خدا کو جاننے کے بے شمار راستے ہیں، جتنی انسان کی سانسیں ہیں اتنے ہی مختلف اور متنوع طریقوں سے اللہ کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔وہ لوگ جو غور کرتے ہیں وہ آسانی سے اللہ کی ذات تک پہنچ جاتے ہیں، اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں اس کائنات میں موجود ہیں۔لوگ اسی مادی کائنات کے ذریعے اللہ کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو روح کی لذت سے خالق تک پہنچتے ہیں۔ یہ کائنات اللہ کی عظیم تخلیق ہے۔جب انسان سوچتاہے،غور و فکر کرتا ہے تواس پوری کائنات میں ایک وحدت کو پاتا ہےان آثار کو دیکھ کر انسان آسانی سے اس کے خالق اور اس کے موجد تک پہنچ جاتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ)) (يونس ـ101)
کہدیجئے: آسمانوں اور زمین میں نظر ڈالو کہ ان میں کیا کیا چیزیں ہیں اور جو قوم ایمان لانا ہی نہ چاہتی ہو اس کے لیے آیات اور تنبیہیں کچھ کام نہیں دیتیں۔
یہاں مادہ کو سب کچھ سمجھنے والوں اور دوسروں لوگوں کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے جو مادہ کے علاوہ کسی چیز کو کچھ نہیں سمجھتے اور سب کچھ حواس کے ذریعے تجربہ میں آنے والے مادہ کو ہی سمجھتے ہیں ان کے ہاں بھی یہ سب کچھ دیکھ کر خالق کی عظمت واضح ہو جاتی ہے۔ وہ شخص جو اس نظام کو دیکھتا ہے اور سوال اٹھاتا ہے کہ یہ تعجب میں مبتلا کر دینے والا نظام کیسے بنا ہے؟وہ اس میں غور و فکر کرتا ہے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اس نظام کے بنانے والے تک پہنچ سکے۔ جب اللہ پر ایمان والے اس سے بات کرتے ہیں تو صحیح تعبیر میں ممکن ہے ہم روحانی معرفت کو الہی یا لاہوتی کہیں گے۔ اصل بات ارادے کی ہے اس کے مختلف ہونےسے واجب الوجود کے بارے میں نتائج بھی مختلف نکلیں گے ۔مادی شخص آثار پر بات کرتا ہے اور روحانی اس کائنات کے آثار کے موجد پر بات کرتا ہے۔اس سے بھی مزید دقیق علمی تعبیر میں بات کریں تو مادہ پرست شخص مادہ کی ماہیت کے بارے میں بات کرتا ہے اور اللہ والے اس مادہ کو پیدا کرنے اور وجود بخشنے والے کے بارے میں بات کرتے ہیں یہ دونوں اسی کے اردگرد گھومتے ہیں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ))(البقرة ـ164)
یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
ہم ایک ہزار ایسے اسباب پائیں گے جو اللہ کی عظمت اور اس کی پہچان پر دلیل بنتے ہیں۔یہ آیات بہت خوبصورت انداز میں اور بڑے واضح انداز میں کھانے پینے ،آسمانوں سے اور اسی طرح دیگر مخلوقات سے خالق و موجد کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
اس پوری بحث کے بعد ہم برہان نظم پر بات کرتے ہیں جو خالق کی پہنچان کا ذریعہ ہے۔ہم اس مقالہ میں برہان امکان پر بات کریں گے یہ بھی اللہ کو جاننے کا اہم برہان ہے۔ہم منطق کی بحث میں داخل ہونے سے پہلے شئ کے مفہوم کو سمجھ لیں۔ دو میں سے ایک صورت میں ہونی چاہیے یا تو یہ شئ باہر موجود ہو سکتی ہو گی یا اس کا خارجی وجود ممکن نہیں ہو گا،اس طرح کہ واجب الوجود خود سے موجود ہوتا ہے اس طرح کہ اس کا وجود منظر شہور پر آنے کے لیے کسی علت کا محتاج نہیں ہوتا یعنی واجب الوجود وجود میں آنے کے لیے علت کی حاجت نہیں رکھتا۔اس معاملے میں واجب الوجود ممتنع الوجود کی طرح ہے کیونکہ اسے بھی علت کی ضرورت نہیں ہوتی۔علم کلام کے قاعدے کا ماحصل بھی یہی ہے کہ واجب الوجود وجود کے لیے اور ممتنع الوجود عدم کے علت کے محتاج نہیں ہیں۔یہ اس طرح ہے کہ ان دونوں کا کسی بھی علت کا محتاج ہونے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ دونوں اس علت کے محتاج ہیں در حالانکہ واجب تو خود سے موجود ہے اور ممتنع خود سے ممتنع ہے۔دوسری طرف ان دونوں کو کسی بھی علت سے متصف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ واجب الوجود اپنی ذات کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اور ممتنع اصل میں عدم ہوتا ہے۔
واجب الوجود اور ممتنع الوجود کے درمیان ممکن الوجود ہے اس کا ہونا بھی ممکن ہے اور نہ ہونا بھی ہو سکتا ہے۔یہ یوں سمجھیں ایک دائرہ کے درمیان میں ہے جس کسی ایک طرف کو کوئی ترجیح نہیں ہے سب کی اہمیت برابر ہے۔ دوسری طرف دور الشئ یعنی کوئی شئ دوسری شئی کے لیے موجود ہو اور دوسری پہلی کے لیے موجد ہو، اس سے جمع نقیضین ہونا لازم آتا ہے ۔اسی طرح علت اور اس کے معلولوں کے درمیان تسلسل لازم آتا ہے ۔یہ ترتب بھی لامتناہی ہو گا ،اس طرح کہ ہر چیز اپنے مافوق کے لیے معلول واقع ہوگی اور جو اس کے نیچے ہوگی اس کے لیے وہ علت بنے گی ایسے نہیں ہوتا اس کا غلط ہونا واضح ہے۔
یہ کائنات ممکن الوجود کے وجود سے بھری ہوئی ہے اس طرح کہ یہ سب چیزیں عدم سے ہی وجود میں آئی ہیں اور منعدم ہو جائیں گی اور فنا ہو جائیں ان کا وجود نہیں رہے گے، اس میں تبدیلی جاری رہے گی اسی کو دقیق علمی انداز میں امکان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں برہان امکان کو بہت سارے مقامات پر بیان کیا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (15) إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ (16) وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ (17))(فاطر ـ15 ـ17)
۱۵۔ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔ ۱۶۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور نئی خلقت لے آئے۔ ۱۷۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے مشکل تو نہیں۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ممکن جو انسان ہے یہ علت کبری کا ہمیشہ محتاج رہے گا اور یہ علت کبری کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ممکن خود سے وجود نہیں رکھتا اور یہ خود سے اپنے لیے وجود پیدا بھی نہیں کر سکتا۔
دوسری طرف دیکھیں تو ممکن کے امکان پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ ممکن کسی اور ممکن کو وجود نہیں بخش سکتا،نہ تو ممکن کے پاس اپنی کوئی ایسی قوت ہے اور نہ ہی کسی کی دی ہوئی ایسی قوت ہے کہ وہ خود علت موجدہ کے بغیر ایسا کر سکے اور وہ علت موجودہ اللہ تعالی کی ذات ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (35) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ (36)أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ (37) أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (38)أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ (39) أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ (40) أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ(41) أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ (42) أَمْ لَهُمْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (43)وَإِن يَرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَّرْكُومٌ (44) فَذَرْهُمْ حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ(45))(الطورـ35 ـ45)
۳۵۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی خالق کے پیدا ہوئے ہیں یا خود (اپنے) خالق ہیں؟ ۳۶۔ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ یقین نہیں رکھتے۔ ۳۷۔ کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا ان پر ان لوگوں کا تسلط قائم ہے؟ ۳۸۔ یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس (کے ذریعے) سے یہ وہاں (عالم ملکوت) کی باتیں سنتے ہیں؟ (اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا واضح دلیل پیش کرے۔ ۳۹۔ کیا اللہ کے لیے بیٹیاں اور تمہارے لیے بیٹے ہیں؟ ۴۰۔ کیا آپ ان سے اجر مانگتے ہیں کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے؟ ۴۱۔ یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے وہ لکھتے ہوں؟ ۴۲۔ کیا یہ لوگ فریب دینا چاہتے ہیں؟ کفار تو خود فریب کا شکار ہو جائیں گے۔ ۴۳۔ یا ان کا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ اللہ اس شرک سے پاک ہے جو یہ کرتے ہیں۔ ۴۴۔ اور اگر یہ لوگ آسمان سے (عذاب کا) کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھ لیں تو کہیں گے: یہ تو سنگین بادل ہے۔ ۴۵۔ پس آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ یہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس میں ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ تسلسل اور دور ناممکن ہے اس سے لازمی نتیجہ یہ ہے کہ برہان امکان ثابت ہو گیا۔ایک قابل نتیجہ بحث ہو سکتی ہے اگر ہم اس دقیق تعبیر میں کہیں کہ بنانے والے کے ثابت کرنے پر دلیل دور اور تسلسل کے ناممکن ہونے سے نکلتی ہے۔اس برہان کو طاقت برہان نظم سے ملتی ہے وہ برہان حقیقی ہے جو واجب الوجود پر دلالت کرتا ہے ممکنات کے وجود کے سلسلے کو ایک جگہ رکنا ہے کیونکہ تسلسل محال ہے اور وہ جس چیز پر رکتا ہے وہ واجب الوجود اللہ ہے۔
اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ والأنثى (45) مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تمنى (46) وَأَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الأخرى (47) وَأَنَّهُ هُوَ أغنى وأقنى (48) وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشعرى (49) وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الأولى (50)وَثَمُودَ فَمَا أبقى (51))(النجم ـ 45 ـ51)
۴۵۔ اور یہ کہ وہی نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کرتا ہے، ۴۶۔ ایک نطفے سے جب وہ ٹپکایا جاتا ہے۔ ۴۷۔ اور یہ کہ دوسری زندگی کا پیدا کرنا اس کے ذمے ہے۔ ۴۸۔ اور یہ کہ وہی دولت مند بناتا ہے اور ثابت سرمایہ دیتا ہے۔ ۴۹۔ اور یہ کہ وہی (ستارہ) شعرا کا رب ہے۔ ۵۰۔ اور یہ کہ اسی نے عاد اولیٰ کو ہلاک کیا۔ ۵۱۔ اور ثمود کو بھی، پھر کچھ نہ چھوڑا۔