- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام نے ’’خنوثت‘‘ اور ’’ہم جنس پرستی‘‘ کے مسئلے کو کس نظر سےدیکھا اور اس کا کیا حل پیش کیا ہے؟
26 ذو الحجة 1443هـ

اس قسم کے موضوع پر ایک ہی مضمون کے ذریعے بحث کرنا اس کے تمام پہلوؤں، اہم نکات اور اسلام کے اس مسئلے کے بارے میں نظریے اور راہ حل کا احاطہ نہیں کر سکتا، بلکہ یہ موضوع ایک مستقل مطالعے کا تقاضا کرتا ہے جو ان تمام اسباب، پہلوؤں اور نفسیاتی و معاشرتی نتائج کا احاطہ کر سکے جن کا تعلق ان دو بڑے نظریات ’’خنوثت‘‘ اور ’’ہم جنس پرستی‘‘سے ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ یہ بحث اس قاعدے مَا لَا یُدْرَک کُلُّہ لَا یُتْرَک کُلُّہ۔ [جسے مکمل طور پر سمجھا نہ جا سکے اسے مکمل طور پر ترک بھی نہیں کیا جا سکتا] کی روشنی میں کی جائے۔

ہم نے اسی قاعدے پر عمل کرتے ہوئے اس مضمون میں بعض محدود نقاط پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔

ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ افراد برائی اور انحطاط کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں جو لامحالہ ان منظم اور انسانی عنصر کی بقاء کے ضامن اجتماعی روابط کے خاتمے اور زوال کا سبب بنتا ہے۔ ہم اس حوالے سے گفتگو کر چکے ہیں کہ حقوق بشر (Human Rights) کے نام پر بعض سماجی نظریات کا بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا اور ترویج معاشرے کو انحطاط اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس مشاہدے اور گفتگو کے بعد اب ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ یہاں ہم کچھ دیر کے لیے ٹھہر کر ہم جنس پرستی کے بارے میں اسلامی نظام کا موقف بیان کریں اور ہم جنس پرستی اور خنوثت (جو انسان کے جسم میں بعض نقائص کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے) کے مسئلے میں پائے جانے والے فرق کو بھی واضح کریں۔ خنوثت، جسے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات یہ ان لوگوں کے لیے پردے اور ڈھال کا کام دیتی ہے جو ہم جنس پرستی کی ترویج کرنا چاہتے ہیں اور اسے ایک حقیقی امر بنا کر پیش کرتے ہیں۔

اس مقام پر ہم کہنا چاہیں گے کہ اگر ہم ان نقطہ ہائے آغاز اور بنیادی اصولوں کا مطالعہ کریں جن پر اسلامی مکتبہ فکر نے اپنے مختلف نظاموں کی بنیاد رکھتے وقت اعتماد کیا ہے، بالخصوص اس کے قانون سازی کے نظام میں کہ جس کا براہ راست تعلق ایک فرد کے رویوں کے ساتھ ہے، اسی طرح اگر دوسرے مکاتب فکر بالخصوص مغربی مکاتب کے اصولوں و نقطہ ہائے آغاز پر بھی دقت کریں تو ہمیں ان میں ایک واضح فرق دکھائی دے گا جس کی بنا پر ہر مکتب فکر کا اپنا موقف اور نتیجہ ہو گا۔ اسی فرق کی وجہ سے اسلام کے واقعیت اور انسانی طرز عمل کے حوالے سے کچھ ایسے موقف ہیں جو اس فطرت کے نزدیک ہیں کہ انسان کی تخلیق اور عالم کائنات میں اسے وجود عطا کرتے وقت جس سے اس کا خمیر اٹھایا گیا ہے۔

اور چونکہ ہمارا مقصد خنوثت اور ہم جنس پرستی کے حوالے سے اسلامی موقف کی وضاحت کرنا ہے لہٰذا ہم ان دونوں مسائل کے بارے میں دوسرے مکاتب فکر کے نظریات کو چھوڑ کر فقط اسلام کا نقطہ نظر بیان کریں گے۔ لیکن اس بحث میں داخل ہونے سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں کے مصادیق میں پائے جانے والے اہم اور بنیادی فرق واضح کریں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم ان دونوں کی تعریف کریں اور ان کی حدود بیان کریں۔

خنوثت اور ہم جنس پرستی میں فرق

خُنثیٰ کی تعریف

خنثیٰ یا خنوثت کا مطلب ہے کسی فرد میں جنس مخالف کی ایک یا ایک سے زیادہ جنسی اور مادی علامتوں کا جمع ہونا۔ یعنی مونث میں مذکر کی ایک یا ایک سے زیادہ مادی علامات پائی جائیں یا مذکر میں مونث کی ایک یا ایک سے زیادہ مادی علامات پائی جائیں۔

پس کلمہ ’’خنوثت‘‘ جس کو اسلام نے اپنے قانون سازی کے نظام میں تسلیم کیا ہے، واقعیت کی بنا پر ہے کیونکہ اس کا تعلق انسان کے جسمانی پہلو سے ہے۔ لفظ ’’علامت‘‘ کو ’’مادی‘‘ کہنا اس وجہ سے ہے کیونکہ یہی قید خنوثت اور ہم جنس پرستی کی اصطلاحات میں فرق واضح کرتی ہے، جیسا کہ ہم جنس پرستی کی تعریف سے واضح بھی ہو جائے گا۔

ہم جنس پرستی کی تعریف

ہم جنس پرستی، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے قائلین یا اس کا دفاع کرنے والوں کے نزدیک اس کی تعریف کی جاتی ہے، ایسے ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آج کے زمانے میں یہ لوگ اسے بنی نوع انسان کے لیے ایک واقعی حقیقت کے طور پر قبول کرتے ہیں جس کے ساتھ زندگی گزارنا اور اس کے ساتھ ہم آہنگی کرنا ضروری ہے۔ ہم جنس پرستی کی تعریف یہ ہے: ’’ایک شخص میں ایک ایسے فرد کی طرف جنسی میلان یا جنسی جذبے کا پیدا ہونا جو اس کی اپنی جنس سے ہو۔‘‘ جیسا کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کی طرف جذباتی اور جنسی طور پر مائل ہو جائے یا کوئی مرد کسی دوسرے مرد کی طرف جنسی یا جذباتی طور پر کھنچا چلا جائے۔ تعریف میں ہم نے ’’جنسی جذباتی‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ بعض افراد جو اس انحراف کا شکار ہوتے ہیں وہ بعض اوقات اپنے ہم جنس افراد کی طرف جذباتی میلان تو رکھتے ہیں مگر ان میں جنسی میلان نہیں ہوتا۔ البتہ یہ جذباتی کشش اس جذباتی لگاؤ سے مختلف ہے جو باپ بیٹے، بھائیوں اور دوستوں میں پایا جاتا ہے۔ جو کشش دو ہم جنس پرستوں میں پائی جاتی ہے وہ بعینہٖ وہی کشش اور میلان ہے جو حقیقت میں ہمیں میاں بیوی میں دکھائی دیتا ہے اور جو بالآخر اپنے اوج پر جا کر دو اشخاص کے درمیان جنسی پہلو پر ختم ہوتا ہے۔

ان دونوں اصطلاحوں یا حالتوں کی تعریف واضح ہونے کے بعد ہمارے لیے ان کے درمیان پائے جانے والے اہم فروق کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔

خنوثت میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا تعلق انسان کی جسمانی ساخت سے ہے جبکہ ہم جنس پرستی کا تعلق انسان کے نفسانی غرائز کے ساتھ ہے۔  البتہ ان دونوں حالتوں میں پایا جانے والا یہ فرق ان کے متعلقات کی وجہ سے ہے ورنہ اس کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی ایک فرد میں یہ دونوں حالتیں جمع نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسا ممکن ہے کوئی فرد ایک ہی وقت میں مخنث بھی اور ہم جنس پرست بھی۔

خنوثت اور ہم جنس پرستی میں فرق واضح ہونے کے بعد اب ہم واپس اپنی بات کی طرف چلتے ہیں:

یہاں اپنی گفتگو کے آغاز میں ہم اس بات کی طرف اشارہ کرتے چلیں کہ اسلام اپنی قانون سازی کے وقت یا تو اکثریت کو مدنظر رکھتا ہے یا اتنی تعداد کو، کہ اسے ہم سواد اعظم کہہ سکیں۔ پس اس کے قانون سازی کے نظام کی بنیاد اس پر ہو گی کہ بنی نوع انسان دو جنسوں پر مشتمل ہے: عورت اور مرد۔ اور یہ بنیاد اس فطری طبیعت کے عین مطابق ہے جس پر اکثر انسانوں کی تخلیق ہوئی ہے۔

ان دونوں جنسوں میں فرق کرنے کے لیے اسلام تمام مادی علامات و عوارض پر یقین رکھتا ہے۔ ان علامات میں سے کچھ ایسی ہیں جن کا انسان کی زندگی کے اعمال پر کوئی عقلی اور ذمہ دارانہ اثر بھی ہوتا ہے کہ جس کا تقاضا اس کی جنس کرتی ہے اور کچھ ایسی ہیں جن کا اس طرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا، مثلاً داڑھی ایسی علامت ہے جو جنس ذکوریت پر دلالت کرتی ہے البتہ اس کا ایک مرد کی ذمہ داریوں اور وظائف پر کوئی اثر نہیں پڑتا پس اگر ایک مرد داڑھی نہیں رکھتا یا اس کے داڑھی نہیں آتی تو اس کا نہ ہونا اس کی روزمرہ زندگی کے ایسے امور جن کا تقاضا جنس ذکوریت کرتی ہے، پر کسی بھی حوالے سے کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ یہی حال عورت کے ساتھ ہے۔ اگر اس کی داڑھی نکل بھی آئے تب بھی اس کی روزمرہ زندگی کے ایسے اعمال جن کا تقاضا جنس انثویت کرتی ہے، کسی حوالے سے بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ ہاں البتہ مرد کے لیے داڑھی کا نہ آنا اور عورت کے لیے داڑھی کا آ جانا ان کی عمومی اور سماجی زندگی پر کسی حوالے سے اثرانداز ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ اثرات حقیقت میں اتنے قابلِ اعتنا نہیں ہوتے کیونکہ ان کی بازگشت ان معیارات کی طرف ہوتی ہے جو انسانی فکر کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں، پس یہ اثرات بھی اعتباری ہوتے ہیں اور ان کی کوئی واقعی حقیقت نہیں ہوتی۔

جبکہ اس کے برعکس اگر ہم بعض ایسی علامات کا جائزہ لیں جو اس کی زندگی کے امور کی انجام دہی پر اثر انداز ہوتی ہیں جیسے عورت کے لیے رحم اور رحم سے متعلقہ اعضاء تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر عورت رحم سے محروم ہو تو بحیثیت ایک عورت یہ محرومی بلاواسطہ اس کی زندگی پر بہت ہی گہرا اثر مرتب کرتی ہے اور عقلاء اس محرومیت کو قابل توجہ بھی سمجھیں گے۔ لیکن اگر یہی علامت مرد میں موجود ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا۔

دوسری بات جو انتہائی قابل غور ہے وہ یہ کہ اسلام ذکور و اناث دو اصناف میں بنی نوع انسان کی تقسیم کی بنیاد پر اپنا نظام فکری تشکیل دیتا ہے لیکن اس نے ان دو اصناف کی علامات کی تشخیص کے بعد انہیں بالکل مہمل نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس حقیقت کو قبول کرنے کے بعد ان کا حل بھی پیش کیا ہے جسے اصطلاح میں ’’الحاق‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی اسلام کچھ ایسے اصول و ضوابط ہمارے سامنے رکھتا ہے جن کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ شخص جس میں مادی علامات موجود ہیں اسے اناث کے ساتھ ملحق کیا جائے کہ نتیجۃً اس پر خواتین کے احکام لاگو ہوں یا ذکور کے ساتھ ملحق کیا جائے کہ جس کے نتیجے میں اس پر مردوں کے سماجی اور شرعی احکام نافذ ہوں۔ جو قارئین اس موضوع پر مزید تفصیل کے خواہاں ہیں انہیں اسلام کے فقہی نظام خصوصاً اس میں موجود خنثیٰ کے لیے بیان کیے گئے شادی، میراث اور نماز وغیرہ کے مسائل کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

پس اسلام نے خنوثت کی مشکل کو کسی ایک صنف کے ساتھ الحاق کے ذریعے حل کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں اس شخص پر اسی صنف کے حقوق و فرائض عائد ہوں گے جس کے ساتھ اسے ملحق کیا گیا ہے۔ یہ حکم اسی فطرت کے عین مطابق ہے جس سے انسان کا خمیر اٹھایا گیا ہے۔ اورپھر خاص طور پر یہ حالت جبری امور میں شمار ہوتی ہے جس پر اس شخص کا کوئی اختیار نہیں ہوتا جس میں یہ علامات پائی جائیں۔ پس یہ خالص تکوینی حالت ہے۔

خنوثت کی مشکل چونکہ انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اس لیے اسلام نہ صرف اسے تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ لیکن جب ہم ہم جنس پرستی کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے لیے اس کا نہ صرف شدت سے انکار کیا ہے بلکہ وہ اسے ناپسندیدہ ترین برائیوں میں سے شمار کرتا ہے اور ایک غیر معمولی نفسیاتی انحراف قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم اسلامی قانون سازی کے نظام کی طرف رجوع کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم جنس پرستی کی حالت اگر دو مردوں میں پائی جائے تو اسے اصطلاحاً ’’لواط‘‘ کہتے ہیں اور اگر دو عورتوں میں موجود ہو تو اسے ’’سحاق‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلامی قانون سازی کے نظام میں اس حوالے سے ایسی سزاؤں کا بھی ایک مجموعہ موجود ہے جو اس برے کام کو انجام دینے والے فاعل کے حالات کے پیش نظر مختلف ہوتی ہیں۔

پس اگر یہ فعل انجام دینے والا مرد یا عورت شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا ان لوگوں سے زیادہ سخت ہے جو شادی شدہ نہ ہوں۔ مزید معلومات کے لیے اسلامی فقہی نظام میں موجود حدود کے باب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

اس مقام پر حقیقت یہ ہےکہ اسلام کی طرف سے ہم جنسی پرستی کی مخالفت کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ شارع مقدس ضبطِ نفس کے سلسلے میں انسان کی قدرت و توان کو جانتا ہے بلکہ اس نے انسان پر کوئی ایسی ذمہ داری ڈالی ہی نہیں جس کی وہ قدرت نہیں رکھتا: وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا۔ (المومنون: 62) [اور ہم کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے] لہٰذا اس نے انسان پر واجب قرار دیا ہے کہ ابتداء ہی سے اپنے نفس اور اپنے میلانات کو قابو میں رکھے کیونکہ یہی اس کی اس فطرت سے مناسبت رکھتے ہیں جس پر اس کی تخلیق کی گئی ہے۔ خصوصاً وہ غیرمعمولی میلانات جو انسانی فطرت سے ٹکراتے ہیں ان پر قابو پائے۔ اسی ذمہ داری کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے اسلام نے ہم جنس پرستی کو قبول کرنے یا اسے کوئی چھوٹ دینے سے انکار کیا ہے کہ جس کے بارے میں عقلاء کبھی بھی اختلاف نہیں کر سکتے کہ یہ ایک غیرمعمولی میلان ہے جس کا انسانی سلیم فطرت سختی سے انکار کرتی ہے، کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر اس کی اجازت دے دی جائےتو اس سے اس اہم اور بنیادی اساس پر ضرب لگے گی جس پر انسانی معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ پس جنسی تعلق جو انسانیت کی حفاظت کا ضامن ہے، وہ ایسے اہم عناصر میں سے ہے جس پر ایک خاندان کی بنیاد پڑتی ہے، اور خاندان اسلام کی نظر میں انسانی معاشرے کی پہلی اکائی ہوتی ہے۔ اور اگر ہم اس تعلق سے منہ موڑتے ہوئے اپنا رخ ایسے تعلق کی طرف کر لیں جو انسانی فطرت کے خلاف ہے تو گویا ہم نے معاشرے کی بنیادوں اور سماجی تعلقات کی عمارت کو ویران کر کے رکھ دیا ہے، جو انسان کو کمال کے راستے پر گامزن رکھنے کی بجائے بالآخر انتشار اور تباہی کی طرف لے جائے گا۔

اگر ہم قرآنی خطاب کی طرف متوجہ ہوں تو معلوم ہو گا کہ پروردگار مطلق جس نے انسان کی تخلیق کی اور اسے شکل و صورت عطا کی، اس نے ہمیں خبر دی ہے کہ اس نے انسانی نفس کو طاقت عطا کر رکھی ہے اور اسے فجور کی طرف جانے کی استعداد بخشی ہے۔ انسان فجور اور فحاشی کی طرف اسی وقت جا سکتا ہے جب وہ اپنی غیرمعمولی نفسانی خواہشات کی پیروی کرے، جو کمال کی طرف جانے کا تقاضا کرنے والی انسانی فطرت، کی مخالف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خدا نے نفس کو وہ قدرت بھی عطا کر رکھی ہے جس کی مدد سے وہ فجور کے مخالف راستے یعنی تقویٰ کے راستے پر چل سکتا ہے۔ جو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنے نفس پر قابو رکھے، فضائل کے حصول کے لیے اس کی تربیت کرے اور اسے برائیوں سے پاک رکھے۔ خداوند کریم ارشاد فرماتا ہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا * فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا۔ (الشمس: 7-8) [اور نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا۔ پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔]

بلکہ اس سورہ میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں خداوند تعالیٰ سورج، چاند، دن، رات، آسمان، زمین اور نفس کی قسم کھا کر ہمیں اس بات کی تاکید کرتا ہے بلکہ اس طرف ہماری رہنمائی بھی کرتا ہے کہ انسان کی دنیا و آخرت کے لیے مکمل فلاح اور کامیابی اس چیز پر موقوف ہے کہ وہ اپنے دونوں پہلوؤں میں موجود نفس کا رذائل و معائب سے تزکیہ کرے، اسے پاک و پاکیزہ رکھے اور اس کی پرورش کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے نفس کو ایسے امور میں پروان چڑھائے جو سلیم انسانی فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں۔

اسی طرح خداوند کریم ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے لیے واضح بھی کرتا ہے کہ دنیا و آخرت میں مکمل خسارہ اور نقصان نفس کی آلودگی سے تعلق رکھتا ہے جب وہ اپنے عیوب اور غیر معمولی میلانات و جذبات سے چشم پوشی کرتا ہے اور برائی کی راستے کو اپنا لیتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس ضمیر کی آواز کو دبا دیتا ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اور ہر برائی کے بعد اس کی ملامت اور سرزنش کرتا ہے۔ خداوند کریم اپنی کتاب میں فرماتا ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا * وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا۔ (الشمس: 9-10) [بتحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے آلودہ کیا نامراد ہوا۔]

ہماری گزشتہ تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام نے خنوثت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کے  لیے ایسی قانون سازی بھی کی ہے جو ایک جہت سے تو اعلیٰ درجے کے سماجی نظاموں سے مطابقت رکھتی ہے اور دوسری جہت سے مخنّث کے لیے مقرر کیے گئے انسانی حقوق سے مناسبت رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ اس حالت کا وجود میں آنا صاحب حالت کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ جبکہ دوسری طرف اسلام نے ہم جنس پرستی کو ایسے قطعی اور فیصلہ کن انداز جسے عقلاء عالم تسلیم کرتے ہیں، میں ردّ کیا ہے۔ کیونکہ یہ بات روشن ہے کہ اس حالت کو وجود میں لانے میں صاحب حالت کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اور وہ یوں کہ وہ ایک ایسی حالت کی طرف اپنے قدم بڑھاتا ہے جسے عقلاء عالم انسانیت کے لیے غیر فطری تصور کرتے ہیں اور انسانیت اور اس کے راہِ کمال کے لیے بہت بڑا مفسدہ سمجھتے ہیں۔ اور دوسرا سبب یہ کہ وہ اپنا یہ فریضہ ترک کر دیتا ہے جو اس کو اپنے نفس  پر قابو رکھنے اور اس کی تربیت کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس قسم کے میلانات کی طرف مائل ہونے سے روکتا ہے جو انسان میں فطری یا تکوینی نہیں مختلف خارجی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان خارجی عوامل میں انسان کا ماحول، اس کے حالات، تربیت اور نشوونما شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے میلانات اور رجحانات بھی ان خارجی عوامل میں شامل ہیں جن کے نتیجے میں انسان کے اندر جنسی میلان بڑھ جاتا ہے اور وہ ہم جنس پرستی کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔

اس بنا پر ہم جنس پرستی کی دونوں صورتوں کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی کچھ انسانوں کی حق تلفی شمار نہیں ہوتا، جیسا کہ کچھ لوگ اس بات کو اچھالتے رہتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک عقلی مفہوم ہے  تاکہ ان اعلیٰ اور بنیادی مصالح کی حفاظت ہو سکے جو بنی نوع انسان کی بقاء کے لیے ضروری ہیں۔

اگر اس سنگین نفسیاتی انحراف کے لیے کوئی قانون سازی نہ بھی کی جائے تب بھی یہ وجہ اس کے سدباب کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ یہ ایسا انحراف ہے کہ عقل اور شریعت اسلامی نفس پر قابو اور اس کی تربیت کے ذریعےجس کے علاج اور اصلاح کا حکم لگاتی ہیں۔

بعض ہم جنس پرستوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ اس میلان اور رغبت پر قابو پانے یا اسے تبدیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ نشہ آور اشیاء اور شراب کا استعمال ترک نہیں کر سکتا۔ اس دعویٰ کے غلط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے نفسانی میلانات اور شہوات ہیں جو ایک ہی عنصر، جسے ’’لذت‘‘ کہتے ہیں، کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی بنیادی فرق نہیں پایاجاتا بلکہ بعض اوقات ان میں اگر کوئی فرق پایا بھی جاتا ہے تو وہ فقط منشاء، متعلقہ شے، شدت اور ضعف کے حوالے ہی سے ہو گا۔

واقعیت اور حقیقت ہمیں پوری وضاحت سے بتاتی ہے کہ انسان کے پاس فقط اپنے نفسانی تمایلات، اپنے فکری نظریات اور دینی اعتقادات ہی کو تبدیل کرنے کی قدرت نہیں ہوتی بلکہ اس کے پاس اس فطرت کو بدلنے کی طاقت بھی ہوتی ہے جس پر وہ پیدا ہوتا ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ تمایلات تبدیل کرنے میں ناتوانی اور عدم قدرت کا تعلق امور تکوینیہ سے نہیں ہے جیسا کہ خنثیٰ میں ہوتا ہے بلکہ اس کے کچھ دوسرے اسباب ہیں جیسا کہ قوت ارادی کی کمزوری یا تبدیلی میں دلچسپی کا نہ ہونا اور ان اسباب کا سدباب ایک انسان کے ممکن ہے۔ یہ اسباب کسی نفسیاتی یا ثقافتی پس منظر کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

ہم اپنی گفتگو کو اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ غیر معمولی جنسی تمایلات کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ فقط مرد کے مرد کے ساتھ لگاؤ یا عورت کے عورت کے ساتھ لگاؤ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ کچھ دوسرے تمایلات بھی ہیں جیسے بڑوں کا چھوٹے بچوں کی طرف جنسی تمایل یا مرد کا مُردہ لوگوں کی طرف تمایل جیسا کہ امریکہ میں کئی بار ایسے واقعات دیکھنے کو ملے، یا مرد اور عورت کا پُرتشدد جنسی تعلقات کی طرف رجحان، یا حتی کہ حیوانات کی طرف میلان اور اس طرح کے دوسرے تمایلات۔

پس جو شخص بھی ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینا چاہتا ہے وہ باقی دوسرے بہت سے میلانات سے غفلت کیوں برتتا ہے۔ بلکہ جو لوگ اس لت میں مبتلا ہیں ان پر ضروری ہے کہ وہ اپنے میلانات پر قابو پائیں اور اس عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے کوشش کریں۔ پھر اگر ہم جنس پرستی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ان کے اندر معیار و اساسی نقطہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ یہ سارے کے سارے تمایلات اس انسانی فطرت کے مخالف ہیں جس سے انسان کا خمیر اٹھایا گیا ہے۔