اسلامی معاشرے میں تمام افراد مرد ہوں یاعورتیں،بچے ہوں یا بڑے سب ایسا طرز زندگی اختیار کرتے ہیں جس سے حیا ظاہر ہوتا ہے جیسے آنکھوں کی حفاظت کرنا ،زبان کو غلط باتوں سے روکنا،مناسب الفاظ کا انتخاب کرنا ،رازوں کی حفاظت کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کو بھی چھپاتے ہیں جن کے معاشرے میں پتہ چل جانے سے حیا کو ٹھیس پہنچے گی جو کہ احکام شریعت میں سے ہے۔ اسلامی معاشرے میں تحقیق کرنے والے دیکھتے ہیں کہ عام معاشرہ کس طرح اسلامی احکام کے مطابق تشکیل پا کر پسندیدہ معاشرہ بن سکتا ہے مثلا عورتوں اور مردوں کے لباس،ایک جنس کی دوسری جنس کی مشابہت اختیار کرنا ،ایسا لباس پہننا جو چھپانے والی چیزوں کو ظاہر کرے،اسی طرح کوئی ایسا عمل جس کے نتیجے میں عوامی سطح پر کوئی خرابی پیدا ہوہو رہی ہو تو اس سے منع کرتا ہے اور نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔
حیاء اہل ایمان کی نشانی ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذاتی زندگی سے حیا کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور اس کے راستے کو واضح کیا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچیوں سے زیادہ حیا کرتے تھے ،ا ٓپﷺ نظروں کو جھکاتے تھے،بعض مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا،یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری طرف متوجہ ہو جایا کرتے تھے گویا آپ نے وہ باتیں سنی ہی نہیں تاکہ اس کے ذریعے حیاء کی حفاظت کی جا سکے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:حیاء سارے کا سارا بھلائی ہے۔ یہ فرمان مبارک اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حیاء کی ہر شکل اور ہر تفصیل اہل ایمان کے لیے رہنما ہے چاہے وہ لوگوں سے معاملات کرنے میں ہو،ان کے لباس کے بارے میں ہو،طرز زندگی میں ہو یاان کے الفاظ کے چناو میں ہو۔
یہ بات حیاکی اہمیت کے لیے کافی ہے کہ اسے صالحین سے تشبیہ دی گئی ہے جو اللہ کے خاص بندے پہلے گزر چکے ہیں جو اللہ سے محبت کرتے تھے اور اللہ ان سے محبت کرتا تھا۔نبی اکرمﷺ کی حدیث شریف ہے:اگر حیاء مرد ہوتا تو مردِ صالح ہوتا۔
قرآن تو پہلے ہی اس کی عملی مثال قائم کر چکا ہے کہ جب وہ کسی مومنہ خاتون کا ذکر کرتا ہے تو اس کی نسبت حیا کی طرف دیتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ((فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ ...))(القصص ـ25)
پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔۔۔
اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی خاندان نبوت میں پروان چڑھنےو الی خاتون کی نسبت حیاء کی طرف دی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حیا ایک مستقل صفت ہے اور اس کا دوسری صفات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے جیسے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حیاکا تعلق فقط خواتین سے ہے اور مرد حضرات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اسی لیے یہ لوگ طاقتور شخصیت کی مالک خاتون کے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ اس کے پاس حیانہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حیا تمام اخلاقی صفات اور اچھی نفسیاتی خصوصیات جن کا تعلق انسانیت سے ہے ان سب کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہاں تک کہ سیاست میں بھی حیاء موجود ہے یعنی یہ ہر چیز میں ہےجس کا مقابل فحش ہے اس لیے ہر جگہ اس کی حیثیت کے مطابق حیاموجود ہوتاہے۔
بعض اخلاقی خوبیاں بعض کے ساتھ ہی آتی ہیں یہ عام اخلاقی اصول ہے جیسے ایک خوبصورت شکل وہ ہے جو اپنے تمام پہلووں میں پوری تفصیل کے ساتھ خوبصورت ہو۔اگر اس کا بعض حصہ بھی خوبصورت نہیں ہے تو یہ خوبصورت شکل نہیں کہلائے گی۔امام جعفرصادقؑ نے اس فرمان کے ذریعے اس کی تاکید کی ہے:تمام اخلاقی صفات کا سرتاج حیاہے۔یہ حیاء سچ بولنے،فقیر کو عطا کرنے،امانت کی واپسی، صلہ رحمی ،پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی اور مہمان کی عزت کرنے میں بھی داخل ہے۔
مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ گناہوں اور نافرمانی سے پرہیز کرے کیونکہ اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ اللہ نے انسان کو گناہ کر لینے کے بعد توبہ کا حکم دیا ہے۔اسی طرح اللہ نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی گناہ کر لے تو اس کے گناہوں کو چھپایا جائے اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے سامنے اظہار کرنے سے اس کا دل سخت اور فطرت تبدیل نہ ہو جائے ۔نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان اس کی وضاحت کرتا ہے:جو لوگوں سے حیاء نہیں کرتا وہ اللہ سبحانہ کے سامنے بھی حیاء نہیں کرتا ۔
یہ چھپانا اور پردہ پوشی کرنا اسے سرکشی اور تکبر سے روکے گا،اس کو حق کے راستے کی طرف پلٹائے گا،نفس امارہ کی پیروی سے پلٹائے گا یہ تعلیم و تربیت کا اصول ہے کہ اگر تم روتے نہیں تو رونے کی شکل بناو یہ دلوں میں ایمان کو بڑھا دیتا ہے۔نبی اکرمﷺ سے ایک حدیث مروی ہے:اللہ سے حیا کرو اسی طرح اپنے نیک پڑوسیوں کا حیاکرو یہ تمہارے یقین میں زیادتی کرے گا۔
دوسری طرف ہم دیکھیں تو ایمان اور حیا دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں،جو حیا نہیں کرتا اس کے مومن ہونے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ایسا شخص جو حیا کو ترک کرتا ہے وہ حرام اور شبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اہل ایمان کا راستہ چھوڑ دیتا ہے ۔اس شخص کے مومن ہونے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا مگر یہ کہ وہ صاحب حیا ہو۔اللہ پاکباز حیا والے کو پسند کرتا ہے اور ایسے شخص کو ناپسند کرتا ہے جو نفرت اور غصہ کرتا ہے، اسے ناپسند کرتا ہے۔اس حوالے سے روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو الگ سے مستقل طور پر مذکور ہونی چاہیے اور درجہ مستفیضہ تک پہنچی ہوئی ہیں ۔ہم چند اقوال پر اکتفا کرتے ہیں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:حیا کے دس حصے ہیں ان میں سے نو خواتین اور ایک مردوں کے لیے ہے۔امام علیؑ کا فرمان ہے:کسی آدمی کا زیادہ حیا کرنا اس کے ایمان پر دلیل ہے۔امام صادق ؑ نے فرمایا:اس کے لیے کوئی ایمان نہیں جس کے لیے حیا نہیں۔امام باقرؑ نے فرمایا:ایمان اور حیا ساتھ ساتھ آئیں گے جب ایک جائے گا تو اس کےساتھ اس کا ساتھی بھی جائے گا۔
اس سب کی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ حیا ہر شخص سے مطلوب ہے اور اس میں کسی کو کوئی استثنا نہیں ہے یہ فرق ضرور ہے کہ عورتوں کے معاملے میں اس کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ جب مورد عیب وغیرہ کا ہو ،جس کی لوگوں کے درمیان ایک حیثیت اس کے برقرار رکھنے کے لیے ہو ،اس چیز کے ساتھ جو موت کی یاد بھی دلائے تو یہ حیا کے موارد ہیں۔انسان کو چاہیے کہ وہ خود سے حیا کرے ، نبی ؑ اور رب سے بطریق اولی اسے حیا کرنی چاہیے۔
حیا کی اقسام
انسان کو ایسے امور سے بچنا چاہیے جو ناپسندیدہ ہیں اس سے خود کو اپنی شان کے مطابق بچائے تاکہ لوگ اس پر کوئی الزام نہ لگا سکیں۔کبھی انسان گناہوں سے اس لیے بچتا ہے کہ وہ اپنے رب و خالق سے خوف کھا رہا ہوتا ہے، کچھ چیزوں کو اس لیے چھوڑ رہا ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے حیا کر رہا ہوتا ہے یہ حیا کا اعلی درجہ ہے اور یہیں سے ممکن ہے کہ ہم حیا کو تین اقسام میں تقسیم کر دیں:
۱۔لوگوں سے حیا
ایک فقیر جو ایک دن کی روزی روٹی نہیں رکھتا مگر جب لوگوں کےسامنے آتا ہے تو ایسے اعلی طریقے سے آتا ہے کہ لوگوں کو اس کی کمزوری اور اس کے فقر کا علم نہیں ہوتا۔
۲۔اللہ سے حیا
اس کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب انسان تنہا ہوتا ہے،جب اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا جو اس کو روکے اور اس کی توبیخ کرے اور انسان خالق کائنات سے ڈرتے ہوئے ناپسندیدہ کاموں کو چھوڑ دیتا ہے جن سے وہ آگاہ ہو چکا ہوتاہے۔انسان جانتا ہے اس کے ذہن میں وسوسہ آ رہا ہے اور وہ خدا تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔بعض اوقات انسان گناہوں کو ترک کرتا ہے اور یہ سب لوگوں کے سامنے کر رہا ہوتا ہے مگر یہ گناہ کا ترک کرنا ان کے خوف کی وجہ سے نہیں ہوتا کہ تنقید کریں گےبلکہ یہ صرف اور صرف خالق کی اطاعت میں ہوتا ہےیہ حیا کی قسم پہلے والے سے اعلی ہے کیونکہ یہ اچھی اور بہتر بات ہے کہ انسان لوگوں سے حیا کرے مگر یہ بات بہت اچھی ہے کہ انسان اپنے خالق سے حیا کرے۔
۳۔خود سے حیا
اس کا پتہ اس طرح چلتا ہے کہ انسان اپنی غلطی سے اپنے عقل اور ضمیر کے ذریعے جہاد کرتا ہے ایسا عمل انجام نہیں دیتا جو ذہن کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا اور ضمیر اس پر مطمئن نہیں ہوتا ۔وہ ان اقدار پر قائم رہتا ہے اگرچہ حیا پر عمل کرنے کے لیے کوئی اجتماعی دعوت دینےو الا نہیں ہوتا۔ وہ اس لیے حیا پر عمل نہیں کرتا کہ لوگ اس کی تعریف کریں یا اس پر تنقید کریں بلکہ یہاں مسئلہ رضائے الہی کا ہوتاہے وہ اس کے خلاف نہیں جاتا اور آگے بڑھ جاتا ہے وہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے چاہے وہ اس کے قریب ہوں یا اس سے دور ہوں جو اس کے مستحق ہوں یا اس کے مستحق نہ ہوں ،یعنی وہ حیا پر حیا کی وجہ سے عمل کرتا ہے کسی دوسرے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا ۔
اس سب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حیا ہر وقت اور ہر کسی سے مطلوب ہے اس میں کسی کو کوئی استثنی نہیں ہے۔یہ بات ہے کہ عورتوں کو اس کی زیادہ تاکید کی گئی ہے اس کی وجہ بھی لوگوں کی درمیان ان کی قدر منزلت ہے۔اس وقت جب موت یاد آئے بالخصوص وہ نبی اکرم ﷺد سے حیا کرے اور بالخصوص لوگوں اور لوگوں سے پہلے رب سے حیا کرے۔