- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


دین اسلام ہی کیوں؟
6 رمضان 1442هـ

انسانی زندگی کے مختلف طبقوں میں ہم ایک بات کا عام مشاہدہ کرتے ہیں کہ معاشرے میں سوال اٹھانے کے رجحان کو طاقت سے دبایا جاتاہے۔ البتہ سوال کو دبانے کی شدت کے حوالے سے بعض معاشرے دوسرے معاشروں سے متضاد بھی ہیں۔ اسی طرح یہی شدت ہمیں معاشرے کے مختلف افراد کی وابستگیوں کے ساتھ بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔اور ان کی یہ وابستگیاں خواہ دینی اور مذہبی وابستگی ہو یا فکری اور فلسفی بلکہ بعض اوقات تو صرف سوال اٹھانے کی پاداش میں لوگ کسی کی ساکھ خراب کرنے کے لیے طرح طرح کی تہمتیں بھی لگانے لگ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے معاشروں میں چل رہا ہوتا ہے۔ جبکہ لوگ اس بات سے اصلاً غافل رہتے ہیں۔ کہ سوال اٹھانا درحقیقت انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔بلکہ پوچھنے اور سوال اٹھانے کی ثقافت درحقیقت قرآنی ثقافت ہے۔ جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مخاطب ہونے کے لیے اپنایا ہے۔چنانچہ کتنے ہی ایسے مقامات اور ایسی آیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سوال اور استفسار کے انداز میں بنی نوع انسان سے مخاطب ہوا ہے اور انسانی معاشرے میں رائج انداز خطاب پر اکتفاء نہیں کیا ہے۔ چنانچہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت کی طرف اشارہ کرنے کو کافی سمجھتے ہیں کہ جو نا فقط اول سے آخر سوال اور استفتاء پر مشتمل ہے بلکہ یہ بحت و تکرار اور سوال و جواب سے بھرپور ہے۔ چنانچہ سیرت ابراہیمی ؑ کی سچائی اور انسانی کمال کے لیے اس کی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسی کو بہترین راستہ قرار دیا اور دین مقدس اسلام پر ایمان لانے والوں کو اسی سیرت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔چنانچہ ارشاد فرمایا :

فَمَنِ افْتَـرٰى عَلَى اللّـٰهِ الْكَذِبَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ  (آل عمران 94)

ترجمہ: پھر جس نے اس کے بعد اللہ پر جھوٹ بنایا وہی بڑے بے انصاف ہیں۔ 

وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَه لِلّـٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًاوَاتَّخَذَ اللّـٰهُ اِبْـرَاهِيْـمَ خَلِيْلًا ۔ (سورہ النساء 125)

ترجمہ: اس شخص سے بہتر دین میں کون ہے جس نے اللہ کے حکم پر پیشانی رکھی اور وہ نیکی کرنے والا ہوگیا اور ابراہیم کے دین کی پیروی کی جو یکسو تھا، اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا ہے۔

بعض مقامات پر ہم دیکھتے ہیں کہ مولائے حکیم اسی سیرت ابراہیمی کی پیروی کرنے کی شدید تاکید کرتا ہے اور اسے ترک کرنے اور اس سے روگردانی کرنے والوں پر شدید افسوس بھی کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْـرَاهِيْمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَه وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِى الـدُّنْيَا وَاِنَّه فِى الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ۔(البقرہ : 130)

ترجمہ: اور کون ہے جو ملت ابراھیمی سے روگردانی کرے سوائے اس کے جو خود ہی احمق ہو، اور ہم نے تو اسے دنیا میں بھی بزرگی دی تھی، اور بے شک وہ آخرت میں بھی اچھے لوگوں میں سے ہوگا۔

مذکورہ   آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کے ذکر کے ساتھ جو لفظ  ’’ الملۃّ‘‘ استعمال ہوا ہے، یہ دین کے معنی میں نہیں بلکہ یہاں ’’ الملّۃ‘‘  دنیا میں  دوسروں کے ساتھ برتاؤ  کا طریقہ اور حیات دنیوی میں انسان کے چال چلن کے معنی دیتا ہے۔ یعنی انسان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھانے کا طریقہ ۔ پس مجموعی طور پر انسان کی زندگی میں مختلف امور کی بابت خوش اسلوبی سے نبرد آزما ہونے کے طریقے اور سلیقے کو  ’’ الملّۃ‘‘ کہا گیا ہے۔پس قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کا حکم دیا ہے ، اس سے مراد مومنین کی زندگی میں تمام تر مسائل کا سامنا کرنے اور انہیں خوش اسلوبی سے سلجھانے کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی ذاتی سیرت اور طریقہ تعامل سے درس لیتے ہوئے ان کی پیروی کرنا ہے۔

یہاں تک کے بیانات کی روشنی میں ہم اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ

’’ اسلام کس لیے؟‘‘ یا سلام کیوں؟

ہم یہ سوال سب سے پہلے ان کے سامنے رکھتے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہوا ہے اور ہم یہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ واضح سی بات ہے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جو علم اور معرفت کی بنیاد پر ہو جبکہ وہ ایمان نہیں جو موروثی طورپر اتباع اورتقلید کے طور پر چلا آرہا ہو۔اور اس لیے بھی کہ جس طرح انسان کی دنیوی شخصی زندگی پر اس کے مذہب کا خاص اثر ہوتاہے اسی طرح انسان کی اخروی زندگی کی تمام منازل کے ساتھ بھی اس کے دین کا گہرا تعلق ہے۔ لہٰذا ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دین کے ان بنیادی عناصر کے بارے میں سوال اٹھائے جو اس کی دنیوی و اخروی زندگی کی بنیاد ہیں کیونکہ  انسان نے  اسی دین پر اعتماد کرنا ہے اور اسی کے مطابق چلنا ہے۔ دین ہی انسانی وجود کے سفر کے لیے سچا اور بہترین راستہ ہے۔لہٰذا اس کو مستند حقائق کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے۔ہم اس مختصر مقالے میں موقع کی گنجائش میں کمی اور اپنی کم علمی کے باوجود اس بات کی کوشش کریں گے کہ دین اسلام جن عناصر کے مجموعے سے بن کر اعلیٰ ترین نظام عالم بنا ہے، ان میں سے ایک عنصر کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ ہمیں اس کام کے لیے درج ذیل کچھ ضوابط مقرر کرنے ہوں گے:

کسی بھی نظام کی برتری یا  اس کو صحیح ترین قرار دینے کا ضابطہ یہ ہے کہ جن مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے یہ نظام بنایا گیا ہے انہیں حاصل کرنے میں یہ نظام کتنا کامیاب ہے؟

پھر حاصل شدہ مقام اورکمال کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ انسان کو کمال کے بلند ترین مرتبے تک پہنچا نے پر یہ نظام کتنی قدرت رکھتا ہے یقیناً یہ ایک ایسا ضابطہ ہے  جس کا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والاانکار نہیں کرسکتا۔ تاہم یہ ضابطہ بھی انفرادی طور پر کسی حتمی فیصلے کے لیے ناکافی ہے۔کیونکہ اس بات کا امکان واضح ہے کہ ہر کوئی اپنے مذہب میں اس ضابطے کا دعویٰ کرے اور ہر فرد یا گروہ اپنے مذہب کو اسی ضابطے کے عین مطابق قرار دے۔لہٰذا ہمیں اس ضابطے کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں دیکھنی ہوں گی تاکہ ان  کی مدد سے ہم کوئی حتمی فیصلہ کرسکیں کہ یہ ضابطہ کہاں کہاںپورا پایا جاتاہے۔اور کہاں نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ ہم اس بحث میں کوشش کریں گے کہ اس ضابطے کا پورا ہونے یا نہ ہونے کی تشخیص کر سکیں۔

اور اب ہم آتے ہیں  ان چیزوں کی طرف  جو ہماری اس مشکل کو حل کرسکیں، تو اس کا جواب ہمیں مولائے حکیم کے ہاں ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس باریک نکتے کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے۔اور ہمارے اسی مقصد کے لیے اپنی کتاب میں ہمارے لیے  علامت بتائی ہے۔ اور وہ علامت یہ ہے کہ ’’ وہ نظام اسی طبیعت اور فطرت کے عین مطابق ہو جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق فرمایاہے۔اور بنی نوع بشر کی اسی طبیعت کے مطابق ہو جسے اللہ تعالیٰ نے بشر کی حقیقت وجود میں رکھا ہے۔

دوسری طرف ضروری ہے کہ یہ نظام خلقت انسانی کی طبیعت اور اس کی واقعیت کے خلاف نہ ہو۔ کیونکہ واضح سی بات ہے کہ اصلی کمال انسان کی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق اس کی حرکات و سکنات سے حاصل ہونے والانتیجہ ہے۔درحقیقت یہ نظام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ انسان اپنے فطری اور طبیعی  کاموں کو درست سمت میں منظم کرے اور اس کے بشری خیالات اور اقدار کا پاسبان ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ہی نظام کی طرف رہنمائی فرماتاہے جس میں اس دنیا کے اندر انسانی زندگی کی اعلیٰ اقدار اور صحیح راستہ دکھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو انسانی طبیعت وفطرت سے مکمل ہم آہنگ ہے جس پر انسان کی خلقت ہوئی ہے۔ اس نظام اور انسانی فطرت میں اس حد تک ہم آہنگی ہے کہ کسی جزئی چیز میں بھی ان دونوں میں تعارض دیکھنے کو نہیں ملتا۔اس بات کا اشارہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ملتا ہے :

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّـٰهِ الَّتِىْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْـهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّـٰهِ  ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَـيِّـمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔( سورہ الروم : ۳۰)

ترجمہ: سو تو ایک طرف کا ہو کر دین پرسیدھا منہ کیے چلا جا، اللہ کی دی ہوئی قابلیت پر جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بناوٹ میں ردو بدل نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔

چنانچہ اس آیت میں  ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰؐ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ اور اہمیت میلان کے ساتھ اسی دین کی طرف مبذول کریں جو مکمل انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح اور مقام پر بھی اسی بات کا حکم دیا ہے ، چنانچہ فرمایا:

وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلـدِّيْنِ حَنِيْفًا وَلَا تَكُـوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۔ (سورہ یونس : آیت 105)

ترجمہ: اور یہ بھی کہ یکسو ہو کر دین کی طرف رخ کیے رہو، اور مشرکوں میں نہ ہو۔ پس اسی بنا پر جب ہم پہلی آیت ( سورہ روم: 30) پر غور کرتے ہیں اور لفظ  ’’ حنیفاً‘‘ پر تحقیق کرتےہیں جو قرآن کریم میں  12 موارد میں آیا ہے۔ جب ہم ان 12 موارد کے سیاق وسباق کا تجزیہ وتحلیل کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ   اس آیت کی دوتفسیریں ہوسکتی ہیں:

پہلی تفسیر:  اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ پیغمبر ﷺ  کو دین مقدس اسلام کو اپنانے کا حکم دیتا ہے جبکہ پیغمبر ؐ خود اللہ تعالیٰ کی طرف میلان رکھتا ہے۔ چنانچہ اسی نکتے کی وضاحت ایک اور آیت بھی کر رہی ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

حُنَفَاءَ لِلّـٰهِ غَيْـرَ مُشْرِكِيْنَ بِه وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ۔(سورہ حج : 31)

ترجمہ: خاص اللہ کے ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کی طرف جھکاؤ اور میلان رکھتے ہوئے دین کو اپنانے کے لیے قیام کرنا ہی وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق فرمایا۔ دوسری جانب چونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف میلان کے ساتھ ساتھ دین کو اخذ کرنے کی فطرت پر خلق ہوا ہے لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسی دین کا پابند رہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس فطرت پر خلق فرمایا ہے اسے تبدیل کرنا ممکن نہیں۔یہی دین قیّم اور سچا دین ہے، لیکن بہت سارے لوگ اس دین قیّم کے بارے میں جانتے نہیں۔پس اس لحاظ سے اس آیت کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے : یامحمدؐ اپنا رخ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف کریں ، جبکہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف مائل بھی ہیں۔کیونکہ یہی وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو خلق فرمایاہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہ کریں اور یہی سچا دین ہے۔لیکن اکثر لوگ اس سچے دین کو نہیں جانتے۔

دوسری تفسیر:اس آیت مجیدہ کی ایک اور تفسیر یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمد ؐ  کو دین الٰہی اپنانے کا حکم اس حالت میں دے رہا ہے جب آپؐ اسی فطرت کی طرف جھکاؤ اور میلان رکھے ہوئے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خلق فرمایا ہے۔کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو فطرت کے خلاف ہو۔ ورنہ ایسی تشریع اور احکام جو فطرت کے خلاف ہوں ، خود اللہ تعالیٰ کی خلق کی ہوئی فطرت میں تبدل و تغیر لانے کا باعث ہوں گے۔جبکہ یہ محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں۔ پس اسی فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگ شکل میں دین کو اختیار کرنا ہی دین قیم ہے۔  اوراس پر ہی انسان کو خلق کیاگیاہے۔لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔

پس اس لحاظ سے آیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہوگا : یامحمد ؐ اپنا رخ اللہ کے دین کی طرف کریں۔اس حال میں کہ آپ ؐ اس فطرت کی طرف مائل ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے سارے لوگوں کو خلق فرمایاہے۔اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں۔یہ وہی سچا دین ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کے بارے میں نہیں جانتے ۔

ان دونوں تفاسیر میں سے ہماری نظر میں دوسری تفسیر بہتر ہے،پس  ہم اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ اس لیے کہ یہی تفسیر آیت کے دوسرے فقرات کے معنوی سیاق سے ہم آہنگ ہے۔ کیونکہ دین کو اپنانا خود اللہ تعالیٰ کی طرف میلان کا ایک مصداق ہے۔ جب دین کو اپنانا ہی اللہ کی طرف میلان ہے تو ایک بار پھر مولائے حکیم اللہ کی طرف مائل ہونے کا حکم دے،یہ کوئی وجہ نہیں بنتی۔جہاں تک دوسری آیت کی بات ہے (حُنَفَاءَ لِلّـٰهِ غَيْـرَ مُشْرِكِيْنَ بِه) تو یہ آیت میلان کے شرک پر مبنی دیگر مصادیق کی تشریح کے لیے نہیں آئی ۔یہاں تک کے حاصل کلام کی بنیاد پر اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ آیت کریمہ میں ہمیں دنیامیں رائج مختلف نظاموں کی درجہ بندی کر کے سچائی اور بطلان ثابت کرنے کے لیے نہایت اہم اور واضح ضابطہ دے رہا ہے۔اور اسی ضابطے کی مدد سے ہمارے لئے  یہ جاننا ممکن ہوتا ہے کہ ان مختلف نظاموں میں سے کون سا نظام ایسا ہے جو اس دنیا میں انسانی زندگی کے لیے متوازن اور معقول ہے۔ تاکہ اسی لحاظ سے ہم کسی نظام   یا دین قیم پر حکم لگا سکیں کہ یہ نظام اس فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق فرمایا ہے۔ اس نظام کو اپنانا ضروری ہے اور اسی کی جزئی چیز کی بھی مخالفت کرنا ہمارے لیے جائز نہیں۔ کیونکہ اس نظام کی مخالفت نا صرف اس ھیئت عالم سے متعارض ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مکونات عالم میں رکھاہے۔ بلکہ یہ مخالفت انسان کو اپنے اصل ہدف سے ہی منحرف کردیتی ہے۔جو تمام عقلاء آدم کے ہاں مسلمہ ہے۔یعنی انسان کو انفرادی  اور اجتماعی لحاظ  سے بشریت کے کمال تک پہنچانا ہدف ہے۔اس نظام کی مخالفت کرکے انسان اپنے اصلی ہدف سے ہی ہٹ جاتاہے۔

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پوچھنا اور سوال اٹھانا بنی نوع انسان کے ساتھ کئے گئےب الٰہی خطاب کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ اور یہی قرآنی ثقافت  کا ایک اہم جزء بھی ہے ۔بلکہ یہ نبی خدا حضرت ابراہیمؑ کی سنت و سیرت کی ایک اہم خصوصیت بھی ہے۔جسے ان کی سیرت میں اہم مقام حاصل ہے۔حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے مثالی قرار دیا تاکہ وہ اس کی پیروی کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی سیرت کو اپنانا اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر فرض کی جو اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ؐ پر ایمان رکھتا ہے۔لہٰذا کسی بھی فرد  یا گروہ کو کسی بھی موضوع سے متعلق مربوط سوال کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا ہے تو اس کے کئی منفی پہلو نکلتے ہیں۔جن میں بعض کا تعلق تو اسی شخص سے ہوتا ہے جس نے سوال کرنے سے منع کیا ہے۔جبکہ دوسرے پہلو خود اس نظام سے متعلق ہوتے ہیں جس پر ہر انسان اعتماد کرتا ہے۔ان منفی پہلوؤں میں سب سے نمایاں منفی پہلو یہ ثابت ہوگا کہ اس دین یا مذہب یا مکتبہ فکر میں کوئی کمزوری ہے اور اس کی جڑیں کمزور اور بے بنیاد ہیں۔جس کی وجہ سے اس کے بارے میں سوال اور بحث کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

اس مقالے میں ہم نے جو سوال اٹھایا تھا اس کے جواب کے طورپر جو بیانات سامنے آئے ان کا ماحصل یہ ہے کہ کسی بھی دین، مذہب یا مکتبہ فکر کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے لیے سب سے اہم اورنمایاں ضابطہ انسان کو اس کے آخری مقصد اور بشری کمال تک پہنچانے کے لیے اس دین ،مذہب یا مکتبہ فکر میں موجود صلاحیت ہے۔ اور یہ جاننے کے لیے کہ کس مذہب ،دین یا مکتبہ فکر میں یہ صلاحیت موجود ہے، ہمیں اس مذہب کا اس فطرت   کے ساتھ موازنہ کرنا ہوگا جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔پس جو دین انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہوگا وہی انسان کو کمال تک پہنچا سکتاہے۔کیونکہ کمال بشری تک پہنچنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان کی فطرت اور اس کے سامنے موجود اس کے اقدار اور افعال واقوال مکمل طورپر ہم آہنگ ہوں اور ان میں کوئی اختلاف یا تعارض نہ ہو۔

علم و معرفت پر مبنی اسلام کے عظیم نظام کے مشاہدے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دین مقدس اسلام ہی ایسا نظام ہے جسے بشریت باقی تمام نظاموں کے مقابلے میں انسانی فطرت اورطبیعت سے مکمل ہم آہنگ دیکھتی ہے۔بلکہ ہم یہ بھی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اس کا سارا نظام خصوصا اس کا عملی نظام مکمل طور پر اسی ضابطے کے مطابق ہے۔جس کے بارے میں ہم نے مذکورہ   آیت کے  ذیل میں بحث کی تھی۔

لہٰذا ہم نے دین اسلام کو اپنایا ہے اور کئی اسباب کی وجہ سے اس کی پیروی کو عبادت سمجھتے ہیں۔ ان اسباب میں سے اہم یہی ہے کہ یہ دین انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ دوسری بات ہم دین اسلام کو کسی بھی جزئی چیز کو فطرتِ سلیم کے خلاف نہیں دیکھتے اور بظاہر اگر کہیں ہمیں اختلاف نظر بھی آتاہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی فہم پر دوبارہ نظر کریں اور اس جزئی چیز کے بارے میں اپنے تصور پر نظرثانی کریں۔اور اگر یہ خلاف ثابت ہوا تو ہمیں چاہیے کہ اسے دیوار پہ دے ماریں۔ آخر میں ہم اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ انسانی طبیعت و فطرت اور نفسانی خواہشات اور اس کے ذہنی تقاضوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔نفسانی خواہشات اور انسان کے ذہنی تقاضے اس کے ماحول اور اس کی ثقافت کے تابع ہوتے ہیں جبکہ فطرت خالص ہوتی ہے۔یہ نشاندہی ہم اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ آج کل عام لوگوں کے پاس ان تین امور میں فرق کرنے کی قدرت وصلاحیت موجود نہیں۔ پس انسانی ہواوہوس اورنفسانی خواہشات کبھی ایسے کاموں کی طرف بھی لے جاتی ہیں جس میں بشریت کی تباہی ہے۔ اسی طرح انسان کی ذہنی پسند اور میلانات بھی مختلف تقاضوں کی پیروی میں بہت سی ایسی چیزوں کو اچھا سمجھتے ہیں جو انسانی طبیعت اولیٰ سے تعارض رکھتی ہوں۔لہٰذا ضروری ہے کہ دقت سے کام لیں اور ہمارے اس موضوع میں دی گئی جزئیات کی عملی طور پر تطبیق کرتے ہوئے ہر ہر جزئی چیز کا مشاہد کریں۔