حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نئی قائم ہونے والی ریاست کی بنیاد میں دوسروں شامل کرنے اور دوسروں کے ساتھ زندگی گزرانے کی ثقافت کو ترویج دی۔ اس کے لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عفو وبخشش والا دین، اور اس کی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی خاص علاقہ اور معاشرہ تک محدود نہ تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کے لیے رحمت اور بشارت دینے والا بناکر مبعوث برسالت کیا گیا تھا۔ جیسا کہ قرآن حکیم کہتا ہے: تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (الفرقان:۱)۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔
دوسری آیت میں ارشاد ہورہا ہے : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ولكن أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ۔ (سبا:۲۸) ۔
اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إله إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ۔ (اعراف: ۱۵۸)۔ کہدیجئے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے، لہٰذا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اس اُمّی نبی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت حاصل کر لو۔
چوتھی آیت میں ارشاد ہورہا ہے : إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (ص: ۸۷)۔ یہ تو عالمین کے لیے صرف نصیحت ہے۔
پانچویں آیت میں حکم الٰہی ہورہا ہے : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔(انبیاء: ۱۰۷)۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
ان تمام آیات کریمہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اسلام،اور اس کا دستور (قرآن مجید) تمام نوع بشر کے لیے ہے، اور یہ ماضی کی گزری ہوئی ہر رسالت، اور تمام آسمانی کتب کا ماحصل ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ ہر اس شخص تک دین حق کا پیغام پہنچے، جو قرآن مجید کی تعلیمات سے مستفید ہوکر دین اسلام پر ایمان لانا چاہتا ہے، یہ صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہوگا کہ اگر تبلیغِ دین میں اخلاق کریمہ اور موعظہ حسنہ کو پیش نظر رکھا جائے، اور دوسروں کو بحث و گفتگو اور دلیل کے ذریعہ قائل کرتے وقت نرمی ، شفقت اور لچک کا مظاہرہ کرے۔ قرآن کریم اس کے بارے میں کہتا ہے: وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ۔ (العنكبوت:۴۶)۔ اور تم اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر بہتر طریقے سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کہدو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب) پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ۔ (النحل:۱۲۵)۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
پیغام حق کے پہنچانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلاواسطہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ دوسرے وسائل کی بھی ضرورت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم رسالت کے لیے عملی ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے، اور انہی وسائل کے ذریعہ اسلام کے آفاقی اور اخلاقی پیغامات کودوسروں تک پہنچانا ممکن ہوا۔ یہ اس ریاست کے پرامن،اور واضح فلسفہ کی مضبوطی کا نتیجہ ہے، کہ اس کی بنیاد شفقت، رحمت، عفوو درگزر، ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی،اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کی رعایت پر رکھی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی مستحکم ِاسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جو ایسے قواعد اور اصولوں پر مشتمل تھی جو ہر اعتبار سے تمام عالمِ بشریت کے لئے تا قیام قیامت نمونہ عمل تھی۔