ نے فرمایا اہل زمین سے اس وقت کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے جب تک اللہ اس کی اجازت نہ دے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ حضرت قنبرؓ ہمیشہ حضرت علیؑ کے ساتھ رہتے تھے،آپ کے احکامات کو نافذ کرتے تھے اور قول و فعل سے آپؑ کا دفاع کرتے تھے۔ جب حضرت علیؑ کی کوفہ میں حکومت قائم ہو گئی تو آپ نے حضرت قنبر ؓ کو بیت المال میں ذمہ داریاں دیں۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی،خاص طور پر آپ جنگ صفین میں شریک ہوئے اس میں حضرت علیؑ کے لشکر کا پرچم آپ کے پاس تھا۔اس وقت دشمن کے لشکر کا پرچم عمرو بن عاص کے غلام نے اٹھایا ہوا تھا ۔حضرت قنبر ؓ انتہائی بہادی اور شجاعت سے لڑے اور اسے قتل کر دیا۔اسی طرح معاویہ کے غلام حرب کو بھی قتل کر دیا۔ اس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بڑا مشہور بہادر جوان تھا۔ آپ اس دن زخمی ہوئے جب آپ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھم السلام کے پاس موجود تھے اور انقلابی عثمان بن عفان کے گھر داخل ہوئے۔ حضرت قنبرؓ ،حضرت اویس قرنیؒ، حضرت میثم تمارؒ،حضرت مالک اشتر،حضرت کمیل بن زیادؒ اور حضرت حبیب بن مظاہر اسدیؓ جیسے خواص میں شامل تھے جو حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے۔

حضرت قنبرؓ کی شہرت ایک متقی،عابد،عارف اور متکلم کی ہے۔اس سے آپ کو حضرت علیؑ کے ہاں بہت اعلی منزلت حاصل تھی اسی لیے امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ قنبرؓ حضرت علیؑ کے غلام تھے اور حضرت علیؑ سے شدید محبت کرتے تھے۔ آپ کو امیر المومنین ؑ نے ولایت اہل بیتؑ کی معرفت کی وجہ سے ایک خاص خطاب سے نوازا آپ نے فرمایا اے قنبرؓ اللہ نے ہماری ولایت کو آسمان و زمین کے جن و انس اور دیگر کے سامنے پیش کیا۔ ہماری ولایت کو نیک اور طاہرلوگوں نے قبول کیا اور کینہ پرور،بغض و عداوت رکھنے والوں اور فضول لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا۔

عدالت اور تقوی کی وجہ سے قنبرؓ نے کئی مواقع پر حضرت علیؑ کے لیے گواہی دی۔ مشہور واقعہ ہے جب ایک یہودی کے ساتھ آپ کا ذرہ کا معاملہ ہوا تو آپ کا کیس قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا تو امام حسن ؑ اور حضرت قنبر ؓ نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں گواہی دی۔آپ حضرت علیؑ کی عدالت کے اعلی معیار پر ایمان رکھتے تھے ایک بار حضرت علیؑ نے آپ کو حکم دیا کہ ایک مجرم کو کوڑے ماریں۔ جب آپ نے کوڑے مارے تو تین کوڑے زیادہ مار دیے۔ حضرت علیؑ نے حکم دیا کہ قنبرؓ کو تین کوڑے مار کر اس سے قصاص لیا جائے۔ قنبرؓ کو اس کی مرضی کے ساتھ یہ کوڑے مارئے گئے۔

 حضرت قنبرؓ نے حضرت علیؑ سے اعلی اخلاق کی تعلیم پائی اور اس کی وجہ سے صاحب حلم قرار پائے۔امیر المومنین حضرت علیؑ نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ قنبرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ قنبرؓ اسے جواب دینا چاہتے ہیں تو حضرت علیؑ نے فورا فرمایا رکو ،رکو ،اے قنبرؓ رک جاو۔جس نے تمہیں گالی دی ہے اسے بغیر جواب کے جانے دو اس سے رحمٰن راضی ہو گا اور شیطان نا خوش ہو گا اورتمہارا دشمن پسپائی اختیار کرے گا۔

حضرت قنبرؓ کو حجاج بن یوسف کے حکم سے شہید کیا گیا اور اس کی وجہ حضرت علیؑ سے محبت تھی۔ ایک دن حجاج نے حضرت قنبرؓ سے پوچھا تم کس کے غلام ہو؟ حضرت قنبر ؓ نے جواب دیا کہ میں اس کا غلام ہوں جس نے تلواروں سے جہاد کیا، دو نیزوں سے دفاع کیا، دو قبلوں کی طرف نما زادا کی، دو بار بیعت کی، دو بار ہجرت کی اور ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔ حجاج بن یوسف نے پوچھا تم علیؑ کے لیے کیا کرتے تھے؟ حضرت قنبرؓ نے کہا میں انہیں وضو کرواتا تھا،اس نے پوچھا جب آپؓ وضو کر لیتے تو کیا فرمایا کرتے تھے؟ حضرت قنبرؓ نے جواب دیا آپ قرآن مجید کی اس آیت مجیدہ کی تلاوت فرماتے تھے:

((َلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ (44) فَقُطِعَ دَابِرُ القَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَ الحَمْدُ للهِ رَبِّ العَالَمِينَ(45))(سورة الأنعام ـ44 ـ45)

حجاج نے کہا اور اس آیت میں مذکور ظالم قوم سے مراد ہمیں لیتے تھے؟ حضرت قنبرؓ نے فرمایا:ہاں، اس پر حجاج نے پوچھا اگر میں تمہیں قتل کروں تو؟ آپ نے فرمایا اس وقت تم ظالم ہو نگے اور میں سعادت مند ہوں گا۔ اس پر حجاج غضب ناک ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے مدفن کے بارے میں اختلاف ہے بعض لوگوں نے کہا آپ کو بغداد میں دفن کیا گیا اور بعض نے کہ آپ کو حمص میں دفن کیا گیا۔

قنبرؓ کی اولاد اہلبیت ؑ سے محبت کے لیے معروف تھی۔آپ کا ایک بیٹا ابی جبیر بن زنبر تھا ۔اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے۔اسی طرح سالم بن قنبر ،ابو الفضل العباس بن الحسن بن خشیش القنبری،نعیم بن سالم بن قنبر آپ کی اولاد میں سے معروف شخصیات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمدان میں دو مسجدیں بہت مشہور ہیں ایک مسجد ہانی جو نیشا پور میں ہے اور دوسری مسجد شادان ہے جو سبزوار میں واقع ہے یہ دونوں کے نام آپ کی اولاد کے ناموں پر ہیں۔