اسلام ایک منظم اور مربوط اخلاقی نظام دیتا ہے اسلامی اخلاق کا ہر جزء ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔اسلام کی تمام اخلاقی اقدار پر عمل ہی ایک متوازن مسلمان کو جنم دیتا ہے جو معاشرے میں بہتر کردار کا حامل ہوتا ہے۔اسلامی اخلاق کا پہلا مقصد رب کی طرف سے دی ہوئی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے دوسرا انسان کے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ تعلق کو بہتر بنانا ہے اور تیسر انسان کو خود اس کے ذریعے فائدہ پہنچانا ہے۔
اسلام ایک مربوط اخلاقی نظام رکھتا ہے جس کی فکری اور نفسیاتی بنیادیں ہیں یہی وہ الہی نظام ہے جسے اللہ نے انسان کو بطور وارث عطا کیا ہے۔اس بنیاد پر یہ واضح ہو گیا کہ اسلامی اخلاقیات کے منظم سلسلے پر عمل کرنے کے نتیجے میں ایک بہترین مسلمان وجود میں آتاہے۔
ان اخلاقی اقدار میں صبر اہم ترین اخلاقی قدر ہے اس پر بہت سی احادیث ہیں نبی اکرمﷺ سے منقول ہے آپﷺ نے فرمایا:صبر بہترین سواری ہےاللہ تعالی نے انسان کو سب سے بڑی بھلائی دی تو وہ صبر ہے۔صبر ایمان کی بنیاد ہے امام صادقؑ فرماتے ہیں:
"الصبر من الإيمان بمنزلة الرأس من الجسد، فإذا ذهب الرأس ذهب الجسد، كذلك إذا ذهب الصبر ذهب الإيمان"
صبر کو ایمان میں وہی مقام حاصل ہے جو سر کو جسم میں ہے،جب سر ختم ہوتا ہے توجسم بھی ختم ہو جاتا ہےاسی طرح جب صبر جاتا ہے تو ایمان بھی چلا جاتا ہے۔
صبر اخلاق کی بنیاد ہے اور اس کی جڑہے۔قرآن مجید نے اس پر بہت زیادہ تاکید کی ہے اس کو ایسے دوسری اخلاقیات کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ الگ نہیں کیا جا سکتا۔قرآن مجید میں صبر کو بلاکے ساتھ ذکر کیا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وأولئك هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157))(سورة القرة ـ 155 ـ157)
۱۵۵۔اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔ ۱۵۶۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ۱۵۷۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
ایک دوسری جگہ پر اللہ تعالی صبر کا ذکر نماز،انفاق فی سبیل اللہ سے بھی پہلے کرتے ہوئے فرماتا ہے:
((وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ))(سورة الرعد ـ22)
اور جو لوگ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔
اللہ تعالی نے صبر کو جہاد کے ساتھ جنت میں داخل کرانے والا قرار دیا ہے ارشاد باری ہے: ((أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ))(سورة آل عمران ـ142)
کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہو کہ جنت میں یونہی چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟
جو صبر کرتے ہیں انہیں عظیم کامیاب قرار دیا گیا ہے: ((إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ))(سورة المؤمنين ـ111)
آج میں نے ان کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی لوگ کامیاب ہیں۔
((أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا))(سورة الفرقان ـ75)
ایسے لوگوں کو ان کے صبر کے صلے میں اونچے محل ملیں گے اور وہاں ان کا استقبال تحیت اور سلام سے ہو گا۔
((وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ))(سورة فصلت ـ35)
اور یہ (خصلت) صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔
اللہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ حساب کتاب کے وقت صابروں کی نیکیاں دگنی کر دی جائیں گی:
((أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ))(سورة القصص ـ54)
انہیں ان کے صبر کے صلے میں دو بار اجر دیا جائے گا اور یہ لوگ برائی کو نیکی کے ذریعے دور کر دیتے ہیں اور ہم نے جو روزی انہیں دی ہے اس سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔ ان کو یہ اجر ان کے صبر کی وجہ سے دیا جائے گا۔
صبر کے مقامات بہت زیادہ ہیں اور انسان روز مرہ زندگی میں ان میں سے کسی نا کسی میں مبتلا ہوتا رہتا ہے ہم ان میں سے چند کو ذکر کرتے ہیں:
اللہ کی نعمتوں اور انعامات پر صبر:
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرتا ہے یہ اللہ کی عنایات میں سے ہے۔انسان اپنے نفس کو نافرمانی سے بچاتا ہے اور ہر اس چیز سے پرہیز کرتا ہے جو جو اللہ کی رضا کے خلاف ہو۔جب انسان سے صبر چھن جاتا ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی مشکلات پر بھی مایوسی اور گھبراہٹ کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ ليطغى (6) أَنْ رَآهُ استغنى (7))(سورة العلق ـ 6ـ7) ہرگز نہیں! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔
نعمات پر صبر کرنا بھلائی کو فتح کرنے جیسا ہے ،اگر کوئی انسان صبر نہیں کرتا تو گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرنے لگتا ہے نبی اکرمﷺ سے روایت ہے:آپ فرماتے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہےمیں نے اس زمین کو اپنے بندوں کے لیے قرض قرار دیا ہے جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے ہر قرض کے بدلے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیتا ہوں۔جو مجھے قرض نہیں دیتا میں اس سے نعمت لے لیتا ہوں وہ صبر کرتا ہے تو میں اسے تین عادتیں عطا کرتا ہوں وہ ایسی عادتیں ہیں کہ اگر میں ان میں سے ایک اپنے ملائیکہ کو دیتا تو وہ مجھ پر راضی ہو جاتے ۔
مشکلات پر صبر:
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالی کسی مشکل و مصیبت میں مبتلا کر دے تو جزع و فزع نہ شروع کر دے۔اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مشکلات میں انسان کے لیے کئی طرح کے فائدے ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بہت بڑی بھلائی ہوتے ہیں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ))(سورة البقرة ـ216)
تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو، (جیسا کہ) ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو، (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالی مشکلات میں مبتلا کرتا ہے اور اس کے ذریعے صبر والوں کو امتحان لیتا ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وأولئك هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157))(سورة القرة ـ 155 ـ157)
۱۵۵۔اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔۱۵۶۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ۱۵۷۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: جس نے صبر کیا اور مصیبت کے وقت اللہ کی حمد اور ستائش کی،اور جو اللہ نے کیا اس پر راضی ہوا اس کا اجر اللہ کے پاس ہے۔جس نے اسے قبول نہ کیا، قضا توجاری ہو کر رہے گی وہ قابل مذمت ہے اور اللہ اس کا اجر حبط کر لے گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ انسان کا صبر غم اور افسردگی کے ساتھ ہو۔یہ غم کسی بھی صورت میں ایسی جزع پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے جو حکمت الہی پر اعتراض کا موجب بن رہی ہو۔نبی اکرمﷺ سے وارد ہوا ہے جس روز آپﷺ کے معصوم بیٹے ابراہیمؑ فوت ہوئے آپﷺ نے فرمایا: "تدمعُ العين ويَحْزُنُ القلب، ولا نقول إلاّ ما يرضي الرّب" آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور دل غمزدہ ہے مگر ہم صرف وہی کہیں گے جس سے اللہ تعالی راضی ہو۔
جزع کرنا اللہ کے فیصلوں کو نہ تو موخر کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کو جلدی لا سکتا ہے۔امام علیؑ فرماتے ہیں:
"إنّك إن صبرت جرت عليك المقادير وأنت مأجور، وإن جزعت جرت عليك المقادير وأنت مأزور"
اگر مصیبت پر تم نے صبر کیا تو اللہ کی تقدیر تو ہو کر رہے گی مگر آپ کو اس صبر کے نتیجے میں اجر ملے گا۔اگر مصیبت کے وقت میں تم جزع کرو گے تو اللہ کی تقدیر تو ہو کر رہے گی مگر تمہیں اس پر حساب دینا ہو گا۔
امام علیؑ فرماتے ہیں:
"الصبر صبران: صبر عند المصيبة حسن جميل، و أحسن من ذلك الصبر عند ما حرم الله عز و جل عليك"
صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کےو قت صبر بہت اچھا ہے،سب سے اچھا صبر اس پر ہے جس چیز سے اللہ تعالی تمہیں محروم کر دے۔
صبر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چیزوں کو درست نہ کیا جائے اور تسلیم کر لیا جائے۔اسلام میں پسندیدہ صبر وہ ہے جو عمل پر مبنی ہو جس میں نقصان ،مصیبتوں اور مشکلات کو دور کیا جائے جن کو دور کرنے پر قدرت ہے یا جن کے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے جیسے مرض کا علاج کر کے،فقیر ہے تو کام کر کے اور رزق حلال کما کر اسے دور کیا جا سکتا ہے۔
فرمانبرداری اور نافرمانی پر صبر:
اس سے مراد جیسے عبادت کرتے ہوئے ہونے والی مشقت پر صبر کرنا ہے بالخصوص ایسی صورت میں جب عبادت اللہ کے تقرب کا ذریعہ ہے۔جب انسان عبادت کرتا ہے تو انسان کو بدنی تکلیف ہوتی ہے اور اس کو مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔اس تمام پر صبر الہی صبرہے۔انسان عملی زندگی میں مادی زندگی کی آسائشات اور شہوات پر صبر کرتا ہے اور اس میں انسان اپنے نفس کی خواہشات کے برعکس فیصلے کرتاہے۔انسان اس خواہش کو دباتا ہے جس میں واجبات کو ترک کرنا اور اللہ کی نافرمانی کو انجام دینا شامل ہوتا ہے یہ بھی صبر ہے اور ایسا صبر اللہ تعالی کے نزدیک جہاد ہے۔
حق کی دعوت میں صبر:
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس شخص کو اللہ کے راستے کی طرف بلانے والا ہوتا ہے وہ لوگوں کو دعوت دین دینے اور حق کو بیان کرنے میں صبر سے کام لیتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حق کی دعوت دیتے ہوئے حق بات کو سمجھانا اور لوگوں کو سمجھنا دونوں مشکل کام ہیں کیونکہ لوگوں کی فہم مختلف ہوتی ہے۔اسی طرح لوگ تشدد کا سہارا لیتے ہیں،داعی کی دعوت میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوتی ،اسی طرح دعوت کا راستہ طویل ہوتا ہے۔اس میں ہمارے لیے روشن مثال نبی اکرمﷺ ہیں انہیں مکہ کے کفار نے تسلیم نہ کیا آپ ﷺ پر ہر قسم کا تشدد کیا گیا آپ ﷺ کو اذیتیں دی گئیں آپ ﷺ کی ناکہ بندی کی گئی آپﷺ کو پتھر مارے گئے۔اسی طرح آپ ﷺ کو غیر شائستہ ناموں جادو گر،مجنون اور شاعر( نقل کفر کفر نباشد) سے پکارا گیا۔ان سب مظالم کے باوجود نبی اکرمﷺ ان سب کو ہدایت کے لیے بلاتے رہے۔ آپﷺہمیشہ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
"اللهم اهد قومي فإنّهم لا يعلمون" اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔
یہ دعوت حق پر صبر ہے اسی راستے پر باقی اللہ کے نبی ؑ بھی چلتے رہے اللہ تعالی نے سب انبیاء ؑ جو دعوت حق دیتے رہے انہیں اسی صبر کی قوت سے مسلح کیا تھا ۔ان میں سے بہت سے شہید ہو گئے اور بہت سوں کو ان کی اقوام نے بہت زیادہ اذیتیں دیں ان کے ذریعے یہ اپنے رب کی رضا تک پہنچ گئے۔