دین مقدس اسلام ایک عالمگیر دین اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا ہدف تمام انسانوں کی سعادت اور بہتری ہے، چاہے وہ جس نسل اور علاقہ سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو، اس میں افراد کو رنگ وبو اور نسل کے اعتبار سے پرکھا نہیں جاتا بلکہ انسانوں کو علم اور تقوی کی بنیاد پرجانچا جاتا ہے۔ اسلام میں تمام رنگ ونسل کے افراد انسان ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں، لہذا اس کی تبلیغ کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ وہ خاص نسل اور علاقہ تک محدود نہیں ہے۔ اسلام دعوت حسنی کے ذریعہ مخالفین کو دین کی طرف بلانے کا حکم دیتا ہے، اور دعوت تبلیغ میں کسی بھی قسم کے غیر اخلاقی اور غیر عقلی طریقہ کار اپنانے کا مخالف ہے۔ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست اس نظریہ کی بہترین شاہد ہے کہ جس میں تمام ادیان اور مذاہب کے رہنے والے، چاہئے وہ یہودی ہوں یا نصرانی یا کسی اور مذہب کے پیروکار سب کو آزادی حاصل تھی، اور ہر ایک کو بنیادی حقوق حاصل تھے، اسکے علاوہ اپنی مرضی اور اپنے دین کے مطابق عبادات بجالانے اور اپنی رائے کے اظہار کی بھی آزادی تھی۔
عقیدے کی آزادی
اسلام حریت اور آزادی کا دین ہے، جو صحیح عقیدہ کی تشخیص اور اس پر ایمان رکھنے میں عقل اور تدبر پر زور دیتا ہے، جس کا ناقابل تسخیر دستور قرآن حکیم ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا، اور قیامت تک کے لیے مکمل ضروری احکامات کلیہ کو اپنے ضمن میں لیئے ہوئے ہے۔ پھر یہی قرآن حریت اور آزادی کے بارے میں کہتا ہے: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ۔(بقرہ: ۲۵۶)۔ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ اسلام کسی پر بھی اپنے ایمان، عقیدہ اور مرضی کو مسلط کرنے کے خلاف ہے ، اور اس طرح کے عمل کو جائز نہیں سمجھتا۔ قرآن کہتا ہے:وَلَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (یونس:۹۹)۔ اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ یہ آیات اور اسی طرح کی دیگر آیات واضح کرتی ہیں کہ اسلام آزادی کا دین ہے تلوار اور خون کا دین نہیں ہے۔ تمام اسلامی فتوحات اور جنگیں ان لوگوں کے خلاف لڑی گئیں، جو لوگوں سے آزادی چھینتے تھے، اور لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے تھے۔ عصرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مدینہ کی اسلامی ریاست کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی اور بنیادی ترجیح یہ تھی کہ مختلف قبائل اور مذاہب کے ساتھ امن کے معاہدے کیے جائیں تاکہ انسان امن وآشتی کی زندگی گزار سکے، جیسا کہ میثاق ِ مدینہ،اور اس کے علاوہ باقی وہ معاہدے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے دو یہودی قبائل؛ بنی نظیر اور بنی قینقاع کے ساتھ کیئے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی اقدار کی حفاظت کے لیئے مختلف قوانین وضع فرمائے، مثلا اسلام کسی غیر مسلم کو اذیت پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا: جو کسی ذمی کو اذیت/نقصان پہنچائے گا قیامت کے دن میں اس کا مخالف ہوں گا۔
اظہار رائےکی آزادی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اپنے عقیدے کے مطابق اظہارِ رائ کی مکمل آزادی دی، اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے یہ حق چھینے کے قطعی مخالف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک دوسرے کی باتوں کو غور سے سنیں، اور باہمی عزت اور احترام کا خیال رکھیں، اور کسی کو یہ اختیار اور حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے اعتقادات کے خلاف بولے، اگرچہ ان کا یہ عقیدہ، اسلامی اعتقدات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافروں اور ان کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے مسلمانوں کو منع کیا، جیسا کہ قرآن حکیم کہتا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كذلك زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إلى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔ (الإنعام ـــ ۱۰۸)۔ گالی مت دو ان کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں، اس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے اپنے کردار کو دیدہ زیب بنایا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پس وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف مخالفین کو برابھلا کہنے سے مسلمانوں کو منع کیا ، بلکہ مخالفین کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی، مہربانی ، اخلاق اور ادب کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا۔ جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ۔(ال عمران :۱۵۹)
(اے رسول) یہ لطف الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف خود وسیع قلب، رحم دل، منبسط الوجہ، اور اخلاق حسنہ سے آراستہ تھے بلکہ لوگوں کو بھی ان صفات سے متصف ہونے کا حکم دیتے تھے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم اپنے اموال لوگوں میں نہیں بانٹ سکتے، تو کم سے کم خندہ پیشانی اور اخلاق حسنہ کے ساتھ تولوگوں سے پیش آؤ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا راز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن مدارات میں پوشیدہ تھا، لہذا یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنیادی اصولوں میں سے تھا کہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ نہایت ہی مہذب اور اخلاق حسنہ کے ساتھ پیش آئیں اور یہی نکتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغِ رسالت میں مرکزی اور بنیادی اہمیت کا حامل تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: کہ مجھے جس طرح تبلیغِ رسالت کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق اور مدارت کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی معاشرہ میں زندگی بسرکرنے والے ہر فرد پر یہ لازم قرار دیا ہوا تھا کہ وہ دوسروں کے ساتھ کئے جانے والے معاملات میں بھی آداب اور احترام کا خاص خیال رکھیں، خاص طور پر اختلاف اور بحث ومناظرہ کے وقت قواعدِ آداب اسلامی کا خاص خیال رکھیں، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ادْعُ إلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِه وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (النحل :۱۲۵)۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ۔ (فصلت: ۳۴)۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔
صدر اسلام میں اسلام کا سماجی تنوع
جیسا کہ دین مقدس اسلام کی بنیاد مساوات، عدل اور انصاف پر قائم ہے، اورذات، نسل، رنگ اور علاقہ کی بنیاد پر کسی بھی شخص کی تحقیر اور اہانت کی اجازت نہیں ہے۔ فضیلت اور شرافت اسی کو حاصل ہے جو صاحب علم اور تقوی ہو جیسا کہ قرآن کہتا ہے: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍوَأُنثىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (الحجرات: ۱۳)۔ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔
یہ تنوع حقیقت میں اسرار اور رموز تخلیق کائنات میں سے تھا اور اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی تھی، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ َالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذلك لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ۔ (الروم :۲۲)۔ اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔