- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


کیا حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت کربلا مقدسہ میں ہوئي؟
1 ربيع الاخير 1442هـ

مقام نخل مریم علیھا السلام(حضرت مریم علیہا السلام سے منسوب کھجور کے درخت کی جگہ)

یہ وہ مقام ہے پہلے جو امام حسین علیہ السلام کے روضہ مقدسہ کے درمیان موجود تھا (1) اور جسے 1947 میں ہٹاکر اس کی جگہ نشانی رکھ دی گئی تاہم جب قدیم روضہ میں کھدائي کی گئي تو یہ ایک چٹان کی شکل میں موجود پایا گیا جو مبارک گنبد کے شمال مغربی ستون کی دیوار میں واقع تھا اور امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کے قریب والے ستون کے نزدیک تھا  اس کے علاوہ اس جگہ کا محل وقوع بذات خود اس طرح تھا کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت مبارک کی جگہ کے قریب ہونے کو بیان کرے اور یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کی ایک روایت کے عین مطابق ہے (2)

جیسا کہ معلوم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اس کھجور کے نیچے ہوئی تھی جو معجزانہ طور پر دوبارہ سرسبز و شاداب ہوگئي تھی تاکہ وہ حضرت مریم بتول علیہا السلام کو پھل دے۔

اس لیے اس مقام کا نام اور  یہ جگہ اسی کھجور سے مربوط ہے جس کو حضرت مریم علیہا السلام نے ہلایا تھا ۔

اس مقام کا کربلا عراق میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ مقدسہ میں موجود ہونا کوئي عجیب بات نہيں ہے کیونکہ مفسرین اور مؤرخین نے حضرت مریم بتول علیہا السلام کے حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو جنم دینے کے مقام کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

چنانچہ ایک قول ہے کہ یہ فلسطین میں مقام مقدس میں بیت لحم میں واقع ہے اور یہ امام جعفر بن محمد صادق علیہما  السلام سے منقول حدیث میں بھی پایا جاتا ہے جو نبی اکرمﷺ سے طویل حدیث کے ضمن میں معراج کی صفت کے ذیل میں  بیان ہوئي ہے کہ   پھر جبرئيل علیہ السلام نے مجھ سے بیان کیا: سواری سے اتریں اور نماز پڑھیں، پس میں اترا اور نماز پڑھی ۔

جبرئيل علیہ السلام نے مجھ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نےکہاں نماز پڑھی ہے؟

میں نے فرمایا: نہيں، تو جبرئيل علیہ السلام نے کہا: کہ آپ نے بیت لحم میں نماز پڑھی اور بیت لحم بیت المقدس کی جانب  وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کی ولادت ہوئي (3)

اس سلسلے میں ایک قول یہ بھی  ہے کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام  کی ولادت کربلاء میں ہوئي جیساکہ امام علی بن حسین علیہما السلام  سے قرآن کے اس فرمان کی تفسیر میں منقول ہے(فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا)  (  اور مریم اس بچے سے حاملہ ہوگئیں اور وہ اسے لے کر دور مقام پر چلی گئیں( (4)

امام علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مریم علیہا السلام دمشق سے چل کر کربلا آئيں اور امام حسین علیہ السلام کی قبر کی جگہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو جنم دیا، پھر اسی رات واپس پلٹ گئيں۔

ایک دوسرے قول کے مطابق حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت فرات کے کنارے کوفہ میں ہوئي اور یہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول اس روایت میں ہے جو امام علیہ السلام نے ایک عیسائي کے ساتھ گفتگو میں فرمائي تھی جب امام علیہ السلام نے اس عیسائي سے سوال کیا اور فرمایا: کیا اس دریا کو جانتے ہو جس کے کنارے حضرت مریم علیہا  السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دیا تھا؟

اس نے عرض کیا : نہیں  ؛ امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ دریا فرات ہے اور اس پر کھجور اور انگور کا درخت تھا  (5)

جبکہ کچھ روایات بیان کرتی ہیں کہ حضرت مریم بتول علیہا السلام نےحضرت عیسی علیہ السلام کو بغداد میں مقام براثا میں اس چٹان پر جنم دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہی چٹان اب بھی بغداد میں براثا کی جامع مسجد میں موجود ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی کربلا میں ولادت کی روایت صحیح ہونے کی بناء پر وہ چٹان کربلا سے مسجد براثا کی طرف لے جائی گئي ہو کیونکہ کربلا میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کی روایت موجود ہے، اور یہ روایت تایئد کرتی ہے کہ یہ ولادت بغداد کے براثا نامی مقام پر ہوئی۔

جہاں اس پتھر کے وجود سے پہلے ایک گاؤں تھا نیز جو قرائن ہم نے پہلے بیان کئے اور روایت کے دوسرے قرائن بھی دلالت کرتے ہیں کہ یہ ولادت بغداد میں ہوئي ۔بغداد میں براثا کا ذکر تو امام باقر علیہ السلام سے منقول روایت  بھی میں ہے جس میں امام امیر المومنین علیہ السلام کے واقعات ذکر ہیں کہ جب آپ  جنگ نہروان و خوارج سے لوٹے(6)

چنانچہ یہ واقعات ولادت کی دوسری روایت کو ظاہر کرتے ہيں جیساکہ اس روایت میں ہے: جب آپ عراق کے دائيں(شمال) پہنچے تو راہب اپنے صومعہ (عبادت کی جگہ) میں موجود تھا، آپ نے فرمایا:

اے راہب! میں یہاں پڑاؤ ڈال دوں۔

راہب نے کہا: اس زمین پر اپنا لشکر نہ اتاریں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیوں؟ راہب کہنے لگا: کیونکہ اس میں سوائے نبی یا اس کے وصی کے کوئی لشکر نہیں اتار سکتا جو راہ خدا میں جنگ کرنے کیلئے آیا ہو، اسطرح ہم نے اپنی کتابوں میں پایا ہے ۔

امام امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: میں سید الانبیاء کا وصی ہو اور سید اوصیاء ہوں ۔ راہب نے کہا: پھر آپ قریش کے سید و سردار ہیں اور حضرت محمد مصطفی ﷺکے وصی ہيں ؟امام امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: میں وہی ہوں ۔

راہب آپ علیہ السلام کے پاس آیا اور عرض کی: مجھے شریعت اسلام کا پابند بنائيے میں نے آپ کی مدح اور تعریف انجیل میں پائي ہے اور آپ بیت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے ولادت براثا کی زمین پر اتریں گے۔

امام امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: ٹھہرئیے اور ہمیں مزيد کچھ نہ بتائیے پھر آپ ایک مقام پر اترے اور فرمایا: اس کو کھودو، پس اس کو اکھاڑا گیا پھر امام امیر المومنین علیہ السلام  اگے آئے اور زمین پر  اپنے پاؤں  کو  مارا  تو اس سے خوشگوار چشمہ پھوٹ پڑا ، امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ وہی چشمہ ہے جو حضرت مریم کیلئے جاری ہوا تھا۔

پھر فرمایا: اس کے ارد گرد ستر ہاتھ کھودا جائے چنانچہ جب ایسا کیا گیا تو ایک سفید چٹان ملی ،فرمایا: اس چٹان پر حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دیا تھا ۔

پس حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس چٹان کو صاف کیا اور اس پر نمازپڑھی اور چار دن وہاں نماز صبح پڑھتے رہے اور وہاں خیمہ گاڑ کر حرم بنایا اور دعا مانگتے رہے ،پھر فرمایا: یہ زمین براثا ہے مریم علیہا السلام کا گھر ہے یہ مقدس اور پاکیزہ جگہ ہے اس  مقام پر  انبیاء علیہم السلام نے نماز پڑھی ہے۔

اس ضمن میں  امام ابو جعفر محمد بن علی باقر علیہما السلام نے ارشاد فرمایا: ہم نے پایا ہے کہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نماز پڑھی ۔

پس اگر ہم قرآن کریم میں سورہ مریم علیہا السلام  کی آيات کو دیکھیں تو سیدہ بتول حضرت مریم علیہا السلام اور ان کا بطور معجزہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو جنم دینے کا واقعہ بیان کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔

اور مریم اس بچے کےلئے حاملہ ہوگئيں اوروہ اسے لیکر دور چلی گئيں، پھر زچگی کا درد انہيں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، ایسے میں وہ کہنے لگيں: اے کاش! میں اس سے پہلے مر گئي ہوتی اور صفحہ ہستی سے کھوچکی ہوتی تب فرشتے نے مریم کے  پاس  سے آواز دی: غم نہ کیجئے ! آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے، اور کھجور کے تنے کو ہلائيں کہ آپ پر تازہ کھجوریں آئيں گی [سورہ مریم 22-25] ۔

ا س مرحلے پر ہم دیکھتے ہیں  کہ سیدہ حضرت مریم علیہا السلام معجزانہ طور پر حاملہ ہونے کے بعد اس جگہ سے کافی دور چلی گئي تھیں اور ہمیں علم ہے کہ فلسطین بیت لحم سے تقریبا دس کلومیٹر جنوب قدیم قدس سے دور ہے جہاں حضرت سیدہ بتول علیہا السلام رہتی تھیں  چنانچہ  یہ مسافت اس سے تھوڑی ہی  دور ہے جو سیدہ بتول کا محل اقامت تھا ۔

یہاں (مكانا قصيا) میں دو احتمال ہيں:

پہلا: یا بیت لحم، قدس سے دس کلومیٹر دور ،وہی  فاصلے پر واقع جگہ ہے جو اس وقت عرف کے لحاظ سے دور ہوتی  تھی کیونکہ  اس وقت نقل و حمل کے جدید وسائل موجود نہيں تھے ۔

 جبکہ دوسرا احتمال یہ ہے کہ بیت لحم دور شمار نہ ہو کیونکہ دوسری جگہوں کی نسبت وہ قدس سے قریب شمار ہوتا ہے جو حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت کے متعلق دوسرے احتمالات میں ہيں۔

ان سب کا نتیجہ بہر حال  یہ ہوگا کہ اس احتمال کی بناء پر باقی احتمالات کی تقویت کی بحث کی ضرورت ہوگی جن میں سے اکثر میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت کو عراق میں بیان کیا گيا ہے ۔

اس بحث کیلئے ہمیں اہل بیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی اکثر احادیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جن میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت کی جگہ کی متعین  ہوئي ہو اور جو آیت میں منقول مطلب کے مخالف بھی نہ ہو؛ کیونکہ اگر ہم دوسرے احتمال کی جستجو کریں تو ہم دیکھیں گے کہ عراق یا فلسطین کے علاقہ ناصرہ –جیسا کہ بعض نے ذکر کیا -میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی مبارک ولادت ہوئي تو  یہ وہی دور جگہ ہو گی یعنی حضرت مریم علیہا السلام کے گھر والوں سے دور جگہ شمار ہوگی ۔

خواہ یہ  بغداد ہو یا کربلا یا اس کے شمال کا علاقہ یا پھر  عراق میں بیت لحم یا   فلسطین کا ناصرہ نامی علاقہ ،یہ سب حضرت مریم علیہا السلام کے گھر والوں سے دور علاقے ہيں چاہے اس وقت سے حساب کریں یا زمانہ حاضر میں حساب کریں۔

اور کسی ایک احتمال کو دوسرے پر ترجیح دینے کیلئے بہت سے امور کی بحث اور تحقیق کرنا پڑے گی  لھذا ہم اس بحث میں الجنا نہیں چاہےئ۔

اگرچہ ہم دوسرے احتمال کی طرف جھکاؤ رکھتے ہيں اور حدبندی کرتے ہيں کہ دور جگہ کے معنی عراق ہے (7)

بہرحال، مذکورہ جگہ جو کربلاء میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی جائے ولادت کی نشانی کے طور پر موجود ہے وہ نرم و ملائم پتھروں سے مزین محراب ہے جیسے  دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ آئينہ کے ٹکڑے ہيں اور اس محراب کے درمیان میں ایک بیضوی شکل کا(گول) سیاہ پتھر ہے جس کا قطر 40 سینٹی میٹر ہے اور محراب کو دو کھجوروں کی شکل میں بنایا گيا ہے جو اسی پتھر سے تراشی گئی ہيں(8)

 جبکہ  ایک قول ہے کہ سنگ مرمر کے دو ستونوں کے درمیان ایک کھجور ہے اور اس پتھر کی جگہ درمیان میں ہے اور یہ  پتھر تقریبا جدید شکل میں بنایا گیا ہے تاکہ اس اصلی چٹان کی حکایت اور نقل ہو جس کو ولادت کی روایت میں ہم نے ذکر کیا ہے یا اس مبارک ولادت کی شبیہ ہے اور مجسم گھڑي ہوئي تصویر ہے کیونکہ اس چٹان کی عمر دو صدیوں سے زیادہ نہيں ہے اور یہ جگہ اس اعتبار سے مبارک  ہے  کہ یہ  حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کے مبارک ولادت کے مقام کی یاد دلاتی تھی جو پہلے ذکر ہوچکی ہے اور اس کے انہدام سے پہلے زائرین اس کی  زيارت کیا کرتے تھے۔

اس مرحلے پر یہ بیان کرنا ضروری ہے  کہ وہ جگہ امام حسین علیہ السلام کی ضریح مبارک کے سرہانے کی طرف سے ایک  میٹر کے فاصلے پر تھی اور نرم و ملائم چٹان کی شکل میں دیوار کے ساتھ ملی ہوئي تھی اور اسے جذع نخلہ(کھجور کے تنے) کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا اور وہ حرم کے  مقدس آثار میں سے ہے اور اس مقام کی صفت کتاب (سفرنامہ عضد الملک)میں آئی ہے جس نے 1284ھجری /1867 عیسوی میں کربلا مقدسہ کی زيارت کی تھی(9) اور اس کتاب کا عربی ترجمہ ہوچکا ہے جس میں مذکور ہے کہ : حضرت مریم علیہا السلام کی کھجور ضریح کی چھت اور امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک  کی طرف سر مبارک کے بالمقابل ایک ہاتھ لمبے دو بلند و بالا ستون کو گھیرے ہوئے ہے اور کھجور کو ان دو ستونوں کے درمیان قرار دیا گیا ہے (اسی طرح اصل کتاب میں ہے اور اس سے تھوڑا پہلے وہ فرماتے ہيں : جس سے یوں لگتا ہے کہ یہ ایک کھجور ہے)۔

جبکہ دو کھجوروں کے درمیان ایک سیاہ پتھر نصب کیا گيا ہے اور اس جگہ کی  عظمت بیان کی گئی ہے  جیسے ہم انہی کے الفاظ میں نقل کرتے ہيں: امام حسین علیہ السلام کے سرہانے دو مرمر کے چھوٹے ستون جو دیوار سے ملے ہوئے تھے اس مقام کو مقام جذع نخلہ (کھجور کے تنے کی جگہ) کا نام دیا جاتا ہے جو حضرت مریم بتول علیہا السلام کے ساتھ خاص تھا جس میں حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کی ولادت ہوئی تھی اور اس جگہ کے اوپر ایک سیاہ پتھر رکھا گیا جو سرخی مائل تھا میں نے اس چٹان کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا:

یہ چٹان زائرین کے ساتھ خراسان سے کربلا لائي گئي اور پندرہ سال پہلے اس جگہ نصب کی گئي ہے یعنی بادشاہ کی زيارت کربلا کی تاریخ سے پندرہ سال پہلے نصب ہوئي اور یہ تاریخ حاشیہ میں لکھی گئي ہے)(10)

اور اس مقام کی تاریخ کے بارےمیں منقول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: مرمر کی چٹان کی تاریخ جو حضرت مریم علیہا السلام کی کھجور کے نیچے لکھی گئی ہے یہ ہے: ھزی الیک بجذع النخلۃ (1255 ھ)(11)

مصادر

1۔ڈاکٹر ہبد الجواد کلیدار نے اپنی کتاب (تاریخ کربلاء وحائر الحسین علیہ السلام) کے صفحہ 181 کے حاشیہ میں لکھا ہے جس کی اصل عبارت یہ ہے: طاہر قیسی نے روضہ مقدسہ کے امور اور آثار و بنیادوں میں زائد دخالت کی بناء پر اس  معروف جگہ (نخلہ مریم علیہا السلام) جیسی تاریخی جگہ کو اٹھانے پر اصرار کیا الخ۔ اور یہ قیسی 1947 ء میں کربلاء مقدسہ کے محافظین اور حکومتی کاروندوں میں سے تھا۔

2۔تاریخ مقدر الحسین و العباس علیھما السلام، ڈاکٹر سلمان آل طعمہ ، صفحہ 84۔

3۔بحارا لانوار ،شیخ محمد باقر مجلسی ، ج14 صفحہ 208۔

4۔تہذیب الاحکام ،شیخ محمد بن حسن طوسی ، ج ، صفحہ۔

5- الكافي/ الشيخ الكليني، ج1: ص480

6- مستدرك الوسائل/ العلامة النوري، ج3: ص323.

7- محقق سید سامی بدر  کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت عراق میں ہی ہوئی تھی، لیکن اختلاف اس میں ہے کہ عراق کے کس شہر  یا علاقے میں آپ کی ولادت ہوئی۔بغداد میں یا کربلا میں،یا مشرقی شہر براثا میں۔ جبکہ سید بدری اس احتمال کو بھی بیان کرتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بیت الحم سے مراد وہ شہر ہوجو اسی نام سے عراق کے شہر نجف کے قریب  میں واقع ہے اور اس شہر میں آپ کی ولادت ہوئی ہو۔اور یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بیت الحم جو عراق میں موجود ہے یہ فلسطین  میں موجود بیت الحم سے پہلے وجود رکھتا ہے ،،اور یہ نام بھی بیت الحم عراقی سے ماخوز ہے۔اس کے علاوہ فلسطین مین موجود اکثر مقامات کا ہم نام عراق میں بھی ہیں۔مثلا عراق کے کچھ شہروں کا نام اس طرح سے ہے ، تل ایب ، قادس، اسی نام سے فلسطین میں قادسیہ اور القدس ہیں۔ ان دونوں ناموں کا مطلب ایک ہے۔ اس کا نام بیت الحم ابو الابنیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں رکھا گیا۔  اور یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ بیت الحم کروبالا کے علاقہ میں واقع ہےجس میں کربلا، نجف اور ان کے درمیان میں موجود  مقامات شامل ہیں،اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کربلا میں ہی ہوئی تھی۔کیونکہ کروبالا کربلا ہی کا دوسرا نام ہے۔

8- تأريخ مرقد الحسين والعباس/ د. سلمان آل طعمه: ص83ـ84.

9- وصف للدكتور الباحث سلمان آل طعمه.

10- كتاب (سفر نامة عتبات ناصر الدين شاه قاجار) الذي زار كربلاء المقدسة حدود سنة 1287 هـ / 1870م.

11- كتاب (تأريخ وجغرافيا كربلاي معلى).


آپ کو میں بھی دلچسپی ہو سکتی ہے