- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام میں پردے اور حجاب کا تصور
10 رجب 1443هـ

حجاب اسلام کی تعلیمات میں سے ہے۔حجاب میں عورت اپنا جسم مردوں سے چھپاتی ہے تاکہ اپنی عفت و طہارت کی حفاظت کرے۔عورت اپنے جسم کے تمام اعضاء کا پردہ کرے گی صرف چہرے اور ہتھیلی کو ظاہر کر سکتی ہے۔ زیورات،بھڑکیلے کپڑے ،پاوڈر ،کریمیں اور میک کا ہر طرح کا ایسا اظہار جو نامحرم مردوں کو متوجہ کرے اور اس کی عزت کو خطرے میں ڈالے اس کا اظہار منع ہے اور یہ پردے میں داخل ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُوْلِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)) (النور ـ 31)

اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں، آبا، شوہر کے آبا، اپنے بیٹوں، شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اپنی (ہم صنف) عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورت کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں، اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔

سورہ نور کی یہ آیت کریمہ مسلمان عورت کے لیے بڑے اہم پیغام کی حامل ہے اس میں پروردگار نے یہ بتا دیا ہے کہ ایک مسلمان عورت کو کیسا ہونا چاہیے ؟بالخصوص اس کے لباس،اس کے میک اپ اور اس کے طرز زندگی کی وضاحت کر دی ہے۔مسلمان عورت اپنی نگاہ کو جھکائے گی،اپنی عزت کی حفاظت کرے گی،وہ اپنی زینت کو سوائے اپنے چند قریبی رشتہ داروں اور بچوں کے سب سے چھپائے گی۔

پردہ کی شرعی شرائط:

۱۔پردہ میں عورت تمام بدن اور سر کو ڈھانپے گی فقط چہرہ اور ہتھیلی کو ظاہر کر سکتی ہے۔

۲۔عورت کا لباس کھلا ہونا چاہیے اتنا تنگ نہ ہو کہ جسم کے اعضاء کو ظاہر کر رہا ہو۔

۳۔لباس کو اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ جسم کو چھپا رہا ہو ،ایسا لباس نہ ہو کہ اس سے جسم نظر آ رہا ہو۔

۴۔لباس بھڑکیلا نہیں ہونا چاہیےکہ وہ ایسے رنگوں کا امتزاج ہو جو لوگوں کو متوجہ کرے  جیسے بعض لباس ایسے رنگوں اور جانوروں وغیرہ کی تصاویر پر مشتمل ہوتے ہیں جس سے لوگ جلد متوجہ ہو جاتے ہیں۔

۵۔لباس پر ایسی خوشبو نہ لگائی جائے جو نامحرموں کو متوجہ کر رہی ہو۔

۶۔عورت مردوں والا لباس نہ پہنے ۔

۷۔لباس ایسا نہ ہو کہ عورت اسے دکھا دکھا کر نامحرم مردوں میں شہرت حاصل کر رہی ہو ۔

یہ سب شرائط کس لیے ؟

خواتین قیمتی جوہر ہیں اور اللہ تعالی نے انہیں نفاست و حسن سے نوازا ہے۔اللہ تعالی نے عورت کو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ نزاکت بھی عطا کی۔ہر صاحب عقل یہ جانتا ہے کہ قیمتی چیز کی حفاظت کی جاتی ہے اور اسے بدقماش لوگوں کے ہاتھوں، نظروں اور حرص سے بچایا جاتا ہے اور چھپا کر رکھا جاتا ہے۔اس سے صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا قیمتی چیزوں تک پہنچنا مشکل ہو اور ان کو بدنظروں اور نقصان پہنچانے والے ہاتھوں سے بچایا جا سکے۔اسی طرح ایسا نہ ہو کہ ہر بد نظر آسانی سے عورت تک پہنچ کر اسے نقصان پہنچائے۔خواتین جب میک اپ کر کے خوشبو لگا کر نامحرم لوگوں کے سامنے آئیں گی تو لوگوں کی غلط نگاہیں ان کی طرف متوجہ ہوں گی اور ان کے دل ان کی طرف مچلیں گے ، ایسا وہی کرتے ہیں جن کے دلوں میں پہلے سے ٹیڑھا پن موجود ہوتا ہے وہ ایسا کرتے ہیں۔ایک صاحب حکمت کا قول ہے عورت کی مثال مٹھائی کی سی ہے اگر اسے کھول کر رکھ دیا جائے تو اس پر مکھیاں بیٹھ جائیں گی اور اگر اسے ڈھانپ لیا جائے تو وہ محفوظ رہے گی۔

پردہ عورت کی عزت و احترام میں اضافے کا باعث بنتا ہے کہ اس کے وقار اور خوبصورتی کو بھی زیادہ کر دیتا ہے۔کچھ کج فہم پردے کوعورت کی شخصی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے عورت کی اہانت سمجھتے ہیں حقیقت میں پردہ عورت کی عزت،وقار اور پاکیزگی کا محافظ ہے اور عور ت کی آزادی کو محدود نہیں کرتا یہ بس کچھ غلط فکر رکھنے والوں کا وہم ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ)) (الأحزاب ـ53)

جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے۔

ہیرے راہوں پر نہیں رکھے جاتے

کوئی بھی صاحب عقل ہیرے و جواہرات راہ پر سڑک کنارے  میز لگا کر اس پر نہیں رکھتا بلکہ ہیرے و جواہرات خزانوں میں  رکھے جاتے ہیں تاکہ بد قماش لوگوں کی نگاہوں سے محفوظ رہیں او ربدنیتوں کے ہاتھ بھی ان تک نہ پہنچیں۔

جب کبھی ایسے جواہرات کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے تو انہیں اتنہائی قیمتی اور مناسب ڈبوں میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی حفاظت اور لوگوں سے ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔اللہ نے عورت پر کرم فرمایا اور اسے بدفطرت لوگوں کی نظروں سے بچایا کہ وہ اسے نقصان نہ پہنچائیں اور عورت کو عزت و وقار عطا کیا۔اس طرح عورت کی شان اور مرتبے کو بڑھا دیا اس میں عورت کو مقید کرنے والی کوئی بات نہیں ہے پردے میں عورت کی عافیت اور حفاظت ہے۔

پردہ اور تہذیب جدید:

امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ایک طالبہ نے اپنی ایک باحجاب پروفیسر سے پوچھا کہ آپ پردہ کیوں کر تی ہیں؟

اس پر باپردہ مسلمان پروفیسر خاتون نے جواب دیا عریانیت و بے پردگی پتھر کے دور میں زندگی کرنے والے قدیم انسان سے تعلق رکھتی ہے ہم ترقی یافتہ اور تہذیب کے حامل دور میں رہ رہے ہیں اس لیے پتھر کے دور والی طرز زندگی میں نہیں جانا چاہیے۔

اس سے پتہ چلا کہ حیا عورت کے لیے ایک اعلی خوبی ہے بے حیائی ایک برائی ہے۔اسی لیے ہر سلیم الفطرت انسان بے حیائی سے روکتا ہے اور تمام آسمانی مذاہب نے بے حیائی سے روکا ہے اور اسلام نے بھی بے حیائی سے منع فرمایا ہے۔

آسمانی ادیان میں پردہ، راہبہ و حریدیم

یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہود و نصاری کی خواتین پردہ کیوں نہیں کرتیں؟کیونکہ یہودیت اور عیسائیت آسمانی مذاہب ہیں؟

ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب میں پردے اور وقار کا حکم دیا گیا ہے کسی بھی آسمانی مذہب میں بے پردگی کی اجازت نہیں ہے۔حضرت مریم ؑ باپردہ خاتون تھیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی اس کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں کر سکتا۔اسی طرح آسیہ بنت مزاحم ؑ اور دوسری مومنہ خواتین باپردہ خواتین تھیں۔المیہ یہ ہوا کہ جدید معاشرے ان آسمانی تعلیمات سے دور ہو گئے۔یہ بات پیش نظر رہے کہ ابھی تک ان آسمانی ادیان میں کچھ خواتین ایسی ہیں جو پردہ کرتی ہیں مسیحیوں میں راہبات ہیں ان کا لباس اسلامی حجاب کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح یہودیوں میں کچھ خواتین جنہیں حریدیم کہا جاتا ہے وہ بھی پردہ کرتی ہیں اور ان کا پردہ شرعی پردے کی طرح ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ادیان میں اصل میں پردہ ہے اور ان ادیان میں بے پردگی سے منع کیا گیا ہے۔

جنسی تشدد اور ریپ:

بہت سے معاشروں میں جنسی تشدد بہت زیادہ بڑھ چکا ہےہر کچھ عرصے بعد دنیا بھر میں اس کی خبریں سرخیوں میں ہوتی ہیں ہم نوجوان لڑکوں کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے لیکن ریپ کی ایک بڑی وجہ لڑکیوں کے وہ لباس ہیں جن کا جنسی ہیجان جنسی تشدد کی وجہ بنتا ہے اسی طرح حد سے بڑھا میک اپ اور لباس جو عوامی مقامات پر جنسی اشتعال کا کام کرتے ہیں اسکولوں اور یونیورسٹیز میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔بے پردگی اور بناو سنگھار ایسے آ گئے ہیں کہ نوجوانوں کی خواہشات کو بھڑکاتے ہیں۔مختصر اور جسم سے چپکا ہوا لباس جسم کے تمام اعضا کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔جب نوجوان اس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں تو ان کی جنسی خواہشات بھڑک اٹھتی ہیں جس سے معاشرے میں جنسی تشدد اور ریپ بڑھتا ہے۔اس لیے ایک مہذب لباس جس میں خاتون نے حجاب کر رکھا ہو معاشرے میں یہ ہیجان بھی پیدا نہیں کرتی اور خود حجاب کرنے والی خاتون کا بھی تحفظ کرتا ہے۔

خاندان بیٹی کے لیے پہلا سکول:

خاندان تربیت کا مرکز ہے کسی بھی انسان کی اخلاقی،دینی اور معاشرتی تربیت کا بنیادی مرکز اس کا خاندان ہے۔ بیٹیاں اپنی زندگی کے پہلا سبق اپنے خاندان سے حاصل کرتی ہیں وہ حلال،حرام،اخلاقیات اور جو کچھ ان پر فرض ہے وہ سب گھر سے سیکھتی ہیں۔اسی طرح یہیں سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں کن امور سے پرہیز کرنا ہے اور اس کے بعد وہ سکول جاتی ہیں تاکہ ان کی تربیت مکمل ہو سکے۔

کچھ خاندان بیٹی کی تربیت کرتے وقت اس تک اسلامی معلومات پہنچانے میں کوتاہی کرتے ہیں اور بالخصوص حجاب اور پردے کا نہیں بتاتے۔بیٹی یہ گمان کرتی ہے کہ مجھے جو گھر والوں نے بتایا ہے یہی درست ہے اور وہ اس کے مطابق جو کچھ کر رہی ہے وہ ٹھیک ہے۔اس لیے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو حجاب کی پرواہ نہیں کرتی،میک کرتی ہے،بالوں کو نہیں ڈھانپتی اور انتہائی تنگ لباس پہنتی ہے۔اس کا روزانہ ایسا کرنا اس کا عقیدہ بنا دیتا ہے کہ جو وہ کر رہی ہے وہی درست ہے اورایسا کرنا اسلامی تعلیمات اور اخلاق کے خلاف نہیں ہے۔

تمام گفتگو کا خلاصہ کیا جائے تو یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت اپنے جسم کو اجنبی مردوں سے چھپائے تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے اور وہ فضول کاموں میں نہ پڑے۔اس کے کپڑے کھلے ہونے چاہیں وہ تنگ کپڑے نہ پہنے تاکہ اس کے جسم کی معاشرے میں نمائش نہ ہو ،اسے ایسے کپڑے نہیں پہننے چاہیے کہ اہل حوس کی نگاہیں اس کی طرف متوجہ ہو جائیں،اسی طرح جو لباس بدنام ہو جاتے ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے،اسی طرح نامحرموں کے لیے میک اپ نہیں کرنا چاہیے  اور نہ ہی خوشبو لگانی چاہیے،اسے نامحرموں سے دل لبھانے کی طرز پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے،ایسی جگہوں پر جہاں مرد بھی ہوں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے صرف اس وقت جانا چاہیے جب اس کی ضرورت ہو،ہر وقت بازار میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ صرف ضرورت کے وقت بازار جانا چاہیے۔مسلمان عورت کو اپنی حفاظت کرتی چاہیے ،ہر وقت اپنے رب کی اطاعت کی سعی میں لگے رہنا چاہیے اور اپنے شوہر کی عزت کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ ان کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمیاں جنم نہ لیں۔جو اللہ کی اطاعت کرے اور باپردہ عزت و عظمت والی زندگی گزارے اس کے لیے خوشخبری ہے۔