کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ متعدد شریعتیں کیوں وجود میں آیئں، جبکہ آئین اور قانون اور انبیاء وپیغام رساں بھیجنے والی صرف ایک ہی ذات ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے،اس کے باوجود کئی شریعتیں کیوں؟
جواب: کیونکہ اللہ نے بندے کی ظرفیت کے مطابق معاشرہ سازی کے عمل کو تدریجی انداز میں تکامل کی طرف بڑھنے کی صلاحیت انسان کے اندر ودیعت رکھی ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی ظرفیت کے مطابق اوامر واحکام صادر ہوتے رہے۔ کیونکہ دین اسلام ایک اجتماعی وسماجی روش کا نام ہے۔ معاشرے کی ترقی وتکامل کے حساب سے دین وشریعت کے اوامر بھی نزول ہوتے رہے ہیں اور معمولی معاشرتی حقائق واعمال سے متعلق احکام بھی اس ذات کی طرف سے آتے رہے ہیں۔ جو علیم اور رحیم ہے۔ وہ ذات جو بہت جاننے والی اور بہت رحم کرنے والی ہے ۔
اللہ تعالی نےانسان کو مختلف مراحل سے گزارا ہے۔ زمانۂ طفلی سے جوانی تک پھر جوانی سے بڑھاپے کی طرف پھر حیات اخروی کی طرف لے جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا مطالب کی طرف حسبِ ذیل آیۃ کریمہ اشارہ کرتی ہے:
ترجمہ: وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائےان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں بالیقین آپ کاربّ جلد سزا دینے والا ہے۔اور بالیقین وہ واقعی بڑی مغفرت کرنے والا، مہربانی کرنے والاہے۔(سورہ انعام/165)
پس ان وجوہات کی بنا پر مختلف حالات اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الٰہی قانون میں تبدیلی وتغیر وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں۔ ان مختلف تشریعی وقانونی تبدیلیوں کے مرحلے میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ اور نہ ہی ان میں کوئی نقص اور خامی نظر آتی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جس طرح ایک سیکھنے والے بچہ کی فہم و ادراک کے مطابق اندازِ تدریس وانداز تعلم میں مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی ترقی پذیر وتکامل پذیر ہے۔ ان کیفیات کےمطابق انبیاء ورسل آتے رہے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، اسی پر غور کریں تو معاملہ سمجھ میں آجائے گا۔