- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


مثالی شعراء ۔۔۔۔ ابن زیدون
5 شوال 1443هـ

کسی بھی ادیب یا محقق کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اندلس کی تاریخ کا ذکر کرے یا وہاں کے ادب کا  تذکرہ کرے لیکن وہ اندلس کے جوان اور باریک بین شاعر و ماہر لکھاری، ابن زیدون کا ذکر نہ کرے ۔ اسی طرح ہی عربی شاعری سے شغف رکھنے والے شخص کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ابن زیدون کے شعر النونیۃ سے آنکھیں چورا لے۔ اس لئے کہ موصوف کے اس منظوم کلام کو عرب شاعری کی دنیا میں ہمیشہ کے لئے ایک فوقیت اور برتری حاصل رہی ہے۔ نمونے کے طور پر چنداشعار پیش خدمت ہیں:

أضحى التنائي بديلاً عن تدانينا    ونــابَ عن طيبِ لقيانا تجافينا 

تكادُ حين تناجيكمْ ضمائرُنــــــا يقضي علينا الأسى لولا تآسينا 

حالــــــــتْ لبعدكمُ أيامُنا فغدت    ســوداً وكانت بكمْ بيضاً ليالينا

اب زیدون کے اس قصیدے کو عمدہ عربی شاعری شمار کیا گیا ہے اور شیخ ابن نما حلی نے اپنی کتاب " مثیر الاحزان"  جو امام حسین علیہ السلام کے مصائب کے موضوع پر لکھی گئی ہے اسی قصیدے پر ختم کرتے اور کہتے ہیں کہ میں اس کتاب کو ابن زیدون کے ان اشعار پر ختم کرتا ہوں۔ اس لیے کہ یہ قصیدہ دل محزون میں یوں نفوذ کرتا ہے جس طرح تیز نیزہ جسم میں چھب جاتا ہے۔ " شمس الدین الخاوی اپنی کتاب "الجواھر والدرر" میں کہتے ہیں " اگر ابن حزم ابن زیدون کے قصیدہ النونیہ کو دیکھتے تو ابن الزریق کے قصیدے سے اعراض کرتے ۔

اس قصیدے کے بارے میں بہت ساری باتیں کی گئی ہیں جو اس کے مشہور ہونے کی حکایت کرتی ہیں یہ وہ قصیدہ ہے جو اندلس کے ادباء کو مشرق کے ادباء سے جوڑتا ہے۔ اس کی یہی شہرت سبب بنی کہ اس کے بارے میں بہت سی داستانیں ذکر کی گئیں اور یہاں تک کہا گیا : " جس کسی نے بھی اسے یاد کیا اس نے اپنے بعض دوستوں کو درد میں مبتلا کردیا۔ "

اسی طرح بہت سارے شعراء نے اس قصیدے کی ابتداء سے ہی تنقید بھی کی ہے ۔ یہاں تک کہ موجودہ شعراء نے بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ جن میں صفی الدین حلی اور احمد شوقی ،جواہری وغیرہ سر فہرست ہیں۔

 ولادت:

ابن زیدون ۱۰۰۳عیسوی (۳۹۴ھ) کو سر زمین قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب عرب کے قبیلہ مخزوم سے ملتا ہے اندلس میں اس کے خاندان کو علم وادب میں بڑا مرتبہ حاصل تھا ۔

ابو ولید احمد بن عبداللہ بن احمد بن غالب  بن زیدون المخزومی المعروف ابن زیدون کے والد اور دادا علم وادب میں معروف و مشہورشخصیت تھے اور ابن زیدون نے بھی یہ شہرت اپنے باپ دادا سے ورثہ میں پائی ہے۔وہ بڑے  بلندپایہ شاعر اورلکھاری تھے ۔اندلس کے حکمران ابو ولید بن جمہور نے انکو وزارت کا قلمدان سونپا اوران سے سفارت کا کام بھی لیا۔ وہ ابو ولید کی طرف سے اندلس کے اطراف و اکناف میں حاکم قبائل کی طرف وفود بھی بھیجا کرتے تھے۔ البتہ ابو ولید کے ساتھ ابن زیدون کے تعلقات دیر پا قائم نہ رہ سکے ۔بلکہ ان کے مخالفوں اور حاسدوں نے ابن جمہور کو ان سے بدگمان کردیا انہوں نے ابن جمہور کے کان میں ڈالا کہ ابن زیدون اشبیلیہ کے حاکم المعتضد بن عباد کا حامی ہے۔ چنانچہ ابن جمہور نے اسے جیل میں ڈلوادیا ۔ابن زیدون نے ابن جمہور کے نام بہت سے قصیدے لکھ بھیجے  تاکہ وہ اسے قیدی سے آزاد کردے لیکن ان سب کا اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ آخر کار ابن زیدون سال ۴۴۱ہجری کو قید خانہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوا ور معتضد کی پناہ میں پہنچ گیا۔ معتضد نے اس کا احترام و اکرام کیا اور اسے اپنا وزیر مقرر کیا ۔ وہاں پر ابن زیدون ذوالوزارتین کے لقب سے مشہور ہوا۔ ابن زیدون اپنی وفات تک اشبیلیہ میں ہی مقیم رہا اور سال ۴۶۳ ہجری (۱۰۷۱ عیسوی) کو ان کی وفات ہوئی۔

ابن زیدون کی شہرت صرف قصیدہ "النونیہ " میں منحصر نہیں ہے بلکہ ان کی شہرت کا ایک اور سبب بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ابن زیدون اپنی عمر کے اواخر میں المستکفی کی بیٹی ولادہ کی محبت میں مبتلا ہوا ہے  جس کو مؤرخین نے آب و تاب سے بیان کیا ہے ۔

قصیدہ واحدہ کی شہرت کے اسباب:

درحقیقت کوئی بھی ابن زیدون کے دیوان کا مطالعہ کرے گا اسے محسوس ہوگا کہ ابن زیدون کے اور بھی کئی قصیدے ہیں جو شعری خصوصیات اور اثر میں اس قصیدے سے کم نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس قصیدے کو اتنی شہرت کیوں حاصل ہوئی؟ ابن زیدون کے دوسرے قصیدے کیوں اس طرح مشہور نہ ہوئے؟ صرف اس قصیدے کی وجہ سے ابن زیدون کیوں مشہور ہوا؟

بلاشبہ قصیدہ الواحدہ میں جو سوچ و فکر موجود ہے وہ زمانے کے گٹھن حالات کے امتحان سے گزرتی ہے اور اذہان میں ہمیشہ کے لئے راسخ ہوجاتی ہے، شعری معنی میں آفاق کے دریچے کھول دیتی ہے نیز اس کے معنی کی امت کے اذہان میں ایک اہمیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ہماری ادبی تاریخ کے سینے میں اس قصیدہ کے علاوہ کئی اور منفرد قصائد بھی موجود ہیں جو ان قصائد کے شعراء کو ہمیشہ کی شہرت حاصل ہوئی جبکہ ان کے سوا اور بہت سے شعراء بھی گزرے جنہوں نے شعر کے بڑے دیوان لکھ ڈالے لیکن وہ اپنے زمانے میں کوئی شہرت نہ پاسکے۔ بہر کیف مذکورہ سوال کے جواب کے لئے اس قصیدہ کے تمام پہلوؤں کے تفصیلی مطالعے اور پورے احاطے کے ساتھ تجزیہ ؂؂؂؂کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے مشہور ہونے کی وجہ سمجھ میں آسکے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ہر قصیدہ منفرد(واحدہ) اور اس کا کہنے والا ایک خاص مطالعے کے لئے بنیاد بنے ،اوراس کے علاوہ اس قسم کے مطالعے میں مختلف اشعار و قصائد کا تقابلی جائزہ خود بھی ایک اساسی عنصر شمار ہوتا ہے تاکہ اس طرح ہر قصیدے کے سماجی، نفسیاتی،تاریخی،معاشرتی جیسے پہلوؤں کا درست طریقے سے جائزہ لیا جاسکے تاکہ کسی بھی قصیدے کی شہرت کی وجہ سمجھ میں آسکے اور اس سلسلے میں سیر حاصل بحث بھی ہوسکے۔

ایک منفرد قصیدے کی شہرت کی وجہ بھی مختلف اسباب و علل کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے، جس طرح سے ایک قصیدے کی اہمیت بھی اس کے تکنیکی، تاریخی ،سیاسی، اور سماجی پہلوؤں کی بدولت مختلف ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم یہاں یہ بھی بتادیں کہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک منفرد قصیدہ ہی اپنے شاعر کی شہرت کا تنہا ذریعہ بنے یہ عین ممکن ہے کہ ایک ایسا شاعر منفرد شاعر ہونے کا لقب پاتا ہو جس کے پاس اشعار کا ایک بڑا دیوان ہو۔ جیسے التہامی، الطغرائی اور ان کے علاوہ بہت سے دوسرے مشہور شعراء۔ لہذا شہرت کے لئے صرف ایک قصیدے کا منفرد ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ اور بھی اسباب و علل دخیل ہوتے ہیں۔ چنانچہ (لامیہ السموأل)کے مشہور ہونے کا سبب وہ ماجرا ہے جو لامیہ السموأل اور حارث بن ظالم کے درمیان رونما ہوا،حارث بن ظالم المنذر بن ماء السماء کا قاصد تھا ان کو المنذر نے امرئ القیس کی ایک امانت لینے کے لئے بھیجا تھا لیکن السموأل نے امانت نہ پہنچائی جس پر حارث  نےشکار سے واپس آتے ہوئے ابن السموأل کو قتل کردیا البتہ اس کا  یوں قتل کرنا نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا کیونکہ وہ مذکورہ امانت لینے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ یہ  وہ حادثہ تھا جس کی وجہ سے السموأل نے یہ اشعار کہے:

إذا المرء لم يدنس من اللؤم عرضه  فكل رداء يرتديه جميل

مالک بن الریب کی داستان بھی السموأل کی ہی حکایت کی طرح ہے جس کی وجہ سے  اس نے اپنی نظم " الیائیہ " کہی ہے:

أيا ليت شعري هل أبيتن ليلة    بجنب الغضا أزجي القلاص النواجيا

 قصیدہ کی شہرت اور شاعر کی حاشیہ گزاری:

اب ہم دوبارہ ابن زیدون کے قصیدہ "النونیۃ"کی طرف آتے ہیں۔ شاعر کو اپنی زندگی میں وہ مقام و مرتبہ نہیں ملا جس کا وہ حقدار تھا یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی تا حال ایسی کوئی شہرت حاصل نہ ہوئی۔اس لئے کہ اس کے زمانے میں ابن ہانی اندلسی کا چرچا غالب تھا اور اس کی شہرت کے لئے اس زمانے میں فاطمیین کا تسلط و نفوذ قائم تھا جس نے ابن ہانی کی شہرت کو اور چار چاند لاگا دیئےور ابن ہانی فاطمییون کا درباری شاعر بنا، لیکن ابن ہانی جوانی کے ایام میں ہی اسکوقتل کردیا گیا ۔البتہ ان کے اشعار کی گونج ان کے بعد باقی رہی، خاص طور سے فاطمییون نے ان کے اشعار کو آفاق تک پھیلا دیا اور ان کے شعر کو عام کردیا ۔ یہاں تک کہ فاطمی خلیفہ معز الدین اللہ کہنے لگا ": ہم چاہتے تھے کہ ابن ہانی کے ذریعے مشرق کے تمام شعراء پر فخر کریں۔" چنانچہ مؤرخین نے بھی ان کی شہرت اور صفات کو عام اور مشہور کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ ابن خلکان کہتے ہیں: "اور اہل مغرب میں ابن ہانی کے رتبے کا کوئی شاعر نہیں ہے نہ ان سے پہلے والوں میں اور نہ ان کے بعد جو آئے ان میں ابن ہانی کے برابر کا شاعر ہے بلکہ ان سب میں ابن ہانی ہی سب سے بڑا شاعر ہے در حقیقت ابن ہانی اہل مغرب کے ہاں وہ مقام رکھتا ہے جو اہل مشرق کے یہاں المتنبی کا ہے ۔ البتہ یہ دونوں ایک ہی دور کے تھے ۔

ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں کہ ابن ہانی ایک بڑے شاعر تھے۔ لیکن اس بات کا بھی انکار نہیں کہ اس کلام میں ایک قسم کی مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے۔ ابن خلکان کا مذکورہ نظریہ کئی صدیوں تک محققین کے اذہان پر غالب رہا ہے۔ اس لئے انہوں نے اندلس میں شاعری کا سہرا ابن ہانی کے سر پر رکھ دیا ہے کیونکہ اس کی وجہ ابن خلکان جیسا ایک بڑا مؤرخ بنا ہے ۔ لہذا واضح سی بات ہے کہ ابن ہانی کی اس طرح کی شہرت نے ابن زیدون، ابن حمدیس، ابن خفاجہ ، ابن دراج وغیرہ  جیسے عظیم شعراء کی شہرت پر پردہ ڈال دیا ۔

لیکن اس تمام کے باوجود ابن زیدون اپنے قصیدہ "النونیۃ" کی وجہ سے شہرت پانے میں ابن ہانی کا ہم پلہ قرار پایا۔ البتہ اس قصیدے کی شہرت کا سبب بھی وہ دردناک شاعری ہے جو ابن زیدون نے فراق کی آگ میں جلنے کی وجہ سے کی ہے ایسے حالات میں ایک شاعر کے لئے اس کی شاعری ہی تسلی کا سبب بن سکتی ہے جس نے اپنے دوست یا عزیز کو کھویا ہو، اس کے علاوہ وہ تمام سیاسی ،سماجی واقعات ہیں جو ابن زیدون کے سامنے رونما ہوئے۔ یعنی سرزمین اندلس پر واقع ہونے والے بحران، فتنے ، فسادات اور جنگیں کہ جنہوں نے اندلس کی زمین کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا کہ جس کے نتیجے میں بہت سارے دوست و اقرباء ضائع ہوگئے۔

مؤرخین نے بھی ایک طویل عرصے تک ابن زیدون کے اشعار میں سے سوائے مذکورہ مشہور قصیدے کے ان سے کچھ بھی نقل نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے یہ گمان ہونے لگا کہ ابن زیدون نے شاید اس قصیدے کے سوا کچھ نہیں کہا ہے ۔ ابن زیدون کا دیوان ۱۹۳۰ تک خطی صورت میں موجود تھا ۔ لہذ کہا جاسکتا ہے کہ قصیدہ النونیۃ کی شہرت میں متعدد اسباب و علل کا عمل دخل رہا ہے، بہر کیف یہ قصیدہ  دل محزون میں ایک نشتر کا سا اثر کرتا ہے۔ جیسا کہ ابن نما الحلی نے اس کی توصیف اسی طرح کی ہے اور مؤرخین نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ علاوہ اس کے یہ ایک محدود قصائد میں سےہے ۔(ایسا قصیدہ کہ جس کا اچھا اثر نہ لیا گیا ہو)جبکہ مؤرخین تو عجیب و غریب باتیں  اگرچہ خرافات ہوں تو بھی نقل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے قاطعیت کے ساتھ کہا: "جس نے بھی اسے یاد کیا وہ پردیسی مرا"

جس طرح اندلس کے کٹھن حالات وغیرہ اس قصیدہ کی شہرت کا سبب بنے اسی طرح سے ایک طویل زمانے تک بہت سارے بڑے شعراء کا مذکورہ قصیدے کی نقادی بھی شہرت کا سبب بنی۔ یہ قصیدہ ایک ایسی ٹریجڈی پر مشتمل ہے جس کو ابن زیدون نے اس کے اندر سمو دیا ہے اور اسے زمانے کی دیوار پر آویزاں کردیا ہے اور یہ تو کسی کے ذہن میں نہیں تھا حتی خود ابن زیدون کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ یہ قصیدہ جو عشق و محبت سے بھرا ہوا ہے ایک ایسا قصیدہ شمار ہوجائے گاجس نے عربی ادب کی زمین میں ادب کے بیج بوئے ہیں اور مٹی کے سینے میں گہرا ہونے کے بعد اس کے سینے کو چیر کر ادب کی فضا میں ایک جاندار پودا بن کر بل کھائے اور ایسے دلوں میں گھر کر جائے گاجو غم و درد سے لبریز ہوئے ہوں اور جدائی و فراق نے شعلہ ور کردیا ہو۔ اس قصیدے کے اسی درد بھرے ہونے کی وجہ سے بہت سارے شعراء نے اس کو مخمّس کرکے لکھ دیا اور اسے امام حسین علیہ السلام کے غم میں بطور مرثیہ کے نقل کیا ہے ۔

ابن زیدون اس قصیدے میں کہتے ہیں :

أضحى التنائي بديـلاً مـن تدانينـا    وناب عن طيـب لقيانـا تجافينـا 
ألا وقد حان صبح البيـن صبحنـا    حيـن فقـام بنـا للحيـن ناعينـا 
من مبلـغ الملبسينـا بانتزاحهمـو      حزناً مع الدهـر لا يبلـى ويبلينـا 
أن الزمان الـذي مـازال يضحكنـا    أُنساً بقربهمـو قـد عـاد يبكينـا 
غيظ العدا من تساقينا الهوى فدعـوا    بأن نغـص فقـال الدهـر آمينـا 
فانحـل ما كـان معقـوداً بأنفسـنـا    وانبت ما كـان موصـولاً بأيدينـا 
وقـد نكـون وما يخشـى تفرقـنـا    فاليـوم نحـن وما يرجـى تلاقينـا 
يا ليت شعري ولم نعتـب أعاديكـم    هل نال حظاً من العتبـى أعادينـا 
لم نعتقـد بعدكـم إلا الوفـاء لكـم    رأيـاً ولـم نتقلـد غيـره ديـنـا
ماحقنا أن تُقـرّوا عيـن ذي حسـد    بنـا ولا أن تسـرّوا كاشحـاً فينـا 
كنا نرى اليأس تسلينـا عوارضـه    وقـد يئسنـا فما لليـأس يغريـنـا 
بنتم وبنـا فمـا ابتلـت جوانحنـا    شوقـاً إليكـم ولا جفـت مآقيـنـا
نكـاد حيـن تناجيكـم ضمائرنـا    يقضي علينا الأسى لـولا تأسّينـا 
حالـت لفقدكمـو أيامنـا فـغـدت    سوداً وكانت بكـم بيضـاً ليالينـا 
إذ جانب العيش طلـقٌ مـن تآلفنـا    ومورد اللهو صافٍ مـن تصافينـا 
وإذ هصرنا فنون الوصـل دانيـة    قطافهـا فجنينـا منـه ماشيـنـا 
ليسق عهدكمو عهد السـرور فمـا    كنتـم لأرواحـنـا إلا رياحيـنـا 
لا تحسبـوا نأيكـم عنـا يغيـرنـا    إن طالمـا غيّـر النـأى المحبينـا 
والله ما طلبـت أهـواؤنـا بــدلاً    منكم ولا انصرفت عنكـم أمانينـا 
ولا استفدنا خليـلاً عنـك يشغلنـي    ولا اتخذنـا بديـلاً منـك يسلينـا 
يا ساري البرق غاد القصر واسق به    من كان صرف الهوى والود يسقينا 
واسأل هنالك هـل عنـى تذكرنـا    إلفـاً تـذكـره أمـسـى يعنّيـنـا 
ويا نسيـم الصبـا بلـغ تحيتـنـا    من لو على البعد حيّا كـان يحيينـا 
فهل أرى الدهر يقضينـا مساعفـةً    منه وإن لـم يكـن غِبّـاً تقاضينـا 
ربيـب ملـك كـأن الله أنـشـأه    مسكاً وقدر إنشـاء الـورى طينـا
أو صاغه ورقـاً محضـاً وتوّجـه    من ناصع التبر إبداعـاً وتحسينـا 
إذا تــأوّد آدتـــه رفـاهـيــــــــــــة    تؤم العقـود وأدمتـه البـرى لينـا 
كانت له الشمس ظئـراً فـي أكِلّتـه    بـل ما تجلـى لهـا الا أحاييـنـا 
كأنما أُثبتت فـي صحـن وجنتـه    زهر الكواكـب تعويـذاً وتزيينـا 
ماضر أن لم نكـن أكفـاءه شرفـاً    وفي المـودة كـافٍ مـن تكافينـا 
يا روضةً طالمـا أجنـت لواحظنـا    ورداً جلاه الصبا غضـاً ونسرينـا 
ويا حـيـاة تمليـنـا بزهـرتـهـا    منـىً ضروبـاً ولـذات أفانيـنـا 
ويا نعيماً خطرنـا مـن غضارتـه    في وشي نُعمى سحبنا ذيلـه حينـا 
لسنـا نسميـك إجـلالاً وتكرمـةً    وقدرك المعتلـى عـن ذاك يغنينـا 
اذا انفردت وما شوركت فـي صفـة    فحسبنا الوصف إيضاحـاً وتبيينـا
يا جنـة الخلـد أُبدلنـا بسدرتـهـا    والكوثر العـذب زقومـاً وغسلينـا 
كأننـا لـم نبـت والوصـل ثالثنـا    والسعد قد غضّ من أجفان واشينـا 
إن كان قد عزّ في الدنيا اللقـاء بكـم    في موقف الحشر نلقاكـم ويكفينـا 
سرّان في خاطر الظلمـاء يكتمنـا    حتى يكاد لسـان الصبـح يفشينـا 
لاغرو في أن ذكرنا الحزن حين نهت   عنه النّهى وتركنا الصبـر ناسينـا 
انا قرأنا الأسى يوم النـوى سـوراً    مكتوبـة وأخذنـا الصبـر تلقينـا 
أمـا هـواك فلـم نعـدل بمنهلـه    شِرباً وإن كـان يروينـا فيظمينـا 
لم نجف أفق جمـال أنـت كوكبـه    سالين عنـه ولـم نهجـره قالينـا 
ولا اختياراً تجنبنـاه عـن كثـب    لكن عَدَتنـا علـى كـرهٍ عوادينـا 
نأسى عليـك إذا حُثّـت مشعشعـة    فينـا الشمـول وغنّانـا مغنيـنـا 
لا أكؤس الراح تبـدي مـن شمائلنـا    سيما ارتياح ولا الأوتـار تلهينـا 
دومي على العهد ـ ما دمنا ـ محافظةً    فالحر من دان إنصافـاً كمـا دينـا 
فما استعضنا خليـلاً منـك يحبسنـا    ولا استفدنـا حبيبـاً عنـك يثنينـا 
ولو صبا نحونا من عُلـوِ مطلعـه    بدر الدجى لم يكن حاشاك يصبينـا 
أولي وفاءً وإن لـم تبذلـي صلـةً    فالذكـر يقنعنـا والطيـف يكفينـا 
وفي الجواب متاع إن شفعـت بـه    بيض الأيادي التي مازلـت تولينـا 
عليـك منـا سـلام الله ما بقـيـت    صبابـة بـك نُخفيهـا فتخفيـنـا 

 

(یہ اشعار ابن زیدون نے اپنی محبوبہ ولادہ المستکفی کی محبت میں کہے ہیں کہ جب وہ قرطبہ کی جیل سے بھاگ کر اشبیلیہ میں اپنی زندگی کے دن گزار رہے تھے اور اپنی محبوبہ کی محبت  اور اس سے دوری کے دکھ میں پگھل رہے تھے کبھی تو ایسا وقت تھا کہ وہ المستکفی کے ساتھ ملاقات کرتا اور اس کو اپنے  محبت بھرے اشعار سناتا تھا ایک وقت ایسا آگیا کہ وہ فراق کی آگ میں جل رہا تھا ۔ یہ اشعار اس کے انہی حالات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔

ترجمہ:

وصل و قرب کے بجائے اب دوری نے لے لی اور اب تو ان خوشگوار ملاقاتوں کی جگہ جفاء جانشین ہوگئی 

ہاں فراق کی صبح بھی اتنی طولانی ہونے لگی کہ گویا اب تو کوئی موت کی خبر لے کر آیا ہو۔

وہ کون ہے جس نے ہم کو غم فراق کا لباس پہنادیا  یہ تو ایسا لباس ہے جو  خود تو کبھی پرانا نہیں ہوگا لیکن ہمیں کہنہ بنادے گا۔

بیشک زمانہ ہم پر برابر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ محبوب کا قرب ہی تمہارے دوبارہ رونے کا سبب ہے ۔ 

دشمن ہمارے عشق و شوق پر غضبناک ہوا اور دعا کی کہ ہم گلے میں پھندا ڈالیں اور ان کی دعا پر زمانے نے آمین کہہ دی ۔

وہ رابطے جو ہماری جانوں کو آپس میں جوڑ کے رکھتے تھے وہ منقطع ہوگئے اور جو کچھ  ہمارے ہاتھوں میں پہنچا ہوا تھا وہ بھی منقطع ہوگیا ۔

ایک زمانہ تھا ہم اکھٹے تھے، ہمیں جدائی کا کوئی خوف تک نہیں تھا لیکن آج یہ وقت آیا کہ ایک دوسرے سے ایسے جدا ہوگئے ہیں کہ امید وصال نہیں ہے۔

اے کاش میں جانتا اور ہم تمہارے دشمنوں کی سرزنش نہ کرتے ، ہم نے ایسا کیا تو کیا اس سرزنش سے ہمیں کوئی فائدہ ملا؟ 

ہم نے تو تمہارے بعد بھی وفا کا عقیدہ بنایا ہے اور یہ طے کیا ہے ، ہمارا تو محبوب سے وفا کے سوا کسی کی پیروی کا پھنداگردن میں نہیں ڈالنا ہے ۔

یہ ہمارا حق تو نہیں تھا کہ تم ہم سے حسد کرنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاؤ ، نہ یہ حق بنتا تھا کہ ہمارے تم دشمن کو خوش کرو۔

ہم یہ سمجھ  بیٹھے کہ ہمارے غم کو اس کے آثار ہی تسلی کا ذریعہ بنتے  بس ہم تو غمگین ہوگئے لیکن اس غم کے لئے کوئی چارہ کارگر  نہیں ہوا۔

تم ہم سے دور ہوگئے اور ہم تم سے دور لیکن تمہاری محبت اتنی شدید ہے کہ ہمارے پہلو تر نہ ہوئے اور نہ ہماری آنکھ  کے گوشے خشک ہوئے ۔

جب ہمارا ضمیر تجھے صدا دیتا ہے تو ایسا لگتا کہ اگر ہمارا صبر نہ ہوتا تو تیری یہ یاد ہم کو مارڈالتی ۔

جب تم ہمارے ساتھ تھی تو ہماری راتیں بھی روشن تھیں ، اب جو تم نہیں ہو تو  دن بھی یوں بدل گئے  کہ یہ تاریک ہوگئے ۔

اس لئے کہ ہماری  محبت کی وجہ سے زندگی خوشگوار و خوشحال تھی اور اس محبت کی شراب پر وارد ہونے کی جگہ  بھی خالص شراب کی طرح صاف و شفاف تھی ۔

جب ہم نے وصال  کے درخت کی ٹہنیوں سے اس کے پھل کو چننے کے لئے قریب کیا تو اس میں سے جاتے جاتے کچھ چن ہی لیا ۔ یہاں شاعر اس شعر میں مراد وصال کو درخت سے تشبیہ دیتا ہے اور اس سے سکون و آرام کے ملنے کو اس کے پھل اور لذت کہتا ہے ۔

تمہارا اندلس اور قرطبہ میں جو وقت ہے وہ خوشی اور سرور کے پانی  سے سیراب رہے لیکن تم ہمارے لئے بس اتنا تھی کہ تمہاری خوشبو اس محبت کو تازہ کردیتی تھی ۔

اگرچہ کہ جب بھی کوئی اپنے محبوب سے دور ہوجاتا ہے تو رفتہ رفتہ اسے بھول جاتا ہے لیکن تم گمان تک نہ کرنا کہ اب ہم تم سے دور ہیں تو ہم بدل گئے ہوں گے، ایسا نہیں بلکہ تم ہر وقت ہماری یادوں میں ہو۔

خدا کی قسم ہماری تمناؤں نے تیرا بدل طلب کیا نہ ہماری آرزؤں میں تیرے سوا کوئی اور بساہے ۔

نہ تیرے سوا ہمارا کوئی دوست ہوا جس نے ہمیں اپنی ذات میں مصروف کردیا ہو اور نہ ہم نے کسی اور کو اختیار کیا ہے جو ہمیں تسلی دے ۔

اے رات کے وقت بجلی اور اس کی کڑک کو لے کر جانے والے بادل ! تم میرے محبوب کے  قصر پر صبح سویرے برس کر اسے پانی سے سیراب کردینا، وہ محبوب جو اپنی خالص عشق و محبت سے سیراب کردیتا ہے۔

اوراے راتوں کو بارش کے حامل بادل ! جب تم میرے محبوب کے پاس پہنچنا تو اس سے یہ پوچھ لینا کہ کیا ہماری محبت  کی یاد نے تمہیں تھکا دیا ہے ؟ ہمیں تو اس کی یاد نے تھکا دیا

اور اے نسیم صبح  (جوانی کا جوش عشق مراد ہوسکتا ہے) اس  دوری سے یہ سلام ہمارے محبوب تک پہنچا کہ اگر اتنی دوری سے اس کو یوں سلام دیا جائے تو وہ بھی ہمیں سلام کہہ دے گا۔

اور کیا میں زمانے کو یہ سمجھوں کہ وہ ہمیں اپنے محبوب کی محبت کو پورا کرنے میں مدد کر سکتا ہے اگرچہ پہلے تو ذرا سابھی  آپس کی محبت میں ایسا نہیں کیا ۔

وہ تو بادشاہ کے آغوش میں پلی بڑھی  ہے کہ  گویا اللہ نے اسے مشک سے پیدا کیا ہے ۔ درحالانکہ اس نے اورمخلوقات کو تو  مٹی سے پیدا کیا ہے۔

یا ایسا ہے کہ اسے ایک خالص اور نازک پتے کے ذریعے آمادہ کیا اور پھر اسے بالکل تازہ اور خوبصورت  صاف سونےکا تاج پہنا دیا ہے۔

جب وہ جھکتی ہے  تو  قصر کا آرام و رفاہ اسے اس طرف مائل کرتا ہے اور پہنے ہوئے سامان زینت کی سنگینی اتنی ہے کہ جس سے ان کی نرم جلد سے خون نکلنے لگتا ہے ۔

سورج ان کے اوپر اتنا مہربان ہوتا ہے کہ اس کی روشنی مدہم ہوجاتی ہے ۔ نہ صرف مدہم ہوجاتی ہے بلکہ بس کبھی کبھی چمکنے کے سوا اس پر چمکتا ہی نہیں ، کیونکہ وہ خود سورج سے زیادہ روشن اور چمکنے والی ہے ۔

گویا اس کے رخسار کے اطراف میں ستارے پھولوں کی مانند جھرمٹ کی طرح ہیں اور چمکتے ہیں اور یہ زینت اور پہرےدار بنے ہوئے ہیں ۔ 

اگر ہم شرف و مرتبہ میں ان کے برابر نہ ہوسکے ہیں تو ہم نے نقصان نہیں کیا ہے ۔ اس لئے کہ عشق ومحبت میں ان کے برابر تو ہیں ۔

اے خوبصورت و حسین پھولوں کا باغ اکثر ! تمہارے کھلے ہوئے گلاب کے پھول سے ہماری آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں وہ گلاب جو صبح روشن کو جلا دیتی ہے کہ جس سے وہ بالکل تازہ گل نسرین ہوجاتے ہیں ۔ 

اور اے زندگی اپنی چمک دمک سے ہر قسم کی آرزؤں اور طرح طرح کی لذتوں کا ہمیں مزہ چکھا دے۔

اور اے عیش و آرام کے وقت کی نعمتوں ہم تمہاری ان وسعت و سکون والی طرح طرح کی نعمتوں کی جانب ابھی مائل ہوئے اور یاد کرنے لگے ہیں جس میں ہم مزے لے رہے تھے اور ایک زمانے میں ان نعمتوں کے سایے میں اکڑ کے چلتے تھے ۔

ہم تیرے احترام و عزت کی وجہ سے نام نہیں لیتے ہیں اور نام لینے کی حاجت بھی نہیں کیونکہ تیری قدر کی بلندی نام لینے سے ہمیں بے نیاز کردیتی ہے ۔

جب تم منفرد اوراپنی صفت میں یکتا ہوجاتی ہو کہ اس صفت میں دوسرا کوئی تیرا شریک نہیں ہوسکتا تو یہ ہمارے لئے تمہاری وصف سرائی اور چرچا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

اے ہمیشہ کی جنت ہمیں زقوم اور غسلین کے بدلے سدرہ کے درخت کا پھل اور میٹھا کوثر دے دینا ۔

گویا کہ ہم سوئے نہیں تھے کہ ہمارا تیسرا وصل آن پہنچا اور پلکوں سے خوش بختی کثرت سے جاری ہونے لگی۔

اگر دنیا میں تمہارا دیدار مشکل ہوگیا ہے  تو بس اب حشر کے میدان میں ہم آپ سے ملاقات کریں گے اور یہ بھی ہمارے لئے کافی ہے ۔

یہ راز ہے جس کو اندھی یاد چھپاتی ہے  لیکن کب تک آخر عنقریب زبان صبح اس کو فاش کردے گی۔

تعجب کی بات نہیں کہ ہم نےعقل کے  منع کرنے کے باوجود غم فراق کو یاد رکھا اور اس غم میں صبر کو بھی  فراموش کردیا۔

ہم نے غم کو فراق کے دن بھی یعنی جس دن تمہارے شہر سے نکل کے جارہے تھے اس غم کو مکتوب سورتوں کی طرح پڑھا اور اس پر صبر اختیار کرنے کی تلقین کو بھی نہ چھوڑا ۔

ہم نے تیری محبت کو ایک دفعہ کی سیرابی کے بدلے  ترک نہیں کیا اگرچہ  یہ محبت ہمیں سیراب تو کرتی تھی لیکن اس سے ہماری پیاس پھر سے تازہ ہوجاتی۔

وہ افق جس کا ستارہ تم ہو اس کے ساتھ ہم نے جفاء اور بے وفائی نہیں کی اس سے پوچھا اور اس سے گفتگو کرنے کو چھوڑ نہ دیا ۔

ہم اپنے اختیار سے ان سے دور تو نہیں ہوئے لیکن اس دوری نے ہمیں وہ عادت ڈال دی کہ جس کو ہم پسند نہیں کرتے تھے ۔

ہم اس وقت بھی تیری جدائی پر غمگین ہوتے ہیں جب ہمارے سامنے شراب کے ٹھنڈے جام تھوڑے سے پانی میں مخلوط کر کے لائے جاتے ہیں کہ جس سے شراب میں چمک آجاتی ہے اور اس کے ساتھ گانے والے آکر ہمیں گیت سناتے ہیں۔

میں ایسی شراب پیتا ہی نہیں جو میرے  طبع و مزاج پر غالب آجائےیا میرے عشق کو سکون میں بدل دے میں تو ہر وقت تیری محبت کی مئے کا طالب ہوں اور اس میں مدہوش رہتا ہوں لہذا مجھے کوئی اور اوتار مدہوش نہیں کرسکتا ۔

تم بھی اس وقت تک اپنےعھد کی پاسداری کرنا جب تک ہم اس کی حفاضت کر سکتے ہوں۔ آزاد تو وہی ہے جو انصاف کو اپنا دین قرار دے جیسا ہم نے انصاف کے دامن کو تھامے رکھا  ہے ۔

تیرے بدلے میں نہ ہم نے  کسی کو اپنا دوست بنایا جو ہم کو اپنی محبت کا اسیر بناتا اور نہ تیرے سوا کسی کو اپنا معشوق قرار دیا جو اپنی تعریف کے ذریعے تجھ سے ہمیں منہ موڑنے پر مجبور کرے ۔

اگر بلندی سے بدر الدجی ہمارے اوپر طلوع  بھی کرتا تو ہرگز تیرے سوا کسی کی جانب ہماری نگاہ توجہ نہ جاتی ۔ اور اس کامل چاند کی روشنی میں بھی تیرے حسن کا نظارہ کرتے ۔ 

اگر تم کوئی اور صلہ نہیں دے سکتی یعنی میرے مکتوب کا جواب نہیں دے سکتی ہو تو بھی کچھ  وفاداری کا مظاہرہ تو کرو اس لئے  کہ تیری یاد ہی ایسی ہے کہ جس پر ہم قانع ہوتے ہیں۔ کیونکہ محبوب کا خیال  بھی عاشق کے لئے کافی ہوتا ہے ۔

اے میری محبوبہ تو میرے مکتوب کا اگر جواب دوگی تو اس میں ایک لذت ہے کیونکہ اس جواب میں تم ماضی کےاس سفید دن کا ذکر کرو گی جس میں تم برابر ہم سے دوستی کرتی تھی ۔

تجھ پر ہمارا سلام ہو جب تک تیری بقاء کی نشانی باقی ہے کہ جس کو ہم اندر چھپائے رکھے ہیں یعنی غم فراق و محبت کہ ہمارے وجود کو اندر سے کھائے جاتا ہے اور تم بھی اسے چھپاتی ہو ۔ 

اس قصیدے کو سید محمد بن مال اللہ نے بھی مخمّس کہا ہے اور اسے امام حسین علیہ السلام کے لئے مرثیہ کے طور پر تحریر کیا ہے۔ در حقیقت ان کا مخمّس ابن زیدون کا قصیدہ ہے جس کو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے مرثیہ میں قرار دیا۔