قرآن کریم -جو آسمانی مذاہب کے سلسلے کی آخری کتاب ہے- کا ایک ایسی خاص شکل میں تحریر اور نظم و نسق میں ہونا کہ جو کسی قسم کی جعل سازی اور تحریف کو قبول نہیں کرتی۔ یہ ایک ایسا واضح امر ہے جسے منطق حتمی قرار دیتی ہے اور عقل علمی شواہد اور دلائل کے ساتھ اسے طے کرتی ہے۔ ان دلائل میں سے کچھ دلائل عقلی ہیں اور کچھ روائی۔ خاص طور پر قرآن مجید ایک ایسے ضابطے کی ترجمانی کرتا ہے جو دوسری ایسی کتابوں میں موجود ہے کہ جن میں تحریف واقع ہو گئی اور ان میں مختلف قسم کے نظریات پیدا ہو گئے۔ اسی طرح اس کے جمع کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی گئی اور اسے آنے والی نسلوں کے لیے آسمانی کتابوں کے خاتمے کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔
ہمارا موضوع گفتگو جمعِ قرآن مجید اور اسے جلد کے دو پلّوں میں محفوظ کرنا ہے۔ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں آیات اور سورتوں کی ترتیب اور فہرست کے ساتھ کہ ان آیات اور سورتوں میں سے ہر ایک کا شان نزول ہے۔ ایک ایسا امر ہے جو مسلمانوں کے نزدیک مستقل، محکم اور مضمون و مفہوم کے لحاظ سے متواتر ہے۔۔۔ جبکہ ایک ایسا شاذ قول بھی ہے کہ جس کے مطابق قرآن مجید پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے کے بعد کے کچھ سالوں میں جمع ہوا۔۔۔ کیونکہ مسلمان علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں ہی جمع ہو گیا تھا۔ اس جمع کے دو طریقے تھے: پہلا حفظ کے ذریعے یعنی اہل بیتؑ اور مقرب صحابہ کرامؓ کے سینوں میں اس کا محفوظ ہونا۔ اور دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اسے مادی اور قابل محسوس کتاب میں جمع کیا گیا۔ (سطور اور متن کی شکل میں بلکہ ایک جلد کے دو پلّوں میں اس انداز میں اسے جمع کیا گیا جو اسے بکھرنے اور تحریف سے محفوظ رکھے۔)
ہر انصاف پسند محقق اور اپنے دین سے آشنائی رکھنے والے ہر مسلمان کے لیے یہ یقینی طور پر واضح ہے کہ قرآن کریم جو جلد کے دو پلّوں میں ہے پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں آپؐ کی اپنی نگرانی میں ایک کتاب کی شکل میں جمع ہو گیا تھا، جس شکل میں ہمارے ہاں آج رائج ہے، خصوصاًاس میں سورتوں کی ترتیب اور ان میں آیات کا موقع و مقام۔
اس حوالے سے کچھ ایسے مختلف قسم کے قرآنی دلائل اور اشارات موجود ہیں جو اس شخص کے لیے مفید ہیں جو یقین حاصل کرنا چاہتا ہے، خصوصاً پروردگار نے قرآن مجید کی لفظ ’’کتاب‘‘ کے ذریعے توصیف کی ہے، وہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ مکتوبی شکل میں ہے۔ یہ توصیف اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اس کو ایک محکم صورت میں جمع کیا گیا اور ایک ایسی کتاب کی طرح اس کی ابواب بندی کی گئی جس کا ایک خاص نظم و نسق اور اسلوب ہوتا ہے۔ یہ جمعِ قرآن پر سب سے بڑی دلیل اور برہان ہے۔
جیسا کہ متواتر روائی ادِلّہ اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ قرآن مجید رسول کریمﷺ کے زمانے ہی میں جمع ہو گیا تھا۔ یہ ادلہ مختلف مسالک و فِرَق کے تمام مسلمانوں کی علمی و تاریخی میراث میں موجود ہیں، سوائے بعض شاذ قسم کے شخصی اجتہادات کے کہ جو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید ایک دفعہ تو پہلے سیاسی خلیفہ ابوبکر کے عہد میں جمع ہوا، پھر دوسرے سیاسی خلیفہ عمر بن خطاب کے زمانے اور پھر اس کے بعد تیسرے سیاسی خلیفہ عثمان بن عفان کے زمانے میں۔ لہٰذا ہمیں ان شاذ اجتہادات سے کسی قسم کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہماری بحث فقط ان ادلہ تک محدود رہے گی جو عہد رسالت مآبﷺ میں جمع قرآن کو ثابت کرتی ہیں کیونکہ عقلی دلیل اس بات پر برہان قائم کرتی ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ قرآن مجید کو مختلف حفاظ کے سینوں اور حیوانات کے چمڑوں یا کھجور کی شاخوں پر لکھا ہوا یا پتلے پتھروں پر کندہ حالت میں چھوڑ جائیں اور اسے جمع نہ کریں، جبکہ یہ تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کی کتاب ہے۔ اسی امر نے ان پر یہ اقدام اٹھانا ضروری قرار دیا کہ وہ اسے کاتبین وحی کے ذریعے احاطہ تحریر میں لائیں۔ ان کاتبین وحی میں امام علی علیہ السلام اور کچھ دوسرے افراد شامل تھے۔
نص قرآنی بغیر کسی ابہام و شک و شبہہ کے واضح طور سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے ہی میں جمع ہو گیا تھا۔ اس بات کی تائید یہ آیت کریمہ کرتی ہے: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ۔ إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَ قُرْآنَهُ۔ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ۔ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ۔ (القیامۃ: 16-19) [(اے نبی) آپ وحی کو جلدی (حفظ) کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔ پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ (بھی) اسی طرح پڑھاکریں۔ پھر اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔]
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند کریم نے اس کی جمع اور بیان کی کفالت اپنے سر لی ہے۔ یہ بات سب سے بڑی دلیل اور حجت کے طور پر کافی ہے جسے تمام مسلمان تسلیم کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ہر شاذ اجتہاد خصوصاً عہد نبویؐ سے ہٹ کر کسی اور زمانے میں جمع قرآن کے اجتہاد کو باطل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کچھ اور آیات بھی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جمع قرآن کا عمل پیغمبر اکرمﷺ کے عہد مبارک میں مکمل ہو گیا تھا۔ ہم یہاں پر ساری نہیں بلکہ ایک آیت مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں: كِتابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلا يَكُنْ في صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَ ذِكْرى لِلْمُؤْمِنين۔ (الاعراف: 2) [یہ کتاب آپ پر (اس لیے) نازل کی گئی ہے کہ آپ اس سے لوگوں کو تنبیہ کریں اور اہل ایمان کے لیے نصیحت ہو پس آپ کو اس سے کسی قسم کی دل تنگی محسوس نہیں ہونی چاہیے۔]
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مشرکین کا پیغمبر اکرمﷺ کی نبوت میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنا ایک اور دلیل ہے، جو قرآن میں مذکور ہے، اس بات پر کہ قرآن مجید اپنے نزول کے زمانے میں تحریری شکل میں جمع ہو گیا تھا، جس وقت انہوں نے نبی اکرمﷺ کے دست مبارک میں اسے دیکھا۔ جیسا کہ قرآنی آیت ان شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے مشرکین کی زبانی ان کی بات نقل کرتی ہے: وَ قالُوا أَساطيرُ الْأَوَّلينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَ أَصيلاً۔ (الفرقان: 5) [اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔] اس آیت میں لفظ ’’اكْتَتَبَها‘‘ اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن مجید مکتوبی شکل میں تھا۔ اگر مکتوبی شکل میں ہو تو بدرجہ اولیٰ جمع بھی ہو گیا تھا۔
ایک دوسری جہت سے قرآن کریم کی آیات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قرآن مجید کا نزول ’’الکتاب‘‘ کے عنوان سے ایک ہی دفعہ ہوا تھا: وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔ (انعام: 155) [اور یہ ایک مبار ک کتا ب ہے جو ہم نے نازل کی پس ا س کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو شاید تم پر رحم کیا جائے۔] اسی بات کی طرف یہ آیت کریمہ بھی اشارہ کرتی ہے: الر كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلى صِراطِ الْعَزيزِ الْحَميدِ۔ (ابراہیم: 1) [الف لام را،یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں، غالب آنے والے قابل ستائش اللہ کے راستے کی طرف۔] جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں جلد کے دو پلّوں میں محفوظ تھا۔ اس بات پر دلالت کرنے کے لیے درج ذیل آیت ہی کافی ہے: رَسُولٌ مِنَ اللَّهِ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً۔ فيها كُتُبٌ قَيِّمَة۔ (البینۃ: 2-3) [اللہ کی طرف ایک رسول جو انہیں پاک صحیفہ پڑھ کر سنائے۔ ان صحیفوں میں مستحکم تحریریں درج ہیں۔] کیونکہ رسول اکرمﷺ مطہر صحیفوں کی تلاوت فرماتے تھے کہ جن میں مستحکم تحریریں تھیں۔ یہ جمع قرآن پر ایک اور قرآنی دلالت ہے جو وفات پیغمبرﷺ کے بعد جمع قرآن کے دعوے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔
مسلمانوں کے ہاں موجود روایات کا تواتر اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے اس اہم فریضے کے لیے کچھ اصحاب کو منتخب کر رکھا تھا، جنہوں نے حضور اکرمﷺ پر نازل ہونے والی وحی کو محفوظ کر رکھا تھا۔ اس انتخاب کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسے جانوروں کی کھال سے بنے ہوئے ٹکڑوں، کھجور کے پتوں اور پتلے اور چوڑے پتھروں پر لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے سینوں میں پوری رعایت و درایت اور کاملیت سے محفوظ رکھیں۔ یہی وجہ تھی کہ یہ حافظان و کاتبانِ وحی کتابِ خدا کا بہت اچھی طرح علم رکھتے تھے اور اس کے مضامین کو سمجھنے پر قادر تھے، کیونکہ یہ سب کچھ رسول اعظمﷺ کی نگرانی اور سرپرستی میں ہو رہا تھا خصوصاً انہوں نے خود اس اہم کام کے لیے اپنے اصحاب میں سے سب سے بہتر شخص کو چنا تھا اور اسے اس آسمانی وحی کا نگہدار بنایا تھا۔ یہ شخصیت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تھی، جو امام الحفاظ اور امام کاتبین وحی تھے۔ انہوں نے رسول کریمﷺ کی املاء کو اپنے ہاتھوں سے اس کتاب کو تحریر کیا تھا، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انؐ کے وزیر تھے، اور اس امر نے رسول کریمﷺ سے حاصل کردہ تعلیم کے ذریعے انہیں نبوت کے اسرار کا حامل اور قرآن مجید کی تنزیل و تاویل کا عالم بنا دیا تھا: لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَ تَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ۔ (الحاقّۃ: 12) [تاکہ ہم اسے تمہارے لیے یادگار بنا دیں اور سمجھدار کان ہی اسے محفوظ کر لیتا ہے۔] اس آیت کی دلالت اس بات پر ہے کہ سمجھدار کانوں سے مراد امیر المومنین علیہ السلام کے کان ہیں جو ہر اس چیز کو سمجھ لیتے تھے جو رسول اکرمﷺ قرآن کی نازل ہونے والی آیات یا آیات کے علاوہ دوسری باتیں ان کے ساتھ سرگوشیاں کیا کرتے تھے۔
جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ جلیل القدر صحابہ کرام قرآن مجید کو حفظ اور اس کی کتابت کرتے تھے جیسا کہ معاذ بن جبل، سالم مولیٰ ابو حذیفہ، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود۔
اور آخر میں حدیث ثقلین اس بات کے اثبات پر ایک اور دلیل ہے کہ قرآن کریم رسول اللہﷺ کے زمانے میں جمع ہو گیا تھا۔ خصوصاً اس حدیث کے الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو وہ پوری وضاحت اور دقت کے ساتھ اس پر دلالت کرتے ہیں، کیونکہ رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: اللہ کی کتاب اور میری عترت اہل بیتؑ۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے۔‘‘ کیونکہ پیغمبر اکرمﷺ کے، لفظ ’’کتاب اللہ‘‘ کے ذریعے اس چیز کی طرف اشارہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں ہی کتابی شکل اور جلد کے دو پلوں میں جمع ہو چکا تھا۔ پیغمبر اکرمﷺ نے نہ تو کھال کے ٹکڑوں کا ذکر کیا اور نہ ہی چوڑے پتلے پتھروں کا۔ جس سے اس بات کا گمان ہی نہیں رہتا کہ قرآن مجید جمع نہیں ہوا تھا اور مختلف ٹکڑوں میں بکھرا ہوا تھا۔ اسی بات کو صراحت کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام نے بیان فرمایا: ’’سوائے کذاب شخص کے کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے قرآن مجید کو مکمل طور پر اسی طرح جمع کر لیا ہے جیسا کہ نازل ہوا تھا۔ قرآن جیسے نازل ہوا اسی انداز میں اس کو سوائے علی ابن ابی طالب اور ان کے بعد آنے والے ائمہ علیہم السلام کے کسی نے جمع نہیں کیا۔‘‘