انسانی معاشرے قدیم زمانے ہی سے ایک پست اور قبیح نظام سے آشنا رہے ہیں جس نے انسانی معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً سیاہ فام انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے رکھے۔ یہ غلامی کا قبیح نظام تھا۔ غلامی کا معنی یہ ہےکہ کسی دوسرے انسان کو اپنی ملکیت میں لے کر اس کی صلاحیات پر قبضہ کر لیا جائے، اس کی آزادی کو سلب کر کے اسے جیسے چاہے استعمال کیا جائے۔
ہم نہیں جانتے کہ یہ نظام کب، کہاں اور کیسے شروع ہوا البتہ تاریخی مصادر اور منابع قدیم زمانے سے انسانی تاریخٰ میں موجود غلامی کی گہری جڑوں کی نشاہدہی کرتے ہیں۔ ایک اندازہ یہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شاید اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب انسان شکار اور گلہ بانی کے پیشے سے زراعت کے پیشے کی طرف منتقل ہوا اور بعض افراد نے زرعی اغراض و مقاصد کے لیے غلاموں کا استعمال کرنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگی غلام اور تعمیرات کے لیے مزدور غلام بلکہ گھروں میں بھی خدمت کے لیے انہیں استعمال کیا جانے لگا۔ ان غلاموں کے خاص بازار ہوتے تھے جن میں ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی۔ انہیں غلام بازار کہا جاتا تھا۔
غلامی فراعنۂ مصر کے زمانے میں موجود رہی ہے کیونکہ بادشاہ، کاہن اور مصری فوج کے قائدین جنگی قیدیوں کو اپنا غلام بنا لیتے تھے اور انہیں زرعی کاموں، نہروں کی تیاری اور پُلوں، عبادت گاہوں اور اہرام حتی کہ اپنے محلوں کی تعمیر کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ محلوں میں استعمال کیے جانے والے غلام کام، خدمت اور لذت کے حصول تینوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ محلوں کے غلاموں کےساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ پس کسی آزاد شخص کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ کسی کنیز کو قتل کرے۔ جو کسی کے (گھریلو) غلام کو قتل کرتا تھا اس کے بدلے اسے قتل کر دیا جاتا تھا۔ یہ حکم دوسری امتوں میں رائج غلامی کے نظام کے خلاف تھا۔
لیکن آشوریوں اور بابلیوں کے ہاں غلامی وسیع تر سطح پر موجود تھی۔ بادشاہ بخت نصر کے زمانے کی کچھ دستاویزات دریافت ہوئی ہیں جو غلاموں سے متعلق ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے کے لوگ جنگی قیدیوں کو یا پڑوس کے علاقوں پر حملہ اور قتل و غارت کر کے وہاں کے افراد کو اپنا غلام بنا لیتے تھے۔
پرتگالی پندرہویں صدی عیسوی میں غلامی اور غلاموں کی تجارت کا کاروبار کرتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے افریقی ساحلوں پر غلام جمع کرنے کے مراکز بنا رکھے تھے کیونکہ انہیں پرتگال میں سالانہ ۷۵۰ غلام بھیجنا ہوتے تھے۔ اسی طرح سولہویں صدی عیسوی میں سپین میں غلامی کا نظام موجود تھا جہاں وہ غلاموں کو افریقہ سے اکٹھا کرتے اور پھر انہیں زبردستی جنوبی امریکہ کے گرم علاقوں میں موجود اپنی نو آبادیوں میں زراعت کا کام کرنے کے لیے بھیج دیتے تھے۔ 1619ءمیں اولین بردہ فروش امریکہ پہنچے تاکہ انگریز ان غلاموں کو زراعت سمیت دیگر مشقت والے کاموں میں استعمال کریں۔ 1814ء میں جب یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت پر پابندی عائد کی تو غلاموں کو کچھ نہ کچھ انسانی حقوق ملنا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد برطانیہ نے غلاموں کی تجارت کا قلع قمع کرنے کے لیے امریکہ سے دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے بعد حالات کچھ بہتر ہونا شروع ہو گئے حتی کہ ایک دفعہ برطانوی اور فرانسیسی بحری جہازوں نے غلاموں کی تجارت کرنے والے تاجروں کے جہازوں کا پیچھا بھی کیا۔ 1906ء میں لیگ آف نیشنز نے بین الاقوامی غلامی کانفرنس کا انعقاد کیا تاکہ اس کے ذریعے غلامی کی روک تھام کی جائے اور اس کی تجارت رک جائے۔ اس کانفرنس میں عالمی انسانی حقوق کا اعتراف اور اقرار کیا گیا۔
گذشتہ سطور سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ براعظم افریقہ پوری دنیا میں غلاموں کا اہم منبع رہا ہے۔ نو آبادیاتی حکام اور سوداگر افریقہ کے ساحلی اور وسطی علاقوں سے غلاموں کو اغوا ء کرتے پھر انہیں جمع کرتے اور یورپ ،امریکہ اور بالخصوص جنوبی امریکہ کے بازاروں میں بیچ دیتے جہاں نئے مفتوحہ علاقوں میں زرعی زمینوں پر مزدور عملے کی سخت ضرورت تھی۔
غلاموں کو کبھی بھی انسانی حقوق حاصل نہیں رہے۔ انہیں پالتو اور فرمانبردار جانوروں کی طرح رکھا جاتا تھا جو چارے کے بدلے میں محنت کرتے رہتے ہیں۔ان غلاموں سے صبح سے شام تک مختلف مشقت طلب کام کروائے جاتے تھے۔ وہ کھانے کے لیے فقط ہلکے پھلکے کھانے اور شرمگاہوں کو ڈھانپنے کے لیے مختصر سے کپڑوں کے علاوہ کسی چیز کا تقاضا نہیں کر سکتے تھے۔
یہودیت نے غلامی کو جائز قرار دیا ہے۔تورات نے خرید و فروخت اور جنگوں میں قید کے ذریعے غلام بنانے کی اجازت دی ہے۔پس ایک عبرانی کے لیے جائز تھا کہ وہ کسی عبرانی کو ایک محدود مدت کے لیے غلام بنا لے اور یہ محدود مدت صرف چھ سال ہے۔ اس کے علاوہ ایک مفلس شخص اپنے آپ کو امیر کے ہاتھ یا مقروض شخص اپنے آپ کو قرض خواہ کے ہاتھ ایک محدود مدت تک کے لیے بیچ سکتا ہے۔ سفر ِخروج میں آیا ہے: ’’جب تم ایک عبرانی کو غلام بنالو تو اس سے صرف چھ سال تک خدمت لی جا سکتی ہے اور ساتویں سال وہ بغیر کچھ دیے آزاد ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چور چوری کرلے اور اگر وہ مال لوٹا نہ سکے تو جس کے ہاں چوری ہوئی ہے وہ اسے اپنا غلام بنانے کا حق رکھتا ہے۔‘‘ اسی طرح تورات نے اس چیز کو بھی جائز قرار دیا ہے کہ ایک عبرانی اپنی بیٹی کو بیچ سکتا ہے پس اس صورت میں وہ اس شخص کنیز بن جائے گی جس نے اسے خریدا ہوگا۔جہاں تک بات جنگی قیدیوں کی ہے تو پرانے زمانوں میں جو بھی جنگ میں شکست کھا جاتا تھا تو وہ خود، اس کے اہل و اعیال اور مال مویشی فاتح کے لیے مال غنیمت بن جاتے تھے۔
جہاں تک مسیحیت کی بات ہے تو اس نے تورات میں موجود غلامی کے نظام پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ نہ ہی غلاموں کے حالات اور تکالیف کا ازالہ کیا اور نہ ہی ان کی آزادی کے لیے کوئی اقدام کیا بلکہ اس کے برعکس مالکوں اورآقاؤں کے حقوق اور غلاموں کے فرائض ثابت کیے۔
مقدس پولس کے بارے میں تاریخ میں ملتا ہے کہ اس نے غلاموں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے آقاؤں کی اسی طرح اطاعت کیا کریں جیسا کہ حضرت مسیح کی کرتے ہیں۔ پولس نے شہر افسس کے لوگوں کو جو خط لکھا تھا، اس میں ہے: ’’اے غلامو! ڈرتے اور کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ اپنے دلوں کی بساط کے مطابق اپنے آقاؤں کے احکام کی تعمیل کرو جیسا کہ حضرت مسیح کی کرتے ہو۔ فقط دکھاوے کی خدمت نہ کرو جو فقط لوگوں کو راضی کرنے کے لیے ہو بلکہ مسیح کے غلاموں کی طرح کرو جو اللہ کی رضا پر دل سے راضی ہو کر عمل کرتے ہیں اور خالص نیت سے خدمت کرتے ہیں، جیسا کہ رب کی خدمت کی جاتی ہے نہ کہ لوگوں کی، اور وہ جانتے ہیں کہ جو بھی نیکی کا عمل انجام دے گا اسے رب کی طرف سے اجر پہنچے گا، چاہے وہ غلام ہو یا آزاد۔‘‘
غلامی کے میدان میں زمانہ جاہلیت کے عرب اپنی ہم عصر یا سابقہ امتوں سے مختلف نہیں تھے یہ لوگ جن جنگوں میں جیت جاتے ان میں مفتوحین کی عورتوں اور بچوں کو غلام اور کنیز بنالیتے تھے اس کے ساتھ ساتھ غلام بازاروں میں ان کی خرید و فروخت بھی کرتے۔ اس کے علاوہ قریب کے حبشی علاقوں سے بھی غلام لے آتے تھے۔
اُس وقت غلاموں کی تجارت عرب ممالک میں رائج تھی۔ اُس زمانے میں مکہ کے اندر غلاموں کے سوداگروں میں سے ایک معروف سوداگر عبداللہ ابن جرعان ہوا کرتا تھا۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں میں سے بعض لوگ غلام تھے جیسا کہ زید ابن حارثہ جنہیں بچپن میں اغوا کر کے عکاظ کے بازار میں فروخت کر دیا گیا۔ وہاں سے انہیں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ایک رشتہ دار نے خرید لیا، نیز حضرت بلالؓ بن رباح حبشی جو قریش کی ایک شاخ بنی جمح کے غلام تھے۔ اسی طرح تاریخ میں سلمان محمدیؓ کا قصہ بھی ملتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملحق ہوتے، کس طرح ان کے رہنما (راستے میں مسافروں کی رہنمائی کرنے والے) خیانت کر کے انہیں یثرب کی طرف لے آئے اور وہاں انہیں ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں۔
چونکہ آسمانی رسالت فطری طور پر دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا درس دیتی ہے لہٰذا اس نے تمام انسانوں کو عدل و مساوات کی نگاہ سے دیکھا ہے: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبير۔ (الحجرات: 13) [اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔]
لفظ’’الناس‘‘ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر آیا ہے۔ یہ کلمہ اطلاق کا فائدہ دیتا ہے یعنی اس سے مرد اور عورت آزاد و غلام ، سیاہ و سفید سب مراد ہیں، جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا: ’’اے لوگو! آگاہ رہو کہ تمہارا رب ایک ہے۔ تمہارے جد ایک تھے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ ہی کسی سرخ کو کالے پر اور نہ ہی کالے کو سرخ پر کوئی فضیلت حاصل ہے، سوائے تقویٰ کے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا؟‘‘ تو سب نے کہا: ’’اللہ کے رسولؐ نے اپنا پیغام پہنچا دیا۔‘‘
گذشتہ بحث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شارع مقدس کی نگاہ میں تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں اور ان میں امتیاز اور فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ لوگوں میں رنگ و نسل اور ذات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ ہمارے لیے رسول کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ میں اسوہ حسنہ ہے۔ آپؐ نے بلال بن رباح حبشیؓ، سلمان فارسیؓ، اور صہیب رومیؓ کا مرتبہ بلند فرمایا جبکہ اپنے قریشی چچا ابولہب کی قدر و منزلت اور امتیاز کو ختم کر دیا۔
غلامی ایک سنگین میراث ہے، جو ایک ایسے نظام کے طور پر اسلام کو ورثے میں ملی جس کی جڑیں اس وقت معاشرے کے تمام طبقات میں موجود تھیں۔ اس وقت مکہ کے سرداروں اور ممتاز لوگوں اور عوام میں سے آسودہ حال لوگوں کے غلام اور خادم ہوا کرتے تھے، جنہیں وہ مال مویشی چرانے، تعمیرات، تجارت اور گھروں میں خدمت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو اس بات سے بالاتر سمجھتے تھے کہ وہ خود مویشی چرائیں یا ان کا دودھ دوہیں یا اپنے ہاتھ سے کوئی کام کریں۔ گھر کے کام کاج میں ان کی عورتوں کا بھی یہی رویہ تھا۔ پس غلام ایک ایسا فائدہ تھا جس سے مالک اور آقا لوگ اپنے امور کی انجام دہی اور سہولت کے لیے مستفید ہوتے تھے لہٰذا ان کے لیے اس سے چھٹکارا پانا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اس پر فوری طور پر حرمت کا حکم لگا کر ان سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
اسلام غلامی کے نظام کے خلاف مکمل طور پر قیام کرتا ہے، لیکن ایک ہی دفعہ اسے حرام قرار دینا ایک مشکل کام تھا کہ جسے ایک حقیقی صورت حال کی طرح قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ اس بنا پر اسلام نے ایک ایسا مناسب طریقہ کار طے کر کے اس نظام کو بہ تدریج ختم کرنے کا فیصلہ کیا کہ جو اس وقت کی حقیقی صورت حال سے متصادم بھی نہ ہو اور اس کے اندر اتنی صلاحیت بھی ہو کہ وہ غلامی کے نظام کا زمانے کے ساتھ ساتھ تدریجی انداز میں خاتمہ کر دے بغیر اس کے کہ کوئی پرتشدد ردّعمل پیش آئے جو اس وقت اسلام کے مفاد میں نہ ہو۔ اور اسلام اپنے اس نقطہ نظر میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا۔ البتہ اس اقدام کے لیے اسلام کا میکنزم کیا تھا؟ یہ ہم ذیل کی سطور میں پرھیں گے:
باوجود اس کے کہ اسلام نے غلامی کو نصی طور پر حرام قرار نہیں دیا لیکن اتنے دانشمندانہ طریقے سے اس مسئلے کو حل کیا کہ جس سے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سے چھٹکارا پا لیا گیا۔ لہٰذا آج کے زمانے میں آپ کو اسلامی معاشرے میں کوئی بھی غلام یا کنیز نظر نہیں آئے گی۔ اسلام نے اس کے لیے تدریجی راستہ اختیار کیا، جسے معروف اصطلاح میں ’’عتق رقبہ‘‘ (غلام یا کنیز کو غلامی سے آزاد کروانا) کہا جاتا ہے: فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ۔ وَ ما أَدْراكَ مَا الْعَقَبَةُ۔ (البلد: 11-12) [گردن کو (غلامی) سے چھڑانا۔ اور فاقہ کے روز کھانا کھلانا۔] ، وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَأً وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْريرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ دِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ إِلاَّ أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْريرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ إِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ ميثاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ وَ تَحْريرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ شَهْرَيْنِ مُتَتابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَ كانَ اللَّهُ عَليماً حَكيماً۔ (النساء: 92) [اور کسی مومن کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر دے مگر غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے وہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو خونبہا ادا کرے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پس اگر وہ مومن مقتول تمہاری دشمن قوم سے تھا تو (قاتل) ایک مومن غلام آزاد کرے اور اگر وہ مقتول ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے ورثاء کو خونبہا دیا جائے اور ایک غلام آزاد کیا جائے اور جسے غلام میسر نہیں وہ دو ماہ متواتر روزے رکھے، یہ ہے اللہ کی طرف سے توبہ اور اللہ بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔]، وَ الَّذينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِما قالُوا فَتَحْريرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ خَبير۔ (مجادلہ: 3) [اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنے قول سے پلٹ جائیں انہیں باہمی مقاربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اس طرح تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔] ، وَ الَّذينَ يَبْتَغُونَ الْكِتابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ فَكاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فيهِمْ خَيْراً وَ آتُوهُمْ مِنْ مالِ اللَّهِ الَّذي آتاكُم۔ (نور: 33) [اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کی خواہش رکھتے ہوں ان سے مکاتبت کر لو۔ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان میں کوئی خیر ہے اور انہیں اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو۔]
گذشتہ سطور میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ غلامی کا نظام زمانہ جاہلیت میں رچا بسا ہوا تھا اور اس وقت وہ لوگ خصوصاً قوم کے سردار اور ثروت مند افراد، اپنی روزمرہ زندگی میں غلامی کے نظام کی طرف محتاج تھے۔ اس بنا پر اسلام بہ یک جنبش اسے حرام نہیں قرار دے سکتا تھا، بلکہ اس نے اس کے لیے ایسے قوانین اور احکام بنائے جن کے نتیجے میں اس نظام کو حرام قرار دیے بغیر ہی اس سے چھٹکارا پایا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اسلام نے غلاموں کے ساتھ ایسا اچھا سلوک کیا جو ایک انسان کے لائق ہوتا ہے۔ پس اس نے غلاموں کے قتل اور ان پر ظلم و ستم سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ انہیں خرید کر آزاد کرنے کی ترغیب بھی دی۔ پیغمبر اکرمﷺ اور ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ بعض ائمہؑ تو کثیر تعداد میں غلاموں کو خرید کر ان کی تعلیم و تربیت کا انتطام کرتے اور پھر انہیں خدا کی رضا کے لیے آزاد کر دیتے، جبکہ امریکی اور یورپی معاشرے میں ماضی قریب تک غلامی کی سائے منڈلاتے رہے ہیں، یہاں تک کہ ان لوگوں نے غلامی کے نظام کو نئے استعمار اور لوگوں کی سیاسی، اقتصادی اور عسکری غلامی میں تبدیل کر دیا۔