ایک نبی مرسل ہونے کی حیثیت سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی ہدف لوگوں کی دنیوی اور اخروی بہتری تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سیاسی قائد، اور مصلح جہاں بھی تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اصلاح کے لیے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی ۔ اگرچہ دین اسلام کوئی ایک سیاسی جماعت، اور علاقائی تنظیم نہیں ہے، جس کا ہدف لوگوں پر حکومت کرنا ہو، اور جس کا دائرہ کار کسی خاص علاقہ تک محدود ہو۔ جسے آج کل کی اصطلاح میں گورنمنٹ کہا جاتا ہے، بلکہ اسلام ایک آفاقی اور آسمانی دین ہے جس میں تمام انسانوں کو یکسان اہمیت حاصل ہے جس کا بنیادی مقصد تمام انسانوں کی ہدایت ہے اور جس میں کسی شخص کو دوسرے پر، کسی قوم کو دوسری قوم پر اور کسی رنگ ونسل کے افراد کو دوسری رنگ ونسل کے افرادپر ترجیح حاصل نہیں ہے۔ اسلام کا عالمی ہونا اور اس کا ہر زمان ومکان سے مطابق اور موافق ہونا اس کے قیامت تک باقی رہنے کی ضمانت ہے ۔ پس یہ اسلامی ریاست کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اسی نے ابتدائی اسلامی معاشرہ کی بنیاد ڈالتے وقت عصر جدید کی اصطلاحات جیسے قائد، آئین، حکومت، حاکمیت، اور خودمختاری کو استعارہ کے طور پر متعارف کیا۔ حالانکہ جب ہم جانتے ہیں کہ اس وقت کے جزیرۃ العرب کا سماج اور معاشرہ افراتفری کا شکار کا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسے معاشرہ میں زندگی گزار رہے تھے جہاں مرکزی حکومت نامی کوئی چیز نہیں تھی، اور نہ کوئی ایسا رہبر اور پیشوا تھا کہ جو لوگوں میں امن وآمان کی فضاء قائم کرسکے، بلکہ وہاں پر جنگل کا قانون نافذ تھا اور ہرمالدار، طاقتور اور قوم وعشیرہ والے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دوسروں پر جنگیں مسلط کیا کرتے تھے اور غریبوں اور ناداروں سے جینے کا حق چھینتے تھے، لیکن جب اسلامی ریاست وجود میں آئی تو ہر قسم کے ظالم اور مفسد لوگوں کے شر سے غریبوں اور ناداروں کو تحفظ فراہم ہوا۔ اسلامی ریاست اپنی ہمعصر تمام ریاستوں اور حکومتوں کی نسبت زیادہ متمدن اور مہذب تھی اور یہ ریاست ان تمام لوگوں کی ذلت اور رسوائی کا سبب بنی جنہوں نے ظلم وستم کے ذریعے لوگوں پر (خاص طور پر غلاموں پر) اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی۔