- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کا تصور
24 شوال 1443هـ

اسلام کے مخالفینِ اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان مرد، عیاشی کے لئے ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں ۔اس طرح وہ بعض اوقات اسلام کو انسانی دین ہونے سے بھی خارج قرار دینے کی سعی کرتے ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ یہ دراصل اسلام سے پہلے کے جاہلی زمانے کے رسم و رواج میں سے ہے اور جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا پتہ چل جاتا ہے کہ کچھ اور گروہ بھی تھے جو اس بات کے قائل رہے۔

اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت پر بحث کرنےسے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اس پر بات کریں کہ اسلام دین واقع ہے اور اس میں انسان کو پیش آنے والی تمام مشکلات کا حل ہے اور ایسا نہیں ہے کہ انسان کو بند گلی میں چھوڑ کر کوئی رہنمائی نہ کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دین کی ہر بات جو اللہ نے نازل کی ہے ضروری نہیں کہ اس کی حکمت کو انسان کی عقل بھی درک کرسکے۔ شک پیدا کرنےوالوں کی عقلیں چھوٹی ہیں اور وہ اسلام کے احکام کے دواعی کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ عقل میں کوئی کمی ہے بلکہ اس لیے ہے کہ ان کی عقل کی تربیت اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ ان باتوں کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ بعض لوگ اپنے ذاتی تجربات کو بنیاد بنا کر اور خاص حالات و واقعات کے پیش نظر ایک عمومی رائے قائم کر لیتے ہیں۔

قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالی نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے:

((وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا))(سورة النساء ـ3)

اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیوں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو (کافی ہے)، یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دینےو الا جملہ مطلق نہیں ہے بلکہ اسے کئی طرح کی قیود لگائی گئی ہیں اور یہ اجازت صرف ان قیود پر عمل کی صورت میں ہی میسر ہے۔

ہم شک کرنےوالوں کے لیے اس صورت کی وضاحت کرتے ہیں جس میں اسلام نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔ آیت ایک خاص مورد کے بیان کے لیے آئی ہے اور اس میں خاص حالات میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کی بات کی گئی ہے۔ یہ ایک معاشرتی مشکل کے علاج کے لیے ہے جس کی طرف ہر معاشرہ محتاج ہوسکتا ہے۔ایک اور بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ اجازت ہے کوئی شرعی فریضہ نہیں ہے کہ اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں کو واجب قرار دے دیا ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے اور جس جگہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں عورت کو کسی بھی طرح سے کم نہیں سمجھا جاتا اسلام میں عورت کو خاص مقام حاصل ہے اور انسانیت کو بالعموم اہم مقام حاصل ہے یہاں تک کہ مردو عورت اللہ کے زمین پر خلیفہ قرار پاتے ہیں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (5) وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ ..........(6))(سورة القصص ـ 5 ـ6)

۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔۶۔ اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں۔۔۔

 ((وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ))(سورة الأنبياء ـ 105)

۱۰۵۔ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

جس آیت میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے اس کے آغاز میں یتیموں کی بات ہو رہی ہے اور پھر یہیں پر ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کی بات کی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کا تعلق ان بچوں کی ماوں سے ہے جو بیوہ ہو چکی ہیں اور ان کے علاوہ سے بھی ہے۔اس میں اس یتیم بچے کی مشکلات کا حقیقی حل موجود ہے جو اس وقت جنگوں اور دیگر وجوہات سے یتیم ہو جاتے تھے۔اس آیت مجیدہ میں ان یتیم بچوں کا سب سے پہلے خیال رکھا گیا ہے اس کے بعد اس میں یتیم کی ماں کا خیال رکھا گیا ہے نفسانی خواہش خاتون میں موجود ہے اور جسمانی خواہش بھی ایک حقیقت ہے بالخصوص بیوہ ہونے کی صورت میں یہ مسائل موجود ہوتے ہیں اور اس کے یہ مسائل کنواری سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ شارع مقدس نے دوسری شادی کی اجازت دے کر اس طرح کی عورتوں کے مسائل کو حل کیا ہے۔

اس پوری بحث میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی فقط اجازت ہے۔یہ اجازت بھی بہت ساری شرائط کے ساتھ ہے جو شارع مقدس نے لاگو کی ہیں۔ان شرائط میں سے بنیادی شرط عدالت کی ہے کہ سب بیویوں کے ساتھ انصاف پر مبنی سلوک کرنا ہو گا۔اگر کوئی شخص عدالت نہیں کرسکتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی شادی پر اکتفاء کرے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس معاملے میں انسان کو اختیار مطلق نہیں ہے بلکہ یہ بہت سی شرائط کے ساتھ ہے۔اس اجازت کی وجہ پر غور کیا جائے تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ہے اورہر طرح کی درپیش صورتحال میں مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے۔اسلام کا حل منفی نہیں بلکہ مثبت ہوتا ہے اس میں ایک حد معین کر دی گئی ہے جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا ۔اسلام کی تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق ہوتی ہیں جو بھی مسئلہ پیش آتا ہے ہر اس مسئلہ اور مشکل کا حل بتاتا ہے یہ مشکل چاہئے چھوٹی ہو یا بڑی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی غیر اہم کہ وہ مشکل کس زمانے یا جگہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اسلام نے رہبانیت سے روکا ہے جس کا تعلق صرف روح سے ہو اور انسان کے بدن کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو۔یہی وہ تعلیمات ہیں جو اسلام کو زندگی سے متعلق دین حقیقی بنا دیتی ہیں۔

کچھ لوگ اسلام کی تعلیمات کو سمجھے بغیر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا یہ مسئلہ انسانی طبعیت سے سازگار نہیں ہے۔اس میں مرد کےلیے ایک حکم دے دیا گیا ہے ۔ایسے لوگوں نے معاشرے کا مشاہدہ نہیں کیا اور بعض اوقات بیوہ اور عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی جاتی اور لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے زنا کرنے لگتے ہیں۔

یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ زمانہ قدیم میں عورت کی نسبت مرد مشکل حالات سے زیادہ دوچار ہوتا تھا جنگیں اور دیگر مشکل حالات صرف مرد کو ہی پیش آتے تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ معاشرے میں عورتوں کی کثرت ہو جاتی تھی اور مرد کم رہ جاتے تھے۔اب اگر ایک مرد کےلیے ایک سے زائد شادی ممنوع ہو تو معاشرہ ایک حقیقی مشکل سے دو چار ہو جائے گا۔ جب معاشرے کے سامنے یہ مشکل ہو تو اس کے چند ممکنہ حل یہ ہو سکتے ہیں :

پہلا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ انسان ایک ہی عورت سے شادی کرے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بہت ساری عورتیں بغیر شادی کے رہ جائیں گے،ان کی زندگی شوہر کے بغیر گزرے گی،ان کے لیے دنیا کی زندگی بے معنی ہو جائے گی اور وہ زندگی کی خوشیوں سے محروم رہیں گی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مدنظر رہے کہ دنیا میں جنگوں کی وجہ سے مردوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی رہی ہے۔جنگوں کے علاوہ بھی رزق کی تلاش کے مسائل میں بھی زیادہ مرد انتقال کر جاتے ہیں۔

دوسرا حل یہ ہے کہ انسان قانونی شادی تو ایک خاتون سے ہی کرے اور معاشرے میں موجود دیگر خواتین جن کی شادی کے لیے مرد دستیاب نہیں ہیں ان سے غیر شرعی تعلقات رکھے۔ یہ ایسا حل ہے جو کسی بھی سلیم فطرت شخص کو قبول نہیں اور دنیا کا کوئی اخلاقی نظام بھی اسے قبول نہیں کرتا۔جب کسی دوسری خاتون سے قانونی تعلقات رکھنا محبت اور تعلق کے خلاف سمجھا جا رہا تھا تو غیر قانونی تعلق تو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔اس کے علاوہ اس کے بہت سے معاشرتی مسائل بھی ہیں شادی میں عورت کو تحفظ ملتا ہے اسی طرح اسے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی دی جاتی ہے جبکہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔یہ ایسا حل ہے جس میں انسان اپنی ہمدرد بیوی کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور اسلام بھی اسے قبول نہیں کرتا جو کسی بھی پاکیزہ معاشرے کے اصولوں کے خلاف ہے۔یہ بات ملحوظ رہے کہ عزت اور شرف ہی انسان کی اصل میراث ہے  اسی عزت اور شرف کو عورت کو عطا کرنے کے لیے اسلام نے غیر شرعی تعلق سے منع کر کے شرعی تعلق قائم کرنے کا طریقہ بتایا۔

تیسرا حل یہ ہے کہ مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرے اور ان کے درمیان عدالت کو قائم کرے اس طرح ہم سب  کے حقوق کی حفاظت ہو گی اور معاشرے سے برے اخلاق اور فحاشی کا بھی خاتمہ ہوگا ۔اسلام نے شادی کے ذریعے عورت کی عزت وعظمت میں اضافہ کیا ہے۔

ہم بطور مسلمان یہ جانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی عالم غیب ہے وہ اپنے بندوں کی فطرت کو اور جس چیز کی انہیں ضرورت ہے سب کو جانتا ہے۔انسان سوچ و فکر،فطرت اور فلسفہ سے یہ جانتا ہے کہ اس کا مالک اور اسی عدم سے وجود بخشنے والا خدا ہے۔یہ خدا انسان کے لیے جو راستہ شریعت کی صورت میں دیتا ہے بہترین راستہ ہے بلکہ یہ اللہ کی رحمت ہے۔شریعت کی ہر بات میں حکمت ہے کیونکہ یہ شریعت ایک حکیم کی طرف سے آئی ہے۔اسی حکمت پر مبنی نظام پر ہی اللہ نے ہمیں خلق  کیا ہے۔

آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شریعت کے عدالت پر مبنی راستے پر چلیں جس کا حکم اس آیت شریفہ میں دیا گیا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(( ... فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ... ))(سورة النساء ـ ۳)

اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت۔

یوں اللہ نے عدالت سے دوسری شادی کی مقید کیا ہے اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((........  ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ))(سورة النساء ـ 3)

یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔

اس طرح دوسری شادی کو مسئولیت قرار دیتے ہوئے  اس پر مشکل اور اہم شرائط رکھی ہیں اس طرح شارع مقدس نے ایک سے زیادہ شادی کرنے پر عدالت کی شرط رکھی ہے جب کوئی عدالت پر قادر نہ ہو تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ایک سے زیادہ شادی کی اجازت ایک رخصت ہے اور ایک غیر معمولی صورتحال میں دی گئی ہے اور اصل میں یہی ہے کہ ایک مرد ایک ہی عورت سے شادی کرے۔اسلام کے مخالفینِ اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان مرد، عیاشی کے لئے ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں ۔اس طرح وہ بعض اوقات اسلام کو انسانی دین ہونے سے بھی خارج قرار دینے کی سعی کرتے ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ یہ دراصل اسلام سے پہلے کے جاہلی زمانے کے رسم و رواج میں سے ہے اور جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا پتہ چل جاتا ہے کہ کچھ اور گروہ بھی تھے جو اس بات کے قائل رہے۔

اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت پر بحث کرنےسے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اس پر بات کریں کہ اسلام دین واقع ہے اور اس میں انسان کو پیش آنے والی تمام مشکلات کا حل ہے اور ایسا نہیں ہے کہ انسان کو بند گلی میں چھوڑ کر کوئی رہنمائی نہ کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دین کی ہر بات جو اللہ نے نازل کی ہے ضروری نہیں کہ اس کی حکمت کو انسان کی عقل بھی درک کرسکے۔ شک پیدا کرنےوالوں کی عقلیں چھوٹی ہیں اور وہ اسلام کے احکام کے دواعی کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ عقل میں کوئی کمی ہے بلکہ اس لیے ہے کہ ان کی عقل کی تربیت اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ ان باتوں کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ بعض لوگ اپنے ذاتی تجربات کو بنیاد بنا کر اور خاص حالات و واقعات کے پیش نظر ایک عمومی رائے قائم کر لیتے ہیں۔

قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالی نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے:

((وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا))(سورة النساء ـ3)

اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیوں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو (کافی ہے)، یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دینےو الا جملہ مطلق نہیں ہے بلکہ اسے کئی طرح کی قیود لگائی گئی ہیں اور یہ اجازت صرف ان قیود پر عمل کی صورت میں ہی میسر ہے۔

ہم شک کرنےوالوں کے لیے اس صورت کی وضاحت کرتے ہیں جس میں اسلام نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔ آیت ایک خاص مورد کے بیان کے لیے آئی ہے اور اس میں خاص حالات میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کی بات کی گئی ہے۔ یہ ایک معاشرتی مشکل کے علاج کے لیے ہے جس کی طرف ہر معاشرہ محتاج ہوسکتا ہے۔ایک اور بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ اجازت ہے کوئی شرعی فریضہ نہیں ہے کہ اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں کو واجب قرار دے دیا ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے اور جس جگہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں عورت کو کسی بھی طرح سے کم نہیں سمجھا جاتا اسلام میں عورت کو خاص مقام حاصل ہے اور انسانیت کو بالعموم اہم مقام حاصل ہے یہاں تک کہ مردو عورت اللہ کے زمین پر خلیفہ قرار پاتے ہیں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (5) وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ ..........(6))(سورة القصص ـ 5 ـ6)

۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔۶۔ اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں۔۔۔

 ((وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ))(سورة الأنبياء ـ 105)

اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

جس آیت میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے اس کے آغاز میں یتیموں کی بات ہو رہی ہے اور پھر یہیں پر ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کی بات کی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کا تعلق ان بچوں کی ماوں سے ہے جو بیوہ ہو چکی ہیں اور ان کے علاوہ سے بھی ہے۔اس میں اس یتیم بچے کی مشکلات کا حقیقی حل موجود ہے جو اس وقت جنگوں اور دیگر وجوہات سے یتیم ہو جاتے تھے۔اس آیت مجیدہ میں ان یتیم بچوں کا سب سے پہلے خیال رکھا گیا ہے اس کے بعد اس میں یتیم کی ماں کا خیال رکھا گیا ہے نفسانی خواہش خاتون میں موجود ہے اور جسمانی خواہش بھی ایک حقیقت ہے بالخصوص بیوہ ہونے کی صورت میں یہ مسائل موجود ہوتے ہیں اور اس کے یہ مسائل کنواری سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ شارع مقدس نے دوسری شادی کی اجازت دے کر اس طرح کی عورتوں کے مسائل کو حل کیا ہے۔

اس پوری بحث میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی فقط اجازت ہے۔یہ اجازت بھی بہت ساری شرائط کے ساتھ ہے جو شارع مقدس نے لاگو کی ہیں۔ان شرائط میں سے بنیادی شرط عدالت کی ہے کہ سب بیویوں کے ساتھ انصاف پر مبنی سلوک کرنا ہو گا۔اگر کوئی شخص عدالت نہیں کرسکتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی شادی پر اکتفاء کرے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس معاملے میں انسان کو اختیار مطلق نہیں ہے بلکہ یہ بہت سی شرائط کے ساتھ ہے۔اس اجازت کی وجہ پر غور کیا جائے تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ہے اورہر طرح کی درپیش صورتحال میں مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے۔اسلام کا حل منفی نہیں بلکہ مثبت ہوتا ہے اس میں ایک حد معین کر دی گئی ہے جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا ۔اسلام کی تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق ہوتی ہیں جو بھی مسئلہ پیش آتا ہے ہر اس مسئلہ اور مشکل کا حل بتاتا ہے یہ مشکل چاہئے چھوٹی ہو یا بڑی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی غیر اہم کہ وہ مشکل کس زمانے یا جگہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اسلام نے رہبانیت سے روکا ہے جس کا تعلق صرف روح سے ہو اور انسان کے بدن کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو۔یہی وہ تعلیمات ہیں جو اسلام کو زندگی سے متعلق دین حقیقی بنا دیتی ہیں۔

کچھ لوگ اسلام کی تعلیمات کو سمجھے بغیر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا یہ مسئلہ انسانی طبعیت سے سازگار نہیں ہے۔اس میں مرد کےلیے ایک حکم دے دیا گیا ہے ۔ایسے لوگوں نے معاشرے کا مشاہدہ نہیں کیا اور بعض اوقات بیوہ اور عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی جاتی اور لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے زنا کرنے لگتے ہیں۔

یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ زمانہ قدیم میں عورت کی نسبت مرد مشکل حالات سے زیادہ دوچار ہوتا تھا جنگیں اور دیگر مشکل حالات صرف مرد کو ہی پیش آتے تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ معاشرے میں عورتوں کی کثرت ہو جاتی تھی اور مرد کم رہ جاتے تھے۔اب اگر ایک مرد کےلیے ایک سے زائد شادی ممنوع ہو تو معاشرہ ایک حقیقی مشکل سے دو چار ہو جائے گا۔ جب معاشرے کے سامنے یہ مشکل ہو تو اس کے چند ممکنہ حل یہ ہو سکتے ہیں :

پہلا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ انسان ایک ہی عورت سے شادی کرے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بہت ساری عورتیں بغیر شادی کے رہ جائیں گے،ان کی زندگی شوہر کے بغیر گزرے گی،ان کے لیے دنیا کی زندگی بے معنی ہو جائے گی اور وہ زندگی کی خوشیوں سے محروم رہیں گی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مدنظر رہے کہ دنیا میں جنگوں کی وجہ سے مردوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی رہی ہے۔جنگوں کے علاوہ بھی رزق کی تلاش کے مسائل میں بھی زیادہ مرد انتقال کر جاتے ہیں۔

دوسرا حل یہ ہے کہ انسان قانونی شادی تو ایک خاتون سے ہی کرے اور معاشرے میں موجود دیگر خواتین جن کی شادی کے لیے مرد دستیاب نہیں ہیں ان سے غیر شرعی تعلقات رکھے۔ یہ ایسا حل ہے جو کسی بھی سلیم فطرت شخص کو قبول نہیں اور دنیا کا کوئی اخلاقی نظام بھی اسے قبول نہیں کرتا۔جب کسی دوسری خاتون سے قانونی تعلقات رکھنا محبت اور تعلق کے خلاف سمجھا جا رہا تھا تو غیر قانونی تعلق تو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔اس کے علاوہ اس کے بہت سے معاشرتی مسائل بھی ہیں شادی میں عورت کو تحفظ ملتا ہے اسی طرح اسے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی دی جاتی ہے جبکہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔یہ ایسا حل ہے جس میں انسان اپنی ہمدرد بیوی کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور اسلام بھی اسے قبول نہیں کرتا جو کسی بھی پاکیزہ معاشرے کے اصولوں کے خلاف ہے۔یہ بات ملحوظ رہے کہ عزت اور شرف ہی انسان کی اصل میراث ہے  اسی عزت اور شرف کو عورت کو عطا کرنے کے لیے اسلام نے غیر شرعی تعلق سے منع کر کے شرعی تعلق قائم کرنے کا طریقہ بتایا۔

تیسرا حل یہ ہے کہ مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرے اور ان کے درمیان عدالت کو قائم کرے اس طرح ہم سب  کے حقوق کی حفاظت ہو گی اور معاشرے سے برے اخلاق اور فحاشی کا بھی خاتمہ ہوگا ۔اسلام نے شادی کے ذریعے عورت کی عزت وعظمت میں اضافہ کیا ہے۔

ہم بطور مسلمان یہ جانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی عالم غیب ہے وہ اپنے بندوں کی فطرت کو اور جس چیز کی انہیں ضرورت ہے سب کو جانتا ہے۔انسان سوچ و فکر،فطرت اور فلسفہ سے یہ جانتا ہے کہ اس کا مالک اور اسی عدم سے وجود بخشنے والا خدا ہے۔یہ خدا انسان کے لیے جو راستہ شریعت کی صورت میں دیتا ہے بہترین راستہ ہے بلکہ یہ اللہ کی رحمت ہے۔شریعت کی ہر بات میں حکمت ہے کیونکہ یہ شریعت ایک حکیم کی طرف سے آئی ہے۔اسی حکمت پر مبنی نظام پر ہی اللہ نے ہمیں خلق  کیا ہے۔

آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شریعت کے عدالت پر مبنی راستے پر چلیں جس کا حکم اس آیت شریفہ میں دیا گیا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(( ... فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ... ))(سورة النساء ـ ۳)

اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت۔۔۔

یوں اللہ نے عدالت سے دوسری شادی کی مقید کیا ہے اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((........  ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ))(سورة النساء ـ 3)

یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔

اس طرح دوسری شادی کو مسئولیت قرار دیتے ہوئے  اس پر مشکل اور اہم شرائط رکھی ہیں اس طرح شارع مقدس نے ایک سے زیادہ شادی کرنے پر عدالت کی شرط رکھی ہے جب کوئی عدالت پر قادر نہ ہو تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ایک سے زیادہ شادی کی اجازت ایک رخصت ہے اور ایک غیر معمولی صورتحال میں دی گئی ہے اور اصل میں یہی ہے کہ ایک مرد ایک ہی عورت سے شادی کرے۔