- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


عالم اسلام اور انسانی ترقی
2 ذو القعدة 1441هـ

یہ بات بہت اہم کہ ہم عالم اسلام میں ہونے والی انسانی ترقی پر غور و فکر کریں۔انسانی ترقی میں عالم اسلام میں شرح پیدائش واموات پر تحقیق کی جاتی ہے،اس میں اہم یہ ہے کہ جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی شرح اموات کیا ہے؟بچوں اور ان کی تعلیم پر کتنا خرچ کیا جاتا ہے؟اس حوالے سے بین الاقوامی ادارے سالانہ رپورٹیں مترتب کرتے ہیں۔ان رپورٹوں کو دیکھ کر عالم اسلام کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کی جا سکتی ہے۔ہم تفصیل سے مندرجہ بالا  نکا ت پر غور کریں گے ۔

اسلامی ممالک میں بچوں کی فی ہزار شرح ا موات تیس ہے یعنی عالم اسلام میں پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے تیس ولادت کے وقت ہی فوت ہو جاتے ہیں۔اسلامی ملک نیجر میں ہزار میں سے اکیاون بچے فوت ہو جاتے ہیں  جو اسلامی ممالک میں فی ہزار سب سے زیادہ شرح اموات ہے۔اس کے بعد اسلامی ملک چاڈ ہے جہاں فی ہزار شرح اموات اڑتالیس ہے۔

شرح اموت کی بات کی جائے تو عالم اسلام کی ہزار میں اوسط شرح اموات دس ہے۔ اسلامی ملک موزمبیق کی شرح اموات تئیس فی ہزار ہے،اس کے بعد اسلامی ملک نیجر آتا ہے جہاں تئیس فی ہزار ہی شرح اموات ہے مگر اعشاریہ بارہ موزمبیق سے کم ہے۔یہ دونوں ممالک افریقہ میں واقع ہیں جہاں غربت کی شرح زیادہ ہے۔

جہاں تک بچوں کی شرح اموات کا تعلق ہے اس کو ذرا تفصیل میں دیکھیں تو عالم اسلام میں67  بچے فی ہزار وفات پا جاتے ہیں۔افغانستان میں یہ شرح ایک سو انچاس پر ہزار ہے، اس کے بعد سیرالیون کا نمبر آتا ہے جہاں یہ شرح ایک سو اڑتالیس پر ہزار ہےاور پھر موزمبیق ہے جہاں یہ شرح ایک سو انتالیس پر ہزار ہے۔سب سے کم شرح اموات کویت میں ہے جہاں گیارہ بچے پر ہزار ہے، اس کے بعد برونائی آتا ہے جہاںیہ ش رح چودہ پر ہزار ہے اور اس کے بعد متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے جہاں یہ تعداد سترہ پر ہزار ہے۔

عالم اسلام میں اوسط عمر کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بھی مختلف ممالک میں مختلف ہے۔ولادت سے وفات تک عالم اسلام کے افرادر اوسطا کتنی عمر پاتے ہیں؟ اس لحاظ سے عالم اسلام کے عام مسلمانوں کی اوسط عمر  اکسٹھ سال ہے۔بعض مماک کا بعض دوسرے ممالک کےساتھ فرق موجود ہے۔اردن میں اوسط عمر س۷۷ سال ہے،اس کے بعد کویت میں اوسط مر کویت میں سب سے زیادہ جو ۷۶ سال ہے، اس کے بعد لیبیا ہے جہاں یہ شرح ۷۵ سال ہے۔ جہاں تک سب سے کم اوسط  عمر کی بات ہے تو سب سے کم عمر نیجر میں ہے جہاں یہ ۴۱ سال ہے ،اس کے بعد سیرالیون  ہے جہاں یہ اوسط  عمر ۴۵ سال ہے اس کے بعد کم ترین عمر گھانا میں ہے جہاں ۴۵ سال ہے۔

تعلیم اور صحت پر خرچ کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ حکومتیں اپنے اپنے ممالک میں تعلیم اور صحت کو کتنی اہمیت دے رہی ہیں۔اسی خرچ کے ذریعے معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام میں تعلیم کی شرح تریسٹھ فیصدہے۔ترقی پذیر ممالک تعلیم اور صحت پر چار فیصد خرچ کرتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنی سالانہ آمدن کا چھ فیصد اس پر خرچ کرتے ہیں۔

اگر اسلامی ممالک میں شرح تعلیم کی بات کی جائے تو گیانا میں شرح تعلیم سب سے زیادہ ہے جو اٹھانوے فیصد ہے، اس کے بعد مالدیپ آتا ہے جس کی شرح تعلیم ترنانوے فیصد ہے اور اس کے بعد برونائی ہے جس میں یہ شرح اٹھاسی فیصد ہے۔سب کم شرح تعلیم نیجر کی ہے جو تیرہ فیصد ہے، اس سے کچھ زیادہ یعنی چوبیس فیصد صومالیہ کی ہے اور اس کے بعدمالی کا نمبر آتا ہے جہاں شرح تعلیم اکتیس فیصد ہے۔

جہاں تک صحت پر اخراجات کا تعلق ہے تو عالم اسلامی کی اوسط صورتحال یہ ہے کہ اسلامی حکومتیں ایک سو تئیس ڈالر سالانہ پر نفر خرچ کرتی ہیں۔سب سے کم قطر صحت پر خرچ کرتا ہے جو پر نفر ستائیس ڈالر ہے،اس کے بعد برونائی ہے جو بتیس ڈالر پر نفر سالانہ خرچ کرتا ہے،اس کے بعد عرب امارات ہے جو پنتیس ڈالر خرچ کرتا ہے۔صومالیہ ایک سو اکیانوے ڈالر پر نفر خرچ کرتا ہے جس کے بعد نیجر آتا ہے جو ایک سو پچاسی ڈالر خرچ کرتا ہے ان کے بعد افغانستان ہے جو ایک سو چوراسی ڈالر پر نفر سالانہ صحت پرخرچ کرتا ہے۔

اقوام متحدہ نے عالم اسلامی کو اس حوالے سےتین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے جس میں  اکتیس ممالک کو متوسط درجے پر رکھا ہے،بیس ممالک کو کم ترقی یافتہ ممالک میں  میں رکھا ہے اور پانچ ممالک ایسے ہیں جنہیں ترقی یافتہ ممالک میں رکھا ہے۔