قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے جس میں جدید اور معاصر زمانے کے مطابق تعلیمات موجود ہیں۔ زندگی بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہر وقت نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں قرآن کریم ان تمام کے ساتھ سازگار ہے۔ قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ ہر دور میں ہونے والی ترقی بلکہ تیز رفتار ترقی اور مختلف ہونے والی ایجادات ، دریافتوں اور علوم میں ہونے والی ترقی کی قرآنی تعلیمات سے سازگار ہے اور بہت سی جگہوں پر قرآنی تعلیمات کے تابع ہے۔ قرآن کی تعلیمات تمام انسانیت کے لیے ہیں قرآن کچھ امور سے منع کرتا ہے اور کچھ امور کا حکم دیتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ وسعت ہے جو تخلیق کائنات اور تاریخ ہر دو کو شامل ہے۔ یہ کتاب اس کائنات کے واحد خلق کرنے والے کی طرف سے ہے وہ ان تمام امور سے بھی آگاہ ہے جو گزر چکے ہیں اور جو آنے والے ہیں ان کا بھی علم رکھتا ہے اور غیب کا جاننے والا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کی اس فضیلت اور ہم آہنگی کا ذکر فرمایا ہے کہ قرآن میں شمول اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((..وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ))(سورة النحل ـ 89)
اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہوتا ہے:
((..مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إلى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ))(سورة الأنعام ـ 38)
ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب) اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے۔
اس کتاب میں ہر اس چیز کا بیان ہے جو ہوا ہے اور جو ہونے والا ہے یہ اس کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کی دلالتیں بہت واضح ہیں اور اس کے کچھ مطالب و معانی اتنے گہرے ہیں کہ لوگوں کی فہم انہیں سمجھنے سے قاصر رہتی ہے،ان کے اعلی معانی کو حواس درک نہیں کرپاتے۔ قرآن کریم کی تعلیمات ہر طرح کی انسانی ضروریات کو پورا کرتی ہیں یہ جس زمانے میں بھی ہوں اور جس مکان پر بھی پائی جائیں۔ قرآن لوگوں کے لیے اشیاء کو بیان کرتا ہے۔یہ مومن،ہٹ دھرم اور کافر ہر ایک کے لیے راستہ دکھاتاہے اور ان کے درمیان فیصلے کرتا ہے۔اس سے سبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کے علم و معرفت کا فیض جاری رہتا ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ اور کمی نہیں آتی ۔قرآن کے نور سے نیک اور نا فرمان ہر دو منور ہوتے ہیں،اس سے بغیر کسی فرق کے ہر کوئی استفادہ کرتا ہے کیونکہ یہ سب کے خالق کی طرف سے ہے۔
قرآنی طرز زندگی اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق چلتے رہنے میں ہی اصل زندگی ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ قرآن کی آیات جس زمانے میں نازل ہوئی ہیں اسے تو صدیاں گزر چکی ہیں اور وہ تو نبی اکرمﷺ کی زندگی کا زمانہ تھا۔قرآ ن مسائل کے کئی طرح کے حل پیش کرتا ہے قرآن کریم کی یہ عظمت ہے کہ ایک وقت میں یہ ایک فقہی مسئلہ کو حل کر رہا ہے اس میں حلال و حرام کا بڑا واضح بیان ہے اور اسی کے ساتھ کوئی قصہ بھی ہو گا جس میں پیغام اور عبرت ہو گی۔آپ اس میں یہ تعلیم بھی پاتے ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ قدیم زمانے میں کیا تھا؟ اور یہاں تک کہ کون سے واقعات جنم لیں گے؟ قرآن کریم میں ایک اور اہم چیز یہ پاتے ہیں کہ یہ کائناتی حرکت کا فلسفہ بیان کرتا ہے اور ذہن قرآن کے متوجہ کئے بغیر اس کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا تھا، اور یہاں تک کہ اس فلسفہ کے ثبوت کے نقشے بھی کھینچتا ہے جو چیزوں کے نتائج کو ان کی بنیاد پر ظاہر کرتا ہے۔یہ سنتوں کو بیان کرتا ہے اور ان کے حتمی ہونے کا بتاتا ہے،تاریخی ، سائنسی، ثقافتی ،سماجی، سیاسی ، اقتصادی،مذہبی اور قانون سازی کی تعلیم دیتا ہے،قرآن فرد اور معاشرے ہر دو کی رہنمائی کرتا ہے ۔
اس تمام کے ساتھ ساتھ قرآن ایک معجزانہ کتاب ہے یہ عمل اور سلوک کی کتاب ہے،یہ ہدایت اور رحمت کی کتاب ہے۔یہ صرب قصوں، کہانیوں کی کتاب نہیں ہے۔یہ مقابلہ اور مناظرہ کی کتاب نہیں ہے کہ عرب اپنی زبان پر بحث کرتے رہیں اور قرآن ان کو اپنی فصاحت کے ساتھ چیلنج کرتا رہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قرآن میں فصاحت اور تحدی موجود ہے ۔ قرآن دراصل زندگی کی کتاب ہے بلکہ یہ مرنے کے وقت اور بعد میں کیا ہو گا اس کا بھی بتاتی ہے، یوں یہ موت کی بھی کتاب ہے۔یہ وہ کتاب ہے جو فرد اور امت ہر دو کو بتاتی ہے کہ زندگی کیسے گزارنی ہے؟ قرآن کریم انفرادی اور اجتماعی زندگی کی جس طرح تعلیم دیتا ہے اس طرح کوئی اور نظام تعلیم نہیں دیتا۔انفرادی اور اجتماعی مسائل کو قرآن اعلی انداز میں حل کرتا ہے اور قرآن جس اندازمیں ان مسائل کو حل کرتا ہے کوئی اور نظام ایسے حل نہیں کرتا۔یہ قرآن کتاب واقع ہے یہ انسانی زندگی کے معاملات سے متعلق ہے۔قرآن اپنے سے پہلے والی کتب کی طرح نہیں کہ جو فقط روح کی بات کرتے ہوں یا فقط فلسفہ کی بات کرے کہ جیسے اس سے پہلے کی کتب تھیں اور وہ عملی زندگی سے متعلق نہیں تھیں۔قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کی تعلیمات انسانی زندگی سے متعلق ہیں۔یہ اسے فکری اور سماجی پہلوؤں میں نسلی تبدیلیوں کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔اگر قرآن میں عام زندگی سے تعلق نہ ہوتا اور یہ فقط فلسفیانہ رنگ ہی ہوتا جیسا کہ یونانی، یونانی، بدھ مت اور ہندو فلسفہ کی کتابوں میں موجود ہے تو اس کے ساتھ چلنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ کم ہی ہوتا کیونکہ ان میں واقعیت سے دوری ہے اور یہ فقط خیالات ہیں جیسے فزکس اور دیگر مابعداز طبیعات مضامین میں ہوتے ہیں۔
قرآن کریم پر کام کرنے والے جانتے ہیں کہ قرآن کریم زندگی کی کتاب ہے اور یہ انسان سے تعلق رکھتی ہے اس کے باوجود اس میں فکری طور پر مابعد از طبیعاتی اور غیر حسی امور موجود ہو سکتے ہیں۔ یہ قرآن کے نازل ہونے کے وقت کی با ت ہے جیسے دوسرے عالم کی بات کرنا،ستاروں،نظام فلکی، برزخ کی بات کرنا ۔اس طریقہ کار سے یہ ثابت ہوا کہ قرآن ان عوالم کو بھی بحث میں لاتا ہے۔ یہ مابعد از طبیعاتی نہیں تھا بلکہ اس کا واقع اور حقیقت حسیہ سے تعلق ہے۔ابتدائی زمانے کے لوگ ان علوم کو درک کرنے سے قاصر رہے کہ قرآن کن کن علوم کو لیے ہوئے ہے۔گویا ان میں اس معجزاتی کتاب قرآن کا ایک تجرباتی پہلو بھی ہے۔جیسا کہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ قرآن پاک زندگی کے ساتھ چلنے والی کتاب ہے۔یہ تہذیب کے ساتھ مہذب اور ترقی یافتہ ہے۔جو علوم موجود تھے انہیں آگے بڑھایا یہ خاص الہی طریقہ ہے جو فکری ترقی ،تحقیق کی طرف عام لوگوں کو راغب کرتا ہے یہ اسلوب اس پر ایمان لانے والوں کے لیے تھا۔