- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


انتظار فرج ۔ ۔ ۔ بہترین شرعی عمل
8 ذو الحجة 1443هـ

بعض حضرات احکام شرعیہ کے فائدہ میں تشکیک کرتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو وہ ان احکام کے فلسفے پر طعن بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ملال آور چیزیں ہیں یا کہتے ہیں کہ یہ ایسے کام ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوا کرتا۔ یہ ایسے بےجا اعتراضات ہیں جن کا تصور بھی ممکن نہیں ،اس لئے کہ یہ احکام شرعیہ اللہ کی طرف سے صادر ہوئے ہیں جو کہ عالم اور حکمت والا ہے اور بندوں کے اوپر رحمت و رأفت فرماتا ہے۔ ان احکام شرعیہ کو جاننے کی غرض سے ضروری ہے کہ ہم ان کی ماہیت اور ان کے اہداف و مقاصد کے بارے میں گفتگو کریں ۔

احکام شرعیہ کا انسان کی استطاعت کے مطابق ہونا:

اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانوں کے لئے جو احکام (اوامر و نواہی) بھیجے ہیں وہ اس کی طاقت و استطاعت کے عین مطابق ہیں، ایساکوئی حکم تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جو انسان کی ہمت و طاقت سے خارج ہو ، یہ مسئلہ خود قرآن کریم سے بھی ثابت ہوتا ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

((لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ .. ))(سورة البقرة ـ 286)

ترجمہ: اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، نفس کے لئے وہی ہے جو اس نے کیا ہے اور اس کے اوپر اتنا ہی جزا ہے جتنا اس نے کیا ہے۔ ) اس کااطلاق جو کچھ انسان پر فرض کیا گیا ہے اس سب پر ہوتا ہے جیسے نماز، روزہ، زکاۃ، حج، خمس اور دوسرے سارے احکام شرعیہ کہ جن کو آدمی آسانی کے ساتھ انجام دے سکتا ہے اگرچہ وہ اس سے بھی زیادہ اور بڑے کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن خدا نے اس کے لئے بہت آسان اور ہلکی ذمہ داری عائد فرمائی ہے ۔چنانچہ اس نکتے کو امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا:

"ما كلف الله العباد فوق ما يطيقون, فذكر الفرائض, وقال: إنما كلفهم صيام شهر من السنة, وهم يطيقون أكثر من ذلك".

ترجمہ: اللہ نے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے ،اس کے ساتھ امام علیہ السلام نے فرائض کا ذکر فرمایا ، اور پھر ارشاد فرمایا: اللہ نے تو سال میں بس ایک ماہ کا روزہ واجب فرمایا ہے درحالانکہ لوگ اس سے زیادہ دن بھی روزہ رکھ سکتے تھے ۔"

یہی مطلب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے اس فرمان سے بھی ثابت ہوتا ہے:

وإن الله سبحانه أمر عباده تخييرا، ونهاهم تحذيرا، وكلَّف يسيرا ولم يكلِّف عسيرا، وأعطى على القليل كثيرا. ولم يُعصَ مغلوبا، ولم يُطَع مُكرِها، ولم يرسِل الأنبياء لعبا، ولم يُنزل الكتب للعباد عبثا، ولا خلق السماوات والأرض وما بينهما باطلا، "ذلك ظن الذين كفروا فويل للذين كفروا من النار

ترجمہ: اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے بندوں کو امر کیا ہے جبکہ وہ اختیار رکھتے ہیں، اور ان کو منع فرمایا ہے ڈرانے کے لئے، ان پر تھوڑا بوجھ ڈالدیا ہے ان پر مشکل بوجھ نہیں ڈالا ہے، اور اس نے قلیل عمل کے انجام دینے پر کثیر جزاء عطا کیا ہے۔ اس کی نافرمانی اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ مغلوب ہوا ہو اور اس کی اطاعت بھی اس وجہ سے نہیں کی جارہی کہ اس نے مجبور کردیا ہو ،اس نے انبیاء کو باطل مبعوث نہیں فرمایا، یہ گمان ان کا ہے جنہوں نے کفر کیا ہے اور ان لوگوں کی بربادی ہے جنہوں نے کفر کیا کہ وہ جہنم جائیں گے ۔

احکام شرعیہ انسان کے فائدے اور مصلحت کے لئے:

یہ احکام الٰہیہ انسان کو تکلیف و اذیت دینے کی خاطر نازل نہیں ہوئے، بلکہ ان کے پیچھے ایک مصلحت پوشیدہ ہے کہ جس کا ذہن انسان تصور نہیں کرسکتا۔ ان احکام میں انسان کی دنیوی اور اخروی دونوں اعتبار سے مصلحت پائی جاتی ہے۔ یہ مصلحت جب ہم اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں دین کے کردار کا موازنہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارے لئے واضح ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ ہمیں ان دوطرح کے موازنے میں بڑا فرق نظر آتا ہے کہ ایک مرتبہ ہم دین کے طرف اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں آخرت کی زندگی سے دور کرتا ہے اور ایک دفعہ اس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ دین ہی ہے جو ہمیں ایک بہترین زندگی دیتا ہے اور وہ ہے دین پر عمل کرنے کے ساتھ ہی وہ اللہ تک پہنچا سکتا ہے اس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے دنیوی معاملات کو بھی جاری رکھے ۔ علاوہ اس کے کہ یہی عمل دینی ہمیں اپنے وجود کی اہمیت کی جانب راہنمائی بھی کرتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

((وقل اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون وستردون إلى عالم الغيب والشهادة فينبئكم بما كنتم تعملون))(سورة التوبة ـ 105). 

ترجمہ: اور ان سے کہہ دیجیئے ! تم عمل انجام دو  پس تمہارے عمل کو اللہ دیکھتا ہے، اس کا رسول اور مؤمنین بھی دیکھتے ہیں اور تم کو عنقریب غیب و شہادت کے عالم کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر تو جو کچھ تم کرتے تھے اس کی خبر تم کو دی جائے گی ۔ " ان احکام کا محور یہ ہے کہ عقیدہ و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ان اعمال کے ذریعے آدمی کو اس کے پروردگار کے قریب کیا جائے۔ جیسا کہ حدیث شریف نبوی میں رشاد ہوا ہے :

اعمل بفرائض الله تكن أتقى الناس"وقول أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام:"من أخلص بلغ الآمال

ترجمہ : خدا کےواجبات کو بجا لاؤ تاکہ تم سب سے پرہیزگار لوگوں میں سے ہوجاؤگے اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کا بھی یہ فرمان ہے:

من أخلص بلغ الآمال

ترجمہ: جو کوئی اخلاص کو اپنائے وہ اپنی آرزو ؤ ں کو پہنچ جائے گا۔"

یہ احکام روحی اور جسمانی، انفرادی اور اجتماعی ورزش بھی ہیں

جیسا کہ یہ احکام تربیت کا ایک مدرسہ کہلاتے ہیں جن پر عمل کے ذریعے انسان اپنے نفس کو مہذب بنالیتا ہے اسی طرح اس کی روح اور اس کی جڑوں کو اکھاڑنے والی چیزوں کو دور بھی کرتا ہے، اور ان تین اہم رابطوں کو بھی بہتر بناتا ہے، یعنی سب سے پہلے پروردگار کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط کرنا، دوسرے نمبر پر اپنے نفس کو سنوارناہے اور تیسرے مرحلے میں اپنے معاشرے اور ماحول کے ساتھ اپنے تعلق کو خوشگوار بنا لینا ہے۔ اس لئے کہ وہ شرعی احکام پر عمل کے ذریعے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرتا ہے، دوسری طرف سے حلال و حرام کی رعایت کے ذریعے  اپنے نفس کی تربیت کرتا ہے اور تیسرے مرحلے میں وہ معاشرتی بہتر تعلقات اور اچھے کردار کے ذریعے اپنی سماجی  حیثیت کو بہتر بنا سکتا ہے ۔

وہ احکام جو انسان کے اپنے رب، نفس اور ماحول کے ساتھ اس کے تعلق کو ایجاد کرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ حق اور حق کی نصرت کی بنیاد پر آدمی سماج کے ساتھ رہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سماجی کامیابی دو چیزوں میں مضمر ہے:

 ا۔ جماعت کے ساتھ ہونا ۔

ب ۔ قیادت کی پیروی کرنا۔

رسول اکرم ﷺ سے نقل ہوا ہے: "من فارق جماعة المسلمين, فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه"، قيل له: "يا رسول الله، وما جماعة المسلمين؟"، قال صلوات الله تعالى عليه: "جماعة أهل الحق وإن قلوا".

ترجمہ: جو کوئی مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہوجائے اس نے اپنی گردن سے اسلام کی رسی اتاردی۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ ! مسلمانوں کی جماعت سے کیا مراد ہے؟  آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اہل حق کی جماعت اگرچہ تھوڑے کیوں نہ ہوں ۔"

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "من فارق جماعة المسلمين قيد شبر, فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه، ومن مات ليس عليه إمام فميتته جاهلية، ومن مات تحت راية عمية يدعو إلى عصبة أو ينصر عصبة فقتلتُهُ جاهلية".

ترجمہ: جس نے ایک بالشت برابر بھی مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کی اس نے اپنی گردن سے اسلام کی رسی اتاردی، اور جو کوئی اس حالت میں مرجائے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا، جو کوئی اندھیرے کے جھنڈے تلے مر جائے جو عصبیت کی جانب بلاتا ہو یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل ہوجائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ۔"

بہترین اعمال:

جو کچھ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ احکام الٰہیہ متعدد اور مختلف اقسام کے ہیں، اور ہر ایک کے پیچھے ایک الگ اور علیٰحدہ مصلحت چھپی ہوئی ہے اور ہر حکم کا اپنا فلسفہ ، معنی اور مقصد ہے۔ ان ہی احکام میں سے ایک حکم حقیقی قائد کے انتخاب کا ہے کہ جن کے اوپر انسان اپنی دنیوی اور اخروی زندگی کے معاملات سپرد کرسکتا ہے ۔ یہ ایک مستحب عارضی کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ اختیاری ہے کہ جس کو ترک کیاجاسکے یا اس سے شانہ خالی کیا جاسکے ۔ یہ ایک ضروری اور واجب کام ہے اس لئے کہ اگر خدا کی جانب سے مقرر کردہ راہنما نہ ہو تو انسان ضائع  اور راستے سے بھٹک جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان الٰہی نمائندوں کو اپنے اور بندوں کے درمیان واسطہ قرار دیا تاکہ وہ انسانوں کے ہادی اور ان کی راہنمائی کرنے والے ہوں۔ ان اعمال میں سے افضل عمل اللہ کےمقرر کئے ہوئے راہنما مہدی منتظر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کا انتظار کرنا ہے۔ چنانچہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے  رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان نقل ہوا ہے : "أفضل العبادة انتظار الفرج" ترجمہ: افضل عبادت ، انتظار فرج ہے ۔" اسی طرح امام عسکری علیہ السلام سے بھی رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے: "أفضل أعمال أمتي انتظار الفرج من الله عزَّ وجل". ترجمہ : میری امت کے افضل اعمال ، اللہ کی جانب سے انتظار فرج ہے ۔"


آپ کو میں بھی دلچسپی ہو سکتی ہے