قرآن کریم ایک عبد کے جذبات و غرائز کو مخصوص قانونی جواز کے دائرے میں لا کر اس کے ایمان اور عفت و پاکیزگی کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔ اس کے لیے وہ اپنی آیات شریفہ کےذریعے قانون سازی کرتا ہے یہاں تک کہ جو ایمان و پاکیزگی کو لازم و ملزوم نہیں سمجھتا اسے سرکش اور ظالم قرار دیتا ہے: وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ* إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ* فَمَنِ ابتغى وَرَاءَ ذَٰلِكَ فأولئك هُمُ الْعَادُونَ* (المومنون: 5تا7)[اورجو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کیونکہ ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ لہٰذا جو ان کے علاوہ اوروں کے طالب ہو جائیں تو وہ زیادتی کرنے والے ہوں گے۔]
مرد اور عورت کے درمیان پائی جانے والی یہ حاجت کافی اہم ہے اور اس کی برآوری سوائے شادی کے ہو بھی نہیں سکتی اس لیے قرآن کریم شادی کو ایک ایسا امر قرار دیتا ہے جو اپنے اندر پائی جانے والی مودت اور رحمت کے ذریعے انسانی نفس کو سکون عطا کرتا ہے: وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔ (الروم: 21) [اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقیناً ان میں نشانیاں ہیں۔]
ہم اپنی بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ ایمان و عفت کے درمیان دو مختلف جہات سے ملازمہ پایا جاتا ہے۔ عفت کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ حرام امور سے انسان کی شرمگاہ محفوظ رہتی ہے۔ جو اس پیمانِ ازدواج کے ذریعے ایک مقدس ارتباط پیدا کرتی ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے جنسی ارتباط کو سرکشی و بغاوت اور غیرمستقیم راستے پر سفر شمار کرتی ہے۔ اور شارع مقدس کو اس بات سے روکتی ہے کہ وہ اس تعلق، جس کا سب سے بڑا فائدہ انسانی کی جبلتی ضرورتوں کی تسکین ہے، کو کسی بھی قسم کے قانون اور قاعدے و ضابطے کے بغیر چھوڑ دے۔ پس شارع مقدس نے اسے عقد زوجیت جیسے ایک خوبصورت قالب میں ڈھال دیا جس میں بہت سے اخلاقی، فقہی اور مالی لوازمات بھی موجود ہیں، اور اسے ان لوگوں کے خلاف ایک قلعہ قرار دیا جو اس سے سوء استفادہ کرتے ہیں۔
اور چونکہ ازدواج ایک ایسا پیمان اور عقد ہے جس کے ذریعے تمام مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں کہ انسانی فطرت کے جبلی جذبوں کی تسکین ان میں سے ایک ہے، لہٰذا یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے علل یعنی نوع انسانی کی حفاظت اور زوجین کے درمیان پیدا ہونے والے جسمانی اور روحانی اطمینان اور کفایت پر بھی کچھ بات کی جائے۔ قرآن مجید نے اس عقد کو بہترین شرائط و ضوابط کے ذریعے ایک مضبوط پیمان کی شکل میں ڈھالا۔ یہاں تک کہ نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے زوجیت کا پیمان توڑنے کو ناپسندیدہ ترین حلال قرار دیا ہے۔ اس عقد کی اہم شقوں میں سے ایک یہ ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی: وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚأَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا* وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أفضى بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا* (النساء ـ20 ـ 21) [اور اگر تم لوگ ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ لینا چاہو اور ایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لینا، کیا تم بہتان اور صریح گناہ کے ذریعے مال لینا چاہتے ہو؟ اور دیا ہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے سے مباشرت کرچکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد و قرار لے چکی ہیں؟] یہاں شدید عہد سے مراد مالی حوالے سے شدت اور سختی ہے کیونکہ مادی اشیاء اور مال و دولت کے انسانی نفس پر بنیادی اور اہم اثرات ہوتے ہیں۔
دوسری جہت سے اگر دیکھا جائے تو اس عقد کو دوسرے تمام عقدی معاملات پر فوقیت حاصل ہے اور اس سلسلے میں کوئی اور عقد اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی میاں بیوی ایک دوسرے پر اپنا حق جتانے کے لیے آپس میں الجھ سکتے ہیں۔ یہ عقد ازدواجی زندگی کو ایک ذمہ دار خاندان تشکیل دینے کے لیے واحد وسیلہ قرار دیتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا* (النساء ـ1) [اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک ذات سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ کی نگرانی ہے ۔]
اسی طرح اسلام نے عقد نکاح کو نصف دین کی حفاظت کا ضامن قرار دیا ہے کیونکہ یہ صحت و سلامتی، نفسیاتی، جذباتی اور خصوصاً اخلاقی لحاظ سے حفاظت کے ساتھ ساتھ مرد کو بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کا قلعہ ہے۔ جو شادی شدہ انسان کو گناہوں اور برائیوں سے بچاتا ہے حتی کہ اس کے بارے میں سید البشر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ایک مسلمان شخص کے لیے اسلام کے بعد ایک مسلمان بیوی سے زیادہ کسی بات میں کوئی فائدہ نہیں کہ جب وہ اس کی طرف دیکھے تو اسے سکون بخشے، جب وہ اسے کوئی بات کہے تو وہ اس کی بات مانے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے پیچھے اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرے۔‘‘ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے ایک اور روایت ہے: ’’جو میری سنت کی اتباع کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ شادی کرے، کیونکہ شادی کرنا میری سنت ہے۔ اور خدا سے اولاد کی دعا کرو کیونکہ کل بروز قیامت میں تمہاری کثرت کے باعث دوسری قوموں پر مباہات کروں گا۔‘‘
مادی حوالے سے اگر نگاہ کی جائے تو ازدواج، حصول رزق کا سب سے بڑا عامل ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی بدولت رزق میں برکت آ جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ایسے عوامل ہوتے ہیں جو شوہر کو سستی سے نکال کر اس یقین کے ساتھ ہمت اور مشقت سے رزق کے حصول پر ابھارتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی تنگی کو دور کرے اور اسے یہ احساس دلائیں کہ اس کی بیوی اور بچوں کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہے: وَأَنكِحُوا الأيامى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ* (النور :32) [اور تم میں سے جولوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکا ح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث شریف بھی اسی بات کی طرف دعوت دیتی ہے: ’’شادی کرو کیونکہ اس سے تمہارے رزق میں اضافہ ہو گا۔‘‘
البتہ ازدواج فی نفسہ مستحب ہے اور صرف اسی صورت میں واجب ہوتا ہے جب نہ کرنے کی صورت میں انسان کے اپنے لیے یا اس کے دین کے لیے خطرہ ہو۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اے جوانو! جو گناہوں سے بچنا چاہتا ہے وہ شادی کرے کیونکہ اس سے نگاہیں قابو میں اور شرمگاہیں محفوظ رہتی ہیں۔ اور جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے کیونکہ یہ اس کے لیے حفاظت کا کام دے گا۔‘‘
درج بالا موارد میں بیان کی گئی ازدواج کی اہمیت اور ضرورت کی بنا پر اسلام نے عقد نکاح کی بنیاد شرعی اصولوں (قرآنی اور حدیثی) پر رکھی ہے تاکہ اسے سماجی اور اخلاقی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اور ان اصولوں کے توسط سے میاں بیوی دونوں پر کچھ شرائط اور پابندیوں کا ایک نظام لاگو کرتا ہے بلکہ عقد نکاح کی مخالفت کرنے والے کے لیے بعض سزاؤں کا نظام مقرر کر کے اس عقد نکاح کے استحکام کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جو نکاح نامے میں طے کی گئی شرائط کی خلاف ورزی کرے اس کے لیے اس نے حدود اور سزائیں مشخص کی ہیں۔ پس شارع مقدس نے شادی کو ایسی مختلف تقریبات اور مراحل مثلاً خطبہ سے شروع کرنا، مخصوص الفاظ و کلمات کے ذریعے اسے معاہدہ کی رسمی شکل دینا، ایک خاص طریقہ کار، تشہیر کے ذریعے اس کا اختتام کرنا اور اس سے بھی بڑھ کر قیام و طعام کی ذمہ داری اور دوسرے بہت سے امور کے ذریعے ایک مخصوص رسمی حیثیت دی ہے جو کلی طور پر اس کی حمایت اور حفاظت کرتے ہیں۔
رسوم و رواج کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اگرچہ عقد ازدواج کے حوالے سے اسلام کو اپنی خاص رسومات میں انفرادیت حاصل ہے اور یہ رسومات ازدواجی پیمان کی تعظیم و تقدیس کے لیے ضروری بھی ہیں، مگر عام طور یہ رسومات آسمانی ادیان سے اخذ شدہ ہیں۔ اس کا آغاز وہاں سے ہوا جب یہودی ربی اپنی خانقاہوں میں یہ عقدنامے تیار کرتے تھےا ور انہیں بیچتے تھے۔ اس کے بعد عیسائی کلیساؤں اور ان کے راہداریوں میں انجام پائے جانے والے مسیحی نکاحوں سے ہوتا ہوا یہ عقد مسلمانوں کے پاس اپنی مشخص اور معین شکل میں پہنچا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقد ازدواج تینوں آسمانی مذاہب کے نزدیک ایک مقدس عہد و پیمان ہے اور عبادت گاہوں اور مساجد کے نزدیک اس عقد کی انجام دہی بھی اس کی قداست اور پاکیزگی کی وجہ سے ہے۔ اور یقیناً شادی کے وقت زوجین پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔
خلاصہ گفتگو یہ ہوا کہ ازدواج ایک الٰہی روش ہے جسے باری تعالیٰ نے انسان کو عطا کی گئی ضروریات و غرائز اور جس ہدف کےلیے انسان کی تخلیق کی گئی ہے (جبکہ اس کی تخلیق عبث اور بے فائدہ نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ان غرائز اور ضروریات کے بھی اہداف و مقاصد ہیں) اس تک پہنچنے کے لیے ان غرائز کے درمیان توازن رکھ کر منظم کیا ہے۔ یہ بات اسے ایک مقدس معاہدے اور ایک طبعی قانون کی حیثیت دیتی ہے کہ جن کی نگرانی ایک محکم فطری منشور کے ذریعے کی جاتی ہے۔
ظافرة عبد الواحد خلف