- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اظہارِ رائے کا حق
5 صفر 1442هـ

آزادی اظہار رائے کا بہترین مصداق انسان کی اپنی خوبی”احسنِ تقویم“ سے استفادہ کرنے میں مضمر ہے۔ ”لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫“ (سورہ التین/4)

ترجمہ: بتحقیق ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔

انسان کی تقویم احسن کی خوبی اور اس کی عقل اور زبان کی وجہ سے باقی مخلوقات پر ممتاز ہونا    اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص  توفیق کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہی اسے یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ جو کچھ اس کی عقل اور دماغ میں آتا ہے وہ اسکا اظہار اپنی زبان سے  کر سکتا ہے پس  اسی صلاحیت کو آج کل اظہار رائے یا رائے دہی کا حق کہاجاتا ہے۔ اسلام کی نظر میں انسان کا کسی جبر و اکراہ اور دھوکہ دہی کے بغیر اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکنا اس کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔اور  اگر کسی کا یہ بنیادی حق دبادیا  جائے  تو اس کا وجود ایک نامکمل اور غیر مفید وجود بن جانے کے علاوہ اور بھی بہت سے برے نتائج برآمد  ہو سکتے ہیں۔انسان کا یہ بنیادی حق اس سے چھیننا اس کے شرف اور مرتبے کی واضح مخالفت ہے جس کی بناء پر وہ باقی مخلوقات پر برتری رکھتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نمائندہ ہونے کے باوجود  اس کی ذمہ داریاں محدود کرنے اور اس زمین کی تعمیر و احیاء کے امور سے اسے دور کرنے کے مترادف ہے۔ زمین کی تعمیر و احیاء مکمل طور پر انسانی معاشرے کی حالت اور انسانی تفاہم اور تعاؤن کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ آزادی اظہار رائے ایک ایسا حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس وقت شیطان تک کو بھی دیا تھا جب کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی واضح نافرمانی کی تھی۔ ”قَالَ یٰۤـاِبۡلِیۡسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ - قَالَ لَمۡ اَکُنۡ لِّاَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ“ (سورہ الحجر/32-33)

ترجمہ: اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟  کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے۔

پس اس بناء پرانسانی فکر کو کمال تک پہنچانے کےلئے اور اسے فعال رکھنے کےلئے اسلام انسان کی آزادی اظہار رائے کی ضرورت پر بہت زور دیتا ہے۔

ازادی اظہار رائے کا حق جس قدر زیادہ ہو اس کو دبانے اور چھپانے سے بہتر ہے۔ آزادی اظہار رائے کا حق دبانا انسان کو پسماندگی کی طرف دھکیلتا ہے۔ حتی اپنے ربّ سے رابطہ کرنے سے بھی انسان پیچھے رہ جاتا ہے۔ چہ جائیکہ ان حقوق کو حاصل کرنے میں آزاد ہو، جن کے نہ ملنے سے انسان اللہ تعالیٰ عز وجل کا بندہ بننے کے بجائے دوسروں کا بندہ بن جاتا ہے۔

اسلام نے انسان کو یہ آزادی صرف اس لئے دی ہے کیونکہ اسلام انسان کی اس قدرت/صلاحیت کو جانتا ہے کہ آزادی اظہار رائے کا حق ملے تو یہ اپنی عقل کے ہاں مستند اور یقینی دلائل کے ذریعے اپنے مخالف کو مطمئن کر سکتا ہے۔ انسان اگر کسی روک ٹوک کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرے تو اپنے مخالف کے ذہن میں پڑے ہوئے جہالت کے پردے چاک کرتے ہوئے اس پر تسلط حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ اسلام سمجھتا ہے کہ دنیا میں اسلام پھیلنے کی وجہ کسی کی آزادی اظہار رائے کا حق دبانا نہیں، بلکہ طبیعی طور پر انسان کو آزادی اظہار رائے کا حق دینے کی وجہ سے اسلام پھیلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں اسلام نے ان لوگوں کی باتیں بھی بڑے کھلے دل سے اور شرح صدر سے برداشت کیں جو اس پر قدیم داستانیں اور جادو وغیرہ کی تہمتیں لگاتے تھے۔ نہ صرف ان کی باتوں کو برداشت کیا بلکہ لوگوں کے ساتھ اور ان کے آراء ککے ساتھ اس طرح برتاؤ کیا کہ یہ بھی قابل بحث و مناقشہ آراء ہیں۔ پس ان تمام باتوں کی بناء پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اظہار رائے کی حوصلہ ازائی کی ہے اور اے دبانے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ یہ ”رائے“ جس کسی کی بھی ہو اور جیسی بھی ہو، دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا وہ رائے درست اور صحیح ہوگی، اس صورت میں  اسلام اسے قبول کرنا لازم سمجھتا ہے۔ (البتہ یہ رائے جب تک شارع مقدس اسلام کے کسی حکم کے مقابلے میں نہ ہو جو اسے رد کر رہا ہو) یا یہ رائے غلط ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں بھی یہ کوئی منطق نہیں کہ اسے قانع کئے بغیر اس رائے کو دبائیں یا سر اٹھانے نہ دیں۔ تاکہ یہ کوئی ایسی غلطی نہ بن جائے جس سے نفرت اور شر انگیزی جڑ پکڑیں۔

چنانچہ اسلام نے کسی بات پر تنقید کرنے اور رائے کا اظہار کرنے میں دوسروں  کے خیالات کی گنجائش رکھی ہے۔یہ گنجائش صرف مسلمانوں کی حد تک نہیں بلکہ اپنے مخالفین کےلئے بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: ”قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ“ (سورہ آلعمران/64)

ترجمہ: کہدیجئے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجئے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔

”وَ لَا تُجَادِلُوۡۤا اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ٭ۖ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَ اِلٰـہُنَا وَ اِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ“ (سورہ عنکبوت/46)

ترجمہ: اور تم اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر بہتر طریقے سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کہدو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب) پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔

فطری بات ہے کہ یہ انداز احسن/بہترین مباحثہ، اسلام کی طرف سے دوسروں کےلئے آزادی اظہار رائے اور مختلف امور کے بارے میں اپنے نکتہ نظر کو بیان کرنے کی کھلی آزادی اور اجازت دیتا ہے۔اسی طرح اسلام مکالمے کی ایک بہترین ثقافت بھی قائم کرتا ہے جس میں اچھے اور پر سکون ماحول میں ٹھوس دلیلوں کے ذریعے انسان کو اپنی رائے کے اظہار کا حق دیا جاتا ہے۔ اور ایک بہترین علمی فضا قائم کرنا ہے جس میں منطقی دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔

آزادی فکر کے حوالے سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے جو عظیم بنیاد قائم کی جس پر انسانیت کو فخر ہے، ہم اسے فراموش نہیں کر سکتے۔ آج کے بین الاقوامی نطام اور قوانین میں آزادی اظہار رائے سے بہت پہلے آپؑ نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ آپؑ کے دور حکومت میں جب آپؑ تمام مسلمانوں کے رئیس اعلی تھے، خوارج کے مسئلے پر اظہار نظر کرتے ہوئے فرمایا جب خوارج نے آپؑ پر انتہائی گھٹیا اور نازیبا تہمتیں لگائیں جن میں آپؑ کے اسلام سے خارج ہونے کی تہمت بھی شامل تھی۔ لوگوں کو فریب دینے والا اور وہم میں ڈالنے والا ایک نعرہ بلند کیا کہ (لاحکم الّا۔۔۔) امیر المؤمنین علیہ السلام کی طرف سے ان کے اس نعرے کا جواب ایک انتہائی متوازن اور معقول انداز میں تھا کہ ”کلمة حق یراد بھا الباطل“  ترجمہ: ”بات تو ٹھیک ہے لیکن اس سے مراد جو لیا جارہا ہے وہ باطل ہے۔“

بالکل یہی صورتحال اس وقت بھی بنی جب بعض لوگوں نے ملت اسلامیہ کے صفوں میں اختلاف ڈالنے اور جنگ جمل کی تیاری کرنے کےلئے، ایک نامعقول عذر پیش کرتے ہوئے مکہ جانے کی اجازت چاہی، اس موقع پر آپؑ نے فرمایا: ”ان دونوں نے عمرے پر جانے کی اجازت چاہی، میں نے دے دی۔ کیونہ میں نے ان کے ایمان پر اعتماد کیا ور مجھے اعتماد تھا کہ وہ کوئی بغاوت نہیں کریں گے۔ اور کوئی گند نہیں پھیلائیں گے اور کسی قسم کی غلط بیانی نہیں کریں گے۔ اور میں جانتا ہوں اس سب سے ان کا مقصد فساد کے سوا کچھ نہیں۔ گویا میں ان کے بارے میں جانتا تھا کہ وہ دونوں مکہ صرف اس لئے گئے ہیں تاکہ میرےخلاف جنگ مسلط کرنے کی کوشش کر سکیں۔“ اس موقع پر آپؑ سے کسی نے کہا؛  یا امیر المؤمنینؑ اگر آپؑ کو یہ سب معلوم تھا تو آپؑ نے انہیں مکہ جانے ہی کیوں دیا؟ آپؑ انہیں زندان میں ڈال دیتے اور زنجیروں میں جکڑ کے رکھتے تاکہ مؤمنین کو ان کے شر سے بچا سکیں۔ تب آپؑ نے فرمایا: ”کیا آپ مجھے ظلم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، نیکی سے پہلے برائی کروں، کیا میں کسی ظن و گمان اور تہمت کی بناء پر کسی کو سزا دوں؟ اور کسی کام کے واقع ہونے سے پہلے اس کی سزادوں؟ ہر گز نہیں، خدا کی قسم میں اللہ تعالیٰ کے اس عہد و پیمان سے بالکل نہیں ہٹا ہوں جو عدالت اور حکم صادر کرنے کے بارے میں مجھ سے لیا گیا۔ اور میں جدائی و افتراق ڈالنےمیں پہل نہیں کروں گا۔