نام: محمد بن علی بن رزین بن سلیمان بن تمیم بن نھشل بن خداش بن خالد بن عبد بن دعبل بن انس بن خزیمہ بن سلامان بن اسلم بن اقصیٰ بن حارثہ بن عمرو بن عامر (خزاعہ) بن مزیقیا۔
کنیت : ابو علی ۔
دعبل خزاعی ۱۴۸ ہجری کو کوفہ میں پیدا ہوئے اور تین امام، امام موسی بن جعفر الکاظم، امام علی بن موسی الرضا اور امام محمد بن علی الجواد علیھم السلام کا زمانہ درک کیا۔ دعبل ایک بہادر اور شجاع گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی گھرانے میں پروان چڑھے۔ ان کے گھرانے کے بعض بھائی رسول خدا ﷺ اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے زمانے میں راہ خدا میں شہید ہوئے۔ دعبل تیسری ہجری کے حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔ خاص طور سے دو امام حضرت امام رضا اور حضرت امام محمد تقی علیھما السلام کی روایات زیادہ نقل کی ہیں ۔
چنانچہ جس گھرانے میں دعبل نے آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں معروف و تھا۔ ان کا گھرانہ عرب میں فصاحت و بلاغت کے بڑے مشہور گھرانوں میں سے شمار ہوتا تھا۔ لہذا دعبل نے ابتدا ہی سے شاعری شروع کی اورابتدا ہی سے اپنے والد، دادا رزین، بابا علی اور چچا عبد اللہ اور چچازاد محمد کی زندگی میں ہی شعر وادب کو اپنا پیشہ بنایا اور یہ سارے ایسے بڑے شعراء کہلاتے تھے کہ جن کی جانب ہر ایک کی نظر جاتی تھی۔
دعبل چونکہ اصیل اور بنیادی شاعر کہلاتے تھے لہذا انہوں نے اسی فن شاعری میں اپنی زندگی گزاری۔ خاص طور سے انہوں نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کے راستے میں اپنی زندگی صرف کی تاکہ اپنی شاعری کے ذریعے ظالم دشمنوں کو شکست دےسکے ۔
انہوں نے ایک دن ثامن الائمہ ،ضامن آہو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی بارگاہ میں مشرف ہوکر اپنا منظوم اور مشہور کلام "تائیہ" سنایا ۔
جس کا آغاز یوں تھا:
مدارس آیات خلت من تلاوۃ .. و منزل وحی مقفر العرصات
آیات الہی کے مکاتب تلاوت سے خالی ہوگئے اور وحی کا گھر چٹیل میدان ہوگیا
یہاں تک کہ دعبل اس بیت پر پہنچے:
خروج امام لا محالۃ خارج .. یقوم علی اسم اللہ والبرکات
یمیز فینا کل حق و باطل .. ویجزی علی النعماء والنقمات
اشعار کا مفہوم : "ایک امام کا قیام ہر حال میں ہونے والا ہے اور وہ اللہ کے نام اس کی برکات کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔ وہ ہمارے درمیان حق و باطل کو جدا کرے گا اور اچھائیوں اور برائیوں کو دیکھ کر لوگوں کو جزا دے گا۔ "
امام رضا علیہ السلام نے اس پر شدید گریہ فرمایا اور سر مبارک بلند کر کے دعبل سے فرمایا : اے خزاعی! روح القدس نے ان دو بیتوں کو تیری زبان سے کہلوایا ہے ۔ اس کے بعد دعبل اپنے اشعار کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے :
لقد خفت فی الدنیا و ایام سعیھا .. و انی لأرجو الأمن بعد وفاتی
ترجمہ: اگر میں دنیا اور اس میں تلاش و کوشش کے بارے میں ڈرتا ہوں تو بتحقیق مرنے کے بعد امن کی امید بھی کرتا ہوں ۔
ایسے میں امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : اللہ نے تم کو سب سے بڑے ہولناک دن میں امن بخشا ہے ۔
اسی وجہ سے دعبل اہلبیت علیھم السلام کے شعراء ، ان سے کھل کر محبت کرنے والے اور ان کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خاص طور سے دعبل نے اپنے کلام میں جن کو اپنے طعن کے تیروں کا نشانہ بنایا وہ خلفاء اور امراء ہیں جو سب سے زیادہ طاقتور اور ظالم تھے اور وہی اس طرح کے طعن کے حقدار تھے۔ کیونکہ ائمہ معصومین علیھم السلام کے ساتھ ان کا سلوک اور کردار اچھا نہیں تھا۔ اس لئے وہی ظالم امراء و خلفاء دعبل کے طعن کے تیروں کا نشانہ بنے ۔
یہاں تک کہ ایک دن دعبل سے کہا گیا :
تم اس کا تمسخر کیوں اڑاتے ہو جس کی طاقت سے ڈرتے ہو؟
تو دعبل نے کہا:
میں پچاس سال سے اپنی لکڑی اٹھائے پھرتا ہوں اور اب تک کسی کو میں نے نہیں پایا کہ وہ مجھے اس پر لٹکادے ۔
دعبل رضوان اللہ تعالی علیہ ۲۴۶ ہجری کو خفیہ ہاتھوں کے ذریعے قتل کئے گئے۔ اس بہانے سے کہ انہوں نے مالک بن طوق (اور کہا جاتا ہے معتصم عباسی) کو طعن کیا ہے۔ رحلت کے وقت دعبل کی عمر ۹۷ سال تھی ۔ ان کو ایران میں اہواز کے اطراف میں ایک شہر سوس میں دفن کیا گیا ۔