دھریوں، قدیم یونانی فلاسفہ اور ڈارون کے نظریہ آغازو ارتقاء کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انسان اتفاقی اور حادثاتی طور پر وجود میں آیاہے اور یہ ایک قسم کی بیہودگی ہے۔اور اس فکری بیہودگی میں ومادہ پرست بھی ان کے ساتھی ہیں کہ جن کا خیال یہ ہے کہ زندگی آکسیجن، ہائیڈروجن اور آورون کے ذرات سے ملکر وجود میں آتی ہے۔ ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طریقے سے یہ ثابت کیا جائے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ تمام مادی وغیر مادی اس کے برخلاف ہیں اور تاریخ ہمیشہ ان کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرتی رہی ہے۔ بطور خاص نظام کائنات اور اس کا باہمی تعلق کی پیچیدگی اس کائنات کےلئے ایک باشعور اور مؤثر قوت کے وجودپر سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور برق رفتار اور خوفناک سائنسی ترقی بھی وجود خداکو ثابت کرتی ہے ان سائنسی دلائل کی روشنی میں اس کائنا ت کے خالق کا ناقابل انکار حقیقت ہے اوراس کے برعکس حقیقت ثابت نہیں ہے۔
ان دلائل کی روشنی میں منکرین وجود خدا کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔مخلوقات کاہدف اور مقصد ہونا ان دلائل کو اور بھی مضبوط بناتا ہے۔
مخلوقات کا باہدف ہونا منکرین خداوند اور ان کے نظریات کےلئے مایوسی کا سبب بنتا ہے اس لئے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک باشعور اور غیرتمند قوت بغیر مقصد کائنات کا تعین کیاجائے؟
اور جہاں تک اس کائنا ت کے حادثاتی وجود کا تعلق ہے تو یہ ایک سیدھی سی بات ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حادثاتی طور پر وجود میں آنے کے بعد یہ سارا نظام بذات خود چلتا رہے۔ لہٰذا ان کے کمزور دلائل ان کے دعوے کو ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔ اسی لئے ان کو اپنے نظریات ثابت کرنے کےلئے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
انواع کی اصل میں ڈاروں کا نظریہ:
انیسویں صدی کےوسط میں ڈارون نامی سائنسدان نے اپنی کتاب "انواع کی اصل" شائع کی ہے، اس کتاب میں وہ زندگی کی ابتدا اور انسانی تخلیق کی کیفیت پر بحث کرتا ہے وہ یہ فرض کرتا ہے کہ زندگی اور انسان دونوں اتفاقی طور پر معرض وجود میں آئے۔اور زندگی کی ابتداء ایک چھوٹے سے خلیے سے ہوئی کہ جو شروع میں ایک غیر نامیاتی مرکب سے وجود میں آیا تھا۔ اور وہ عقلی مسلمات کی نفی کرتے ہوئے یہ کہتاہے کہ مخلوقات کا یہ سارا نظام حادثاتی طور پر وجود میں آیا تھا۔ اور یہ بھی فرض کرتا ہے کہ موروثی خصوصیات بھی حادثاتی طورپر ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتی ہیں۔اور ایک ہی نوع میں موروثی صفات جینیاتی تبدیلیوں کی شکل میں درمیانی فاصلوں کو مکمل کرتی ہیں۔ جبکہ سائنس اس نظریہ کو رد کرتی ہے اس لئے کہ دارون کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک ہی نوع میں والدین سے اولاد کی طرف موروثی صفات کے منتقل ہونے کا میکانزم اور طریقہ کار کیاہے۔ والدین سے اولاد کی طرف موروثی صفات کے انتقال کا باقاعدہ ایک خاص نظام ہے اور اس عمل کے مطالعات کےلئے باقاعدہ ایک علم موجود ہے جیسے علم الجنیات کہاجاتاہے۔ یہ علم یہ بتاتا ہے کہ ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف موروثی صفات کسی طرح منتقل ہوتی ہے۔ ڈآرون نے اپنی کم علمی کی وجہ سے موروثی صفات کے انتقال کے عمل کا سبب اتفاقی اور حادثہ قرار دیا۔ یہ ایک بے مقصد سبب ہے جس کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے۔ اسی طرح ڈارون کا خیال یہ بھی ہے کہ بقاء اور ارتقاء کے درمیاں شدید کشمکش پائی جاتی ہے اور اس میں جیت اس کی ہو تی ہے جو مضبوط ہوتاہے اور جس چیز میں ماحول کے ساتھ سازگار ہونے کی صلاحیت اور طاقت پائی جاتی ہے۔ اور جس چیز میں اپنے ماحول کے ساتھ سازگار رہنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں ہوتی وہ فنا ہوجاتی ہے۔ اگر چہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
لیکن اعتراض اس بات پر ہے کہ وہ اس کا سبب اتفاق اور حادثہ کو قرار دیتا ہے اور یہی نقطہ ڈارون کے نظریہ کامحور و مرکز ہے۔
سائنس ڈارون کی نظریئے کو رد کرتی ہے۔
1865ء میں مینڈل نامی سائنس دان نے خواتین وراثت کا انکشاف کرکے علم وراثت(Genetics) کی بنیاد رکھی۔ اور ڈارون اس علم کو نہیں جانتا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ایک نوع کےجانوروں میں موروثی صفات کی منتقلی ان خارجی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے جو اتفاق اور حادثہ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ وہ اپنی بات کو ثابت کرتے ہوئے اس حقیقت سے غافل تھا کہ یہ اتفاق اور حادثہ تو خود عقل وشعور مالک نہیں تو یہ مذکر و مؤنث کے اس قسم کے تعلق کو کیسے ترتیب دے سکتاہے۔جبکہ موروثی جنیا کے علم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہی نوع میں موروثی صفات کی منتقلی کروموسومز کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمبستری سے پہلے کروموسومز کی تعداد پر حلیے آدھی یعنی 23 ہوتی ہے اور ہمبستری کے بعد ان کی تعداد مکمل ہوکر 46 ہوجاتی ہے، اتنی تعداد مکمل ہونے پر خلیہ مردوزن دونوں خلیوں کے مجموعے کو وجود دیتاہے۔
اسی طرح (DNA) کا انتہائی پیچیدہ اور ہر نوع وشکل کا محافظ انکشاف بھی اس دقیق مراتب نظام کی طرف رہنمائی کرتاہے۔ اور یہ انکشاف بھی بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسی باشعور اور بارادہ قوت کے بغیر ناممکن ہے کہ جو پہلے سے جانتی ہو کہ کیاکرنا چاہیئے اور کیسے کرنا چاہیئے۔
جدید سائنس نے یہ ثابت کیاہے کہ خلیہ اور اس کے ذرات والی پیچیدہ سرگرمیاں محض اتفاق سے وجود میں نہیں آتی ہے۔ (جبکہ ڈارون کا نظریہ یہ تھا) کیونکہ ہر خلیہ زندگی کےلئے ضروری Enzyme اور ہارمونز بنانے والی فیکٹریوں پر مشتمل ہوتاہے اوریہ خلیہ ان تمام سرگرمیوں کو انجام دینے کےلئے ضروی طاقت کو خد پیداکرتاہے۔
بطور خاص جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر خلیے میں موجود تمام چیزوں کی ایک مناسب مقدار ہوتی ہے جو کمی یا زیادہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر مقدار کم یا زیادہ ہوجائے تو خلیہ اپنی سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتا اور یوں یہ بے کار ہوجاتاہے۔
آج کی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود دنیاکی کوئی ایک لیبارٹری ایک خلیہ بھی نہیں بنا سکتی اورڈارون اسے جانتے تک نہیں تھا حالانکہ وہ انیسویں صدی کا باشندہ تھا تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ اندھا اور بے مقصد اتفاق ایک خلیے کو اس کے پیچیدہ نظام کے ساتھ وجود عطا کرے۔
علم حفریات(کھدائی کا علم) کے ماہرین بھی زندہ موجودات کی ارتقاء کی سیڑھی کے درمیانی دینوں کے تلاش کرنے میں ناکام واقع ہواہے کہ جس کا دعویٰ نظریہ ڈآرون نے کیاتھا۔ اسی طرح بیالوجی کا علم بھی ارتقاء کی ان درمیانی کڑیوں کو تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہواہے جبکہ علم حیاتیات بیالوجی تمام زندہ موجودات کو ان کے ماحول کے ساتھ ہر اعتبار سے سازگار پاتاہے ، یہ ایک سائنسی وار(war)ہے جس نے نظریہ ارتقاء اور حادثہ تو نہیں نہیں کردیاہے۔
انسانی جسم کی پیچیدہ ساخت بھی ڈارون کے نظریہ کو رد کرتی ہے اس لئے کہ انسانی دماغ میں موجود لاکھوں اعصابی خلیے پورے بدن سے پیغامات کو وصول کرتے ہیں اور پھر انتہائی منظم طور پر پیغامات کو واپس پہنچادیتے ہیں اور پھر ان کے ذریعہ پورا جسم حرکت کرتاہے اسی طرح آنکھ میں پائی جانے والی پیچیدگی بھی ڈارون نظریے کو ردّ کرتی ہے کیونکہ ہر آنکھ میں 130 ملین خلیے روشنی کو بھیج کر دماغ تک پہنچاتےہیں۔
اور اسی طرح چکھنے کی حس بھی ہے 3 ہزار ایسے ٹشوز پائے جاتے ہیں جس میںسے ہر ایک کے ذریعے خاص طریقے سے انسان مختلف ذائقوں میں فرق کرتاہے۔ اوریہ سب کچھ اتفاقی اور حادثاتی طور پر نہیں ہو سکتا۔
انسان کو کس نے پیداکیاہے؟؟
ڈارون کے نظریہ اتفاق کے سائنسی اور سائنسی انکشافات کے ساتھ ٹکراؤ کے بعد کہ جو آے روز یہ ثابت کرتے ہیں کہ مخلوقات بے مقصد پیدانہیں ہوتی ہیں اورنہ ہی اتفاقی طور پر۔ ان سائنسی انکشافات اس اعتبار سے تصدیق کرنا ضروری ہوجاتاہے کہ اس کائنات میں کوئی ایسی باشعور پیداکرنے والی اور نظام کو چلانے والی قوت موجود ہے اور یہ قوت پوری کائنات پر غالب ہے۔ یوں انبیاء و رسل کی طرف سے دی گئی آسمانی خبر کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ جو کہتی ہے کہ اس کائنات کو ایک بلند والا خدا نے بنایا ہے اور وہی اس کائنات کو چلاتا بھی ہے۔اور یہ کہ بطور خاص انسان کی خلقت بے مقصد اور اتفاقی طور پر نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے” ۔ کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے”؟ (سورہ مؤمنون: 115) اور یہ اس فطرت تو حید کی تائید بھی تو ہے جس پر انسان کو خلق کیاگیا اور ارشاد ہوتا ہے" پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔"(سورہ روم،: 30)
انسان کی خلقت کی مراحل
قرآن کریم جو کہ کلام خدا ہے اور کیا خوبصورت کلام ہے کئی آیات میں انسانی خلقت کی طبیعت اور مٹی سے انسان کی ابتداء خلقت سے لیکر اس پر گزرنے والے تمام مراحل کو بیان فرماتاہے، ارشاد ہوتاہے"بیشک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔"(آلعمران: 51) اور انسان کی خلقت کے بارے میں اس کے مٹی سے گندی ہوئی اور مٹی میں میں تبدیل ہوجانے کو بھی بیان کرتاہے ارشاد ہوتاہے"(سورہ ص: 71)پھر جس گندی ہوئی مٹی سے کھنکنے والی مٹی کی طرف تبدیلی کو بیان فرماتا ہے(الرحمٰن،14) اور اسی طرح بطن مادر میں جنین کی خلقت کے مراحل کو بھی بیان فرماتاہے(المومنون12۔13۔14)
اس سے خداوند متعال کی عظمت اور اس کی تخلیق کی باریکی باخوبی ثابت ہوتی ہے۔
قرآن کریم انسان کی خلقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو اشرف المخلوقات قرار دیتا ہے (سورہ التین: 4)اور خدا نے اس انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر اس کی عزت کو اور بڑھادیا(سورۃ البقرہ: 30)
اور پھر فرشتوں اور ابلیس سے اس کو سجدہ کرانے کا مطالبہ فرمایا تاکہ انسان کو خلقت حامل امانت الٰہی ہونے کی وجہ سے انسانی عزت و تکریم بجالائی جائے۔(سورۃ البقرہ: 34)