حقیقت کے مطابق کی گئی بات سچ کہلاتی ہے جسے عربی میں صدق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔سچ اچھی صفت ہے اللہ تعالی اس سے محبت کرتا ہے اور سچ بولنے کا حکم دیتا ہے:
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ))(التوبة - 119)،
ایمان والواللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔
اللہ تعالی نے انبیائے کرام کی توصیف اسی صفت حسنہ سے کی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا))(مريم-41)،
اور کتاب هخدا میں ابراہیم علیھ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پیغمبر تھے۔
حضرت اسماعیلؑ کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے :
((إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ))(مريم - 54)،
تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے ّاور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر علیھ السّلام تھے۔
حضرت ادریسؑ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا))(مريم - 56)،
اور کتاب خدا میں ادریس علیھ السّلامکا بھی تذکرہ کرو کہ وہ بہت زیادہ سچے پیغمبر علیھ السّلام تھے۔
سچ کی کا الٹ جھوٹ ہے جسے عربی میں کذب سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ ایسی بات ہوتی ہے جو حقیقت کے خلاف ہو،جھوٹ بہت بری عادت ہے بہت سے لوگ جھوٹ ایک عادت کے طور پر بولتے ہیں اور اس کی برائی سے آگاہ نہیں ہوتے اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے اثرات کیا ہیں؟جھوٹ بولنے سے شریعت میں منع کیا گیا ہے اور اخلاقی طور پر بھی اس سے روکا جاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں جس کے نتیجے میں بہت سی لڑائیاں ہوتی ہیں اور بعض اوقات قتل بھی ہو جاتے ہیں۔یہ ایسی برائی ہے جو انسان کو ایمان سے دور کر دیتی ہے۔اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا گیا کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟آپﷺ نے فرمایا ہاں ہو سکتا ہے،پھر پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں،پھر پوچھا گیا کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ انسان کو ایمان سے دور کر دیتا ہے اور ایمان کے بعد کفر و گمرا ہی ہے اور گمراہی انسان کو جہنم لے جاتی ہے جہاں ہمیشہ کے لیے رہے گا۔یہ بات یاد رہے کہ جھوٹ جیسا بھی ہو برا ہے لیکن اللہ اور رسولﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت برا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر انسان روزہ کی حالت میں اللہ اور اس کے رسولﷺ پر جھوٹ باندھے یعنی ایسی بات کی نسبت اللہ اور رسولﷺ کی طرف دے جو انہوں نے نہ کی ہو تو انسان کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
سچ کی تین اقسام ہیں:
۱۔اللہ کے ساتھ سچ
اللہ کے ساتھ سچ یہ ہے کہ انسان اپنی نیت کو خالص کرے اور اپنےعمل کو اللہ کے لیے کرےاس میں کسی قسم کا دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو یعنی انسان جو عمل بھی انجام دے اس کی نیت خالص ہو اور وہ صرف اور صرف اللہ کے لیے کرے یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب نیت خالص ہوتی ہے تو اللہ کے ہاں عمل کی قدر قیمت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔
۲۔لوگوں کے ساتھ سچ
لوگوں کے ساتھ سچ یہ ہے کہ جب بھی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرے کبھی بھی ان سے غلط بیانی نہ کرے ۔یہ بات بہت اہم کہ جھوٹ منافقت کے علامت میں سے ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں،جب بولے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب بھی اسی امانت دی جائے اس میں خیانت کرے۔قرآن مجید کے مطابق منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں رکھے جائیں گے۔
۳۔خود سے سچائی
اسلام نے سچائی کو ایک بنیادی قدر کے طور پر اہمیت کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔اس کیوجہ سے ہی معاشرے بہتر انداز میں چلتے ہیں اور ان کا حقیقی کامیابی کی طرف سفر زیادہ تیزی سے ہوتا ہے۔اگر کسی معاشرہ میں سچ نہ ہو تو وہ معاشرہ تباہی سے دوچار ہوتا ہے۔مسلمان کو ہمیشہ اپنے ساتھ سچ بولنا چاہیے۔اپنے اندر موجود خامیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور عیوب کو تسلیم کرنا چاہیےپھر ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔جب کوئی برائی سرزد ہو جائے تو خود کو ملامت کرنی چاہیے یعنی انسان کو خود احتسانی کا عمل جاری رکھنا چاہیے اور جب برائی پر ہو تو خود کی مذمت کرے اور جب اچھائی پر ہو تو اس پر دلیری سے ڈٹ جائے۔
یہ بات ذہن نشین رہے سچ زندگی کے ہر معاملے میں موجود ہے جیسے جب بھی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرے تو ہمیشہ سچ بولے اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی کوئی بات سنے تو اسے توجہ سے سنے اس میں کوئی تشنگی نہ رہے جس کے نتیجے میں جب وہ یہ بات کہیں اور بتائے گا تو غلط فہمی ہو سکتی ہے،اسی طرح جب کسی سے کوئی لین دین کرے تو اس میں سچ بولے ،اسی طرح زندگی کے عام معاملات میں سچ بولے۔اللہ کے نبی ﷺ سے منقول ہے :
ہمیشہ سچ بولو اگرچہ تمہیں اس وقت اس میں نقصان
نظر آ رہا ہو یا نجات مل رہی ہو(
یعنی ہر دو صورت میں سچ بولو)جھوٹ سے بچو اگرچہ اس میں فائدہ ہو یا
نقصان ہو (یعنی ہر دو صورت میں جھوٹ سے بچنا ہے)
نبی اکرم سے روایت ہے:
إن الصدق يهدي الى البِرّ، وإن البِرّ يهدي الى الجنة، وإن الرجل ليتحرى الصدق حتى يُكتب عند الله عز وجل صديقا، وإن الكذب يهدي للفجور، وإن الفجور يهدي الى النار، وأن الرجل ليتحرّى الكذب حتى يُكتب عند الله كذابا".
سچ ہمیشہ نیکی کی طرف لے جاتا ہےا ور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے ۔انسان سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھا جاتا ہے۔جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی جہنم کی طرف لے جاتی ہے انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے کذاب لکھ لیا جاتا ہے۔
سچ کے ذریعے انسان کو معاشرے میں حیثیت اور اعلی مقام ملتا ہے، جو بھی سچ بولنا شروع کرتا ہے لوگوں میں اس کی شان و منزلت زیادہ ہو جاتی ہے ،سچ اس بات کی دلیل ہے کہ سچ بولنے والا اچھے کردار کا حامل ہے اور صاحب عقل ہے۔سچ ان اچھائیوں میں ہے جس پر تمام زمانوں کے تما م انسانوں کا اور تمام مذاہب کا اتفاق ہے اور سب نے اس کی تعریف کی ہے اور جھوٹ کی برائی پر بھی سب کا اتفاق ہے۔
سچ اللہ کے انبیاءؑ اور نیک بندوں کی صفات میں سے ہے۔ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کو اعلان نبوت سے پہلے ہی صادق و امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔اہل مکہ کافر تھے مگر یہ جانتے تھے کہ صادق و امین ہونا بہت اچھی صفات ہیں اسی لیے نبی اکرمﷺ کی فضیلت کے طور پر یہ ان کو ان صفات سے یاد کرتے تھے ،آپﷺ نے اعلان نبوت ان صفات کے ملنے کافی بعد میں کیا۔
سچ کے فوائد اور جھوٹ کے نقصانات
علما و محققین نے سچ کے بہت سے فوائد کو ذکر کیا ہے کچھ اس کے ذاتی فوائد ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ذاتی معاملات اور کاروباری معاملات میں سچ کا ہونا ضروری ہے۔سب سے پہلے تو جو انسان سچ بولتا ہے اسے خود کو سکون و اطمنان کی نعمت ملتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالی سچوں سے محبت کرتا ہے اور جھوٹوں کو نا پسند کرتا ہے۔دنیا و آخرت کی کامیابی بھی سچ بولنے میں ہی ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"النجاة في الصدق"،
سچ میں کامیابی ہے۔
حضرت عیسی ؑ سے مروی ہے :
"من كثُر كذبه قل بهاؤه".
جو جھوٹ زیادہ بولتا ہے اس کی عزت کم ہو جاتی ہے۔