چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ کی طرف سے مخلوقات پر اللہ کا جانشین ہے، اس وجہ سے اسلام اس کی نوع کو دوام اور بقاء بخشنے کے لیے کچھ محرکات اور مراعات سے بالاتر ہو کر واجب کی حد تک قوانین اور ضوابط کے ایک نظام کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ان شرائط و ضوابط کی بنا پر اسلام نے اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ اور وہ زندگی بلکہ باعزت زندگی کے اسباب و وسائل پر کسی طرح کی بھی اجارہ داری کا سختی سے مقابلہ کرتا ہے۔ ان حدود و قیود کے ذریعے وہ نوع انسانی کی حفاظت کے لیے حقیقی اسباب کی بنیاد رکھتا ہے۔ حوصلہ افزائی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسلام مرد اور عورت کے درمیان پائے جانے والے فطری تعلق اور حمل اور بچے کی پیدائش پر اس تعلق کے اثرات کے ذریعے بنی نوع انسان کی حفاظت اور اس کے دوام اور بقاء کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
چونکہ یہ نوع (نوع انسانی) بھی دوسری انواع کی طرح ایجاد و فنا (ولادت اور موت) جیسے حیاتیاتی عوامل سے دوچار ہوتی ہے، لہٰذا بچوں اور نسلوں کے ذریعے اس نسل کی بقاء کے لیے قانون سازی ضروری تھی اور اس قانون کا نام ازدواج ہے۔ شادی کا مقصد جس قدر مرد اور عورت دونوں کے فطری جنسی رجحان اور ان کےدرمیان جذباتی اور احساساتی محبت کو پورا کرنا ہے اس کے علاوہ اس کے اندر اس سے بھی بڑا اور عظیم مقصد پوشیدہ ہے اور وہ ہے پروردگار کے ہاں ایک عظیم مقصد کے لیے نوع انسان کا دوام اور بقاء۔
جس طرح فطری طور پر مرد اور عورت کے مابین جنسی کشش ار جذباتی رجحان موجود ہے اسی طرح اپنی نسل کے ذریعے اپنی نوع کی بقاء کی خواہش ان میں ایک اور فطری جبلت کے طور پر موجود ہوتی ہے۔
اس بنا پر مرد اور عورت کے درمیان شادی اور عورت کی طرف سے بچے کی ولادت کے ذریعے نسل کا تسلسل ایک ایسی انسانی ضرورت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس انداز سے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کا سب سے مقدس مقصد اور ضرورت اولاد اور نسل کے ذریعے اپنی نوع کو دوام بخشنا ہے۔ چونکہ انسان کی سلیم فطرت جو خالقِ مصور کی حکمت پر قائم ہے وہ اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ اس سے جو کچھ بھی صادر ہو وہ انتہائی حکمت سے صادر ہو، پس اس کی حکمت اس چیز کو ضروری قرار دیتی ہے کہ مرد اور عورت کی شادی کے ذریعے اس نوع کو دوام بخشا جائے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَعَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔(النساء: ۱) [اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک ذات سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ کی نگرانی ہے۔] کیونکہ انسان کا نوعی پھیلاؤ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب دو مختلف خلقت کے انسانوں کے درمیان ربط برقرار ہو اور تناسل اسی طریقے میں منحصر ہے جو شادی کی شکل میں سامنے آتا ہے اور اس کے نتیجے میں الٰہی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ تکاثر اور انبثاث فقط اسی وقت ہو سکتا ہے جب عورت اور مرد کے درمیان ازدواج کا رشتہ برقرار کیا جائے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: هُوَ الَّذي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَةٍ وَ جَعَلَ مِنْها زَوْجَها لِيَسْكُنَ إِلَيْها فَلَمَّا تَغَشَّاها حَمَلَتْ حَمْلاً خَفيفاً فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُما لَئِنْ آتَيْتَنا صالِحاً لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرين۔ (الاعراف: 189) [وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے پھر اس کے بعد جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا (مقاربت کی) تو عورت کو ہلکا سا حمل ہو گیا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ حمل بھاری ہوا تو دونوں (میاں بیوی) نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو نے ہمیں سالم بچہ دیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔] اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا حمل ایک مرد ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے اگرچہ اس کے ضمن میں شادی کے کچھ دوسرے اہداف بھی اس کے مدنظر ہوں مثلاً زوجین کا محبت اور احساسات کے ساتھ اکٹھے رہنا، جیسا کہ لفظ ’’لَیَسْکُن‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔
اصل تشریع (قانون سازی) جو ایک حکیم اور رحیم نے جاری کی ہے اور اصل خلقت جو مبدع اور مصور جو کہ وہی رحیم و حکیم ذات ہے، نے انجام دی ہے، کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت کی وجہ سے اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام خلقت اور نظام تشریع کے مابین بشمول شادی کی وجوہ کہ جس میں کوئی شک نہیں، ہم آہنگی کی حالت پیدا ہو۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔ اس نتیجے میں تشریع یا قانون سازی جبلت کو شکست نہیں دیتی اور نہ ہی فطرت قانون سازی کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہے۔
اس بنا پر مرد اور عورت کی خلقت اس انداز میں کی گئی ہے کہ یہ خلقت ان دونوں کے اکٹھے ہوئے بغیر کامل نہیں ہوتی اور یہ چیز انسانی فطرت کے تقاضوں اور اس تمایل و میلان کے مطابق ہے جو یہ فطرت مرد اور عورت کے درمیان پیدا کرتی ہے اور یہ میلان اس میلان سے مختلف ہے جو ایک مرد یا عورت اپنی ہی جنس کے کسی دوسرے فرد کی طرف رکھتے ہیں، جسے اسلام انحراف اور گمراہی قرار دیتا ہے، کیونکہ ان لوگوں کا یہ عمل جو اپنے ہی ہم جنس کی طرف مائل ہوتے ہیں، ایک ایسا راستہ ہے جو فطرت سے متعارض ہے اور تخلیق کی طبیعت کے منافی ہے۔ اس طرح کے تعلقات (ہم جنس پرستی) مرد اور عورت کے درمیان پائے جانے والے تعلق میں پائے جانے والے تکامل کے انگیزے کے فقدان کے ساتھ ساتھ انسان کو وہ روحانی اور جسمانی استحکام عطا نہیں کرتے جو شرعی اور معمول کا تعلق عطا کرتا ہے۔
یہ معمول کا رشتہ نوع انسانی کی ایک اور شناخت عطا کرتا ہے جس سے اس کی تخلیق کا فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس فائدے کا ادراک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ فریق مقابل کے ساتھ بقاء نوع کی مساوات مکمل نہ کر لے اور فرد اور اس کے خالق (دین) کے درمیان رابطے کی حفاظت نہ کرے کیونکہ ازدواج دین کی تکمیل ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے اس بات پر زور دیا ہے: ’’جس نے ازدواج کیا، اس نے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیا۔‘‘ اس بنا پر مرد اور عورت کے درمیان شرعی تعلق (ازدواج) خدا کی طرف سے جائز کردہ تعلق ہے کیونکہ یہ الٰہی عہد و پیمان کی ایک شق ہے جیسا کہ آیت: وَ إِذْ قالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَليفَةً ۔ (بقرۃ: ۳۰) [اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والاہوں۔] میں ہے۔ کیونکہ الٰہی خلافت تقاضا کرتی ہے کہ اسی طرح کی جانشینی کے ساتھ خلفاء (ورثاء) کا تسلسل جاری رہے تاکہ خلافت جاری رہے کیونکہ اسی سے زمین نے آباد ہونا ہے اور یہ امر ازدواج کو فقط ایک تمدنی یا حیاتیاتی (دنیوی) امر سے نکال کر اعلیٰ سطح پر لے جاتا ہے۔ اس بنا پر ایک مرد اور عورت کے مابین قانونی تعلق، جنسی سلوک اور فطری تسکین کے موضوع سے بالاتر ہے تاکہ یہ تعلق ایک گہرے اور وسیع فلسفے تک پہنچ جائے اور وہ فلسفہ نوع انسانی کا تحفظ اور انسانی نوع کی حالت کا تسلسل ہے جو صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب مرد اور عورت کے مابین رابطہ برقرار ہو۔ جب تک یہ تعلق شادی کے ذریعے جاری نہ ہو اس وقت تک بہت سے عظیم مصالح اور مفادات سے ٹکراتا رہے گا۔
خلاصہ یہ ہوا کہ ازدواجی تعلقات ذاتی اور مرتبے کے لحاظ سے ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں اور وہ مقصد انسانی نوع کا تسلسل ہے اور دوسرے مقاصد و اہداف کے علاوہ یہ ایک قانونی مقصد ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔