خدا کی پہچان مختلف طریقوں اور ذرائع سے ہو سکتی ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ خدا کا متلاشی کس صلاحیت کا مالک ہے؟ اس کی ذہنی سطح کیا ہے؟ ہر چیز انسان کو خدا کی طرف لے کر جاتی ہے شرط فقط یہ ہے کہ انسان اپنی پوری بساط کے مطابق گہرا مطالعہ کرے اور ان ادلہ کو سمجھے جو تخلیق انسان اور اتنے منظم نظام کو قائم رکھنے اور چلانے میں قائم ہیں۔
آئیں کچھ چھوٹی چھوٹی مثالوں پر غور کرتے ہیں۔ایٹم ایک معمولی سا ذرہ ہے اس سے لے کر کہکشاوں تک غور کریں اس میں موجود پورے نظا م کا مطالعہ کریں یہ سب ایک استاد کی طرح آپ کی رہنمائی کرتے ہوئے آپ کو ایک سپر پاور کے وجود کی طرف لے جائے گا۔وہ سپر پاور جو ایٹم سے لے کر کہکشاوں تک کے نظام کا بندوست کرتی ہے،ہمیشہ ان کی نقل و حرکت کو منظم کرتی ہے،وہ طاقت ایسی ہے جو ایسا کام کرتی ہے جسے کرنا عام طاقتوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔تمام موجودات میں غور و فکر کرنا ایک ایسے نظام کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس تمام کائنات پر حاکم ہے۔
قرآن مجید درست عقیدے کے لیے ہر انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور انسان کو ضلالت و گمراہی سے بچاتا ہے۔ یہ بچانا کئی طریقوں سے ہے سب کے سب میں یہ بات مشترک ہے کہ غور و فکر کرنا ہو گا سوچنا ہو گا مخلوق سے خالق کی طرف سفر کرنا ہو گا آنکھوں سے دیکھنا اور قوت لامسہ سے لمس کرنا ہو گا آسمانوں اور زمین میں دقت نظر کرنی ہو گی اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ) (يونس ـ101)
کہدیجئے: آسمانوں اور زمین میں نظر ڈالو کہ ان میں کیا کیا چیزیں ہیں اور جو قوم ایمان لانا ہی نہ چاہتی ہو اس کے لیے آیات اور تنبیہیں کچھ کام نہیں دیتیں۔
اسی طرح دن اور رات کے آنے جانے میں غور کرنا ہو گا ارشاد باری تعالی ہے:
(إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) (البقرة ـ164)
یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
انسان کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ وہ اس مادہ پر غور کرے جس سے اس کی تخلیق کی گئی ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ) (الطارق ـ5)
پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی اور بہت سی آیات اسی طرح غور و فکر کی طرف رہنمائی کری ہیں۔ان آیات میں اس بات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ انسانی تجربے اور اس کی قوت حواس کو استعمال میں لا کر اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کیا جا سکتا ہے اور اس کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔عالم ہستی کے نظام کے ذریعے خدا کی معرفت تک پہنچنے کا عمل برھان نظم کہلاتا ہے۔برھان نظم اللہ کے وجود پر سب سے بڑی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے کیونکہ وجود خدا پر بہت سی دلیلوں کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے۔اس کائنات کا منظم نظام اور اس میں موجود تمام نظاموں کا باہمی طور پر مربوط رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی خالق ہے جس نے اتنا منظم نظام بنایا ہے اور یہی اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وہ خالق اس نظام کو چلا بھی رہا ہے ورنہ یہ نظام بغیر چلانے والے کہ نہیں چل سکتا تھا۔یہ ایسا خالق ہے جو تنہا ہی طاقت و حکومت کا مالک ہے اور اس کی حکومت میں ہی یہ پیچیدہ ترین نظام انتہائی منظم انداز میں چل رہا ہے۔اگر یہ طاقتور خالق چلانے والا نہ ہوتا تو یہ نظام کب کا تباہ ہو چکا ہوتا۔یہ نظام منظم نظام ہے جس میں تناسب پایا جاتا ہے ہر چیز خاص مقرر انداز میں اس کا حصہ ہے اس پر حاکم کی حکومت میں کوئی شریک نہیں ہے اور وہی حاکم اللہ تعالی کی ذات ہے۔کسی بھی عقیدے سے مطمئن ہونے سے پہلے او رکسی بھی دینی اور غیر دینی نظریہ کو اختیارکرنے سے پہلے اس عظیم الشان بنانے والے کی پہچان ضروری ہے جس نے اس لا متناہی نظام کو تشکیل دیا ہے جس نے اس نظام کو خلق کیا ہے وہی خالق اللہ تعالی ہے۔