- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


کیا ذات و صفات خدا وند الگ الگ ہیں؟
29 ذو القعدة 1441هـ

جب ہم اسلامی میراث کی طرف دیکھتے ہیں تو جوکچھ مسلمانوں نے قرآنی نصوص سے سمجھا بالخصوص ان نصوص سے جو عقائد سے متعلق ہیں تو ہمیں کچھ ایسے عقائد کا پتہ چلتا ہے جن پر اعتقاد رکھنا اور تسلیم کرنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے۔جو علم ان امور سے بحث کرتا ہے اسے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے جیسے علم کلام،اصول دین،فقہ اکبر ،علم العقائد اور ابھی اسے الھیات کا نام بھی دیا گیا ہے۔

اگر ہم اس بات پر غور و فکر کریں کہ مختلف اسلامی مسالک کے درمیان اختلاف کی وجہ کیا ہے؟  تو پتہ چلے گا کہ اس اختلاف کی وجہ مصادر  کا اختلاف نہیں ہے  بلکہ اس اختلاف کی وجہ  ان مسائل کی تفہیم  ہے  کہ مسائل کو ان مسالک کے علما کس طرح دیکھتے ہیں؟تمام اسلامی مسالک اس بات پر متفق ہیں کہ  عقل و نقل بنیادی  منابع ہیں جن سے عقائد کو اخذ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ  یہ تمام مسالک  بڑے بڑے عقائد میں مشترک ہیں جیسے رب اللہ  کی ذات ہے ،ہماری کتاب قرآن مجید ہے،ہمارا دین اسلام ہے۔اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی پر ایمان ضروری ہے،اسی طرح نبی اکرمﷺ اور باقی انبیاءؑ پر ایمان رکھنا ضروری ہے،اسی طرح ملائیکہ  اور دویگر تین کتب تورات،انجیل اور زبور پر ایمان رکھنا بھی لازمی ہے۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ زندگی ،موت،حشر ونشر،حساب و کتاب، ثواب وعقاب اور آخرت پر  اور اسی طرح دیگر چیزیں جو بتا دی گئی ہیں ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔لیکن ہم  یہ دیکھیں گے کہ جب علوم اسلامی کی ابواب بندی کی گئی  اور  جو معارف  اسلامی دین  کا حصہ تھے ان  کو منظم کیا گیا تو اسلامی مسالک میں  اختلافات  سامنے آنے لگے۔یہ اختلافات  اصول عقائد  سے فروع کو الگ الگ کرتے ہوئے پھیل گئے۔

ابھی ہم ایک انتہائی اہم مسئلہ پر غور و فکر کریں گے کہ ایک مکتب فکر نے اسے کیسےدیکھا ؟اور پھر دوسرے  مکتب فکر نے اسے کیسے دیکھا؟ یہ اہم مسئلہ  خالق جو کہ اللہ تعالی ہے اس کی ذات اور صفات کی  الگ الگ ہونے یا اکٹھے ہونے کے بارے میں ہے۔یہ مسئلہ  تو حید کے اہم ارکان سے متصادم ہے،تمام بنیادی اسلامی مسالک اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ خالق وہی واجب الوجود اللہ تعالی کی ذات ہے اس پر ادلہ اور براہین لاتے ہیں۔اللہ تعالی بسیط ہے اور مرکب نہیں ہے۔سب اس کا بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی کی صفات ہیں،اسی طرح بعض صفات کی اللہ سے نفی ہوتی ہے،خدا نے قرآن مجید  میں خود اپنی صفات کا تذکرہ کیا ہے۔

ذات و صفات میں علیحدگی یہ توحید کے خلاف ہےجس کو ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ واجب الوجود کو مرکب مانا جائے  درحالانکہ بہت سے لوگ ذات اور صفات میں علیحدگی کے قائل ہیں۔یہ عقائد اسلامی کی مشکل ابحاث میں سے ہے جن سے مسلمانوں کا واسطہ پڑا ہے۔انسانی عقل اس بات کی طاقت نہیں رکھتی کہ  واجب الوجود یعنی اللہ تعالی کے وجود کو اور اس کی عدم ترکیب کو مکمل سمجھ سکے۔جس وقت ہم فرض کرتے ہیں اور دلیل بناتے ہیں کہ واجب الوجود کے لیے ذات اور صفات ہیں۔

اسلامی مسالک کا یہ فہم بہت ہی مختلف ہے اور بہت ہی مشکل کا شکار ہے اس مشکل کو حل کرنے کے  ان مسالک نے بہت سے طریقے بنائے اگر بڑے پیمانے پر دیکھا جائے دو نظریات سامنے آتے ہیں اور یہ ایسے نظریات  ہیں جو باہمی طور پر متضاد ہیں۔

پہلی نظریہ  یہ ہے کہ  ایک گروہ  ذات اور صفات  خدا میں  علیحدگی کا قائل ہوا کہ ذات الگ ہے اور صفات الگ ہیں۔اس قول کے نتیجے میں بہت سے علمی سوالات  پیدا ہوئے۔

دوسری رائے یہ ہے کہ ذات اور صفات واجب الوجود میں کوئی علیحدگی نہیں ہے جس طرح ممکن  الوجود میں ذات و صفات الگ ہوتی ہیں۔اس قول کے قائلیں کی مختلف تفصیلات ہیں جیسے  کچھ نے صفات کی نفی کی کچھ نے یہ کہا کہ واجب الوجود کی صفات عین الذات ہیں اور ذات عین الصفات ہیں۔

ہم یہاں پر حقیقت کی طرف اشارہ کریں گے جس کا پتہ ہمیں علم  کلام کے بہت سے  مسائل پر تحقیق سے چلا ہے  اور ہم اس مسئلہ میں موجود اقوال کو بھی بیان کریں گے۔ایک بات کو سمجھ لینا بہت ہی ضروری ہے کہ مناظرین کی یہ روش جس میں وہ مقابل پر ہر صورت میں غلبے کو پسند کرتے تھے  یہی غلبے کی خواہش ہی انہیں غلط نتائج کی طرف لے گئی۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ  ان مسالک کے  ان جذباتی ماننے والوں نے اپنی رائے ہی دوسرے کے فہم پر ٹھوسنے کی کوشش کی ہے،دوسری طرف کی ادلہ پر غور و فکر کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور ان کے موقف کو سمجھنے پر غور نہیں کیا ہے۔اگر ہم غور و فکر کی طرف آ جائیں اور ہم مقابل کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہم اسے درست انداز میں سمجھ سکیں گے ۔ابھی تک جو ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ مدمقابل ایک دوسرے کی نظر میں جہاں جہاں اختلاف ہیں اسی کو دیکھ رہے ہیں۔جب سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو بہت سے اختلافات کی نوعیت فقط لفظی ہو گی معنوی نہیں ہو گی۔اسی طرح ہر صاحب رائے کی رائے کے مقابلہ میں آراء موجود ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فہم کے مختلف ہونے اور عقل کے علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے رائے حقیقت کے قریب اور حقیقت سے دور ہوتی ہے۔

ہم دوبارہ اپنے موضوع تحقیق کی طرف پلٹتے ہیں واجب الوجود کی صفات کے حوالے سے دو ایسے موقف سامنے آتے ہیں جو باہمی طور پر متباین ہیں مذہب جعفری کے مطابق جس پر اہلبیتؑ کے طرف سے نصوص بھی دلالت بھی کرتی ہیں وہ دوسری رائے ہیں جس میں واجب الوجود کی صفات عین ذات ہوتی ہیں اور اس پر عقلی و نقلی ادلہ قائم ہیں۔

حق یہ ہے کہ یہ قول اگرچہ سابقہ مسئلہ کو تو حل کرتا ہے مگر یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ذات اور صفات اس طرح سے کہ صفات عین ذات ہو جائے اور ذات عین صفات ہو کو انسانی عقل قبول نہیں کرتی۔حضرت علیؑ کا یہ فرمان بھی اسی کی تائید کرتا ہے آپؑ نے فرمایا:

"وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ الإِخْلاصُ لَهُ، وَكَمَالُ الإِخْلاصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ أَنَّهَا غَيْرُ الْمَوْصُوفِ، وَشَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوفٍ أَنَّهُ غَيْرُ الصِّفَة".

کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمالِ تنز یہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے۔ کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے ۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس کو مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کریں اور ان کلمات اہلبیتؑ کی وضاحت کریں جو یہ بتاتے ہیں کہ صفات و ذات خدا ایک نہیں ہیں بلکہ الگ الگ ہیں۔ان تمام کا جواب دینے کے بعد ہی ہم حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں جس سے ائمہ اہلبیتؑ پردہ اٹھانا چاہتے تھے۔اس سب کے لیے غور و فکر اور تحقیق کی ضرورت ہے جس  کے لیے ہم دو مقدموں میں پیش کرنا چاہتے ہیں:

پہلا مقدمہ

انسان باہر موجود اشیاء کا ادراک اپنے حواس  اور چند محدود چیزوں کی مدد سے کرتا ہے۔یہ حواس اس بات کے محتاج ہیں کہ جس چیز کو بھی  خارج میں جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ مادہ کی شرائط پر پوری اترتی ہو۔اگر اس چیز میں وہ شرائط نہیں پائی جاتیں تو وہ چیز کبھی بھی انسان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔یہ بات بھی اہم ہے کہ انسان فقط حواس سے ہی درک نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالی نے اسے عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے جس کو استعمال میں لا کر انسان بہت سے چیزوں کا اداراک حاصل کرتا ہے وہ چیزوں جن کو عقل درک کرتی ہے ان تک انسان کے حواس کی رسائی نہیں ہوتی جیسے انسان کے افعال کا ادراک کرنا،اسی طرح معنوی صفات کا ادراک وغیرہ۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ انسانی عقل  حواس سے آگے بڑھ جاتی ہے  مگر اس کے باوجود اس کا دائرہ محدود ہے اور اس کو بھی  ادراک کے لیے کچھ قوانین اور ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے۔انسانی عقل  ان قواعد کی محتاج ہوتی ہے جن کی موجودگی میں ہی وہ  حقائق تک پہنچ سکتی ہے۔نتیجتا  عقل کو نتیجہ دینے کے لیے ان ضوابط کو لانا پڑتا ہے ان ضوابط کی مثال آئینہ جیسی ہے جس کے ذریعے  خارج میں موجود حقائق کو دیکھا جاتا ہے۔اسی لیے ہم خارج میں موجود حقائق کو ان ضوابط کی روشنی میں  دیکھیں گے کہ انسانی ادراک اس تک رسائی یا تشخیص کرنے سے قاصر ہوگا۔

دوسرا مقدمہ؛

وہ جس نے مخلوق کو عدم سے وجود بخشا اور ان میں انتہائی محکم قوانین کو قرار دیا اور پھر یہ مخلوق ان قوانین کے سامنے سرتسلیم خم کرتی  ہے اور ان کے مطابق چلتی ہے۔وہ ذات جس نے عقل کو خلق فرمایا جس کا کام ہے وہ اس تخلیق ہوئی کائنات اور اس کے قوانین میں غور وفکر کرے۔اس ذات نے عقل کو خاص قوانین کے تابع قرار دیا جن کے مطابق یہ کام کرتی ہے جو اپنی طاقت و بساط کے مطابق  کلی حقائق کو کشف کرتی ہے۔انسانی عقل آج بھی انہی قیود میں مقید ہے  آج تک انسان نے جو کچھ  اس عقل سے کام لے کر معلوم کیا ہے یہ اس کی نسبت بہت ہی تھوڑا ہے جس کے بارے میں ابھی تک انسان کچھ بھی جان نہیں سکا ہے اور جو جان سکا ہے یہ اس کی نسبت زیادہ معتبر بھی نہیں ہے جو یہ نہیں جان سکا۔

اس تمام کی بنیاد پر ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ موجد جو کہ اللہ تعالی کی ذات حق ہے اس تک پہنچنا اس عقل کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ  اللہ تعالی کی ذات ان تمام قوانین  اور ضوابط سے بالا تر ہے جو قوانین عقل اور اس دنیا پر کارفرما ہیں۔وہ ذات اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی حد بندی کی جائےیا اس کو ان قوانین کے دائرے میں لایا جائے جن کی وہ خالق ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہر چیز کا خالق ہے۔صرف عقل ہی اس نتیجہ تک نہیں پہنچی اگر ہم یہ فرض کریں کہ واجب الوجود ان قوانین کا محتاج ہے تو دو باطل احتمالات میں سے ایک فرض کرنا پڑے گا:

پہلا:یا تو واجب الوجود ان قوانین کا اس لیے پابند ہے کہ وہ ان کا  محتاج ہے؟اس کا نتیجہ یہ ماننا پڑے گا کہ جب وہ ان قوانین کا محتاج ہے تو یہ اس  کے  ذاتی نہ ہوئے۔یہ بات دو طرح سے غلط ہے پہلا تو یہ کہ  اس سے تسلسل لازم آتا ہے اور تسلسل درست نہیں ہے دوسرا یہ کہ فاقد الشی  معطی الشی نہیں ہو سکتی  یعنی یہ طاقت قوت کس نے دی؟ اللہ نے جب بنا بر فرض  وہ اس کے پاس تھی ہی نہیں تو اس نے کیسے دے دی؟  اللہ نے ہی یہ قوت و طاقت دی ہے اور وہی اس کو باقی رکھے ہوئے ہے اسی لیے وہ کسی دوسرے موجود کی ایجاد نہیں ہے۔

دوسرا:یا یہ ہے کہ  واجب الوجود بغیر کسی محتاجی کے  اس کا پابند ہو ایسا کیوں ہو گا؟

یا تو  یہ اس لیے ہے کہ  قوانین کو واجب الوجود  کے لیے تبدیل کیا  گیا ہے اس سے تو فرض ہی غلط ہو جائے گا کہ  واجب الوجود  کا پابند قوانین ہونا  ممکن الوجود میں موجود قوانین کی طرح ہی ہے۔

یا تو یہ فرض کرنا پڑے گا کہ یہ قوانین تبدیل ہوتے ہی نہیں ہیں  اس لیے ضروری ہو جائے گا کہ اللہ کے لیے  وہ قوانین اور خواص فرض کریں جو ممکن الوجود جیسے انسان کے لیے ہوتے ہیں۔اللہ تعالی نے قرآ ن مجید میں فرمایا ہے کہ وہ قوانین ممکن الوجود کے لیے ہیں  اور وہ   قوانین عقل سے بلند ہے  قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ))(الشورى ـ11)

 (وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اسی نے خود تمہاری جنس سے تمہارے لیے ازواج بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے، اس طرح سے وہ تمہاری افزائش کرتا ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

اس آیت پر غور کریں تو یہ ہر قسم کے تشابہ کو نفی کرتی ہے کہ کوئی بھی چیز جسے چیز کہا جا سکے وہ اس کی مثل نہیں ہو سکتی اور یہاں شئ بمعنی وجود ہے اور اختلاف فقط لحاظ میں ہے۔لاشئ بمعنی عدم ہےاس کے ساتھ ساتھ اس آیت نے اس بات کی بھی نفی کر دی ہے کہ  ہر وہ چیز جس نے لباس وجود پہنا ہے وہ اس جیسی نہیں ہے ۔اللہ تعالی ان قوانین سے خارج ہے جو وجود کے قوانین ہیں۔ایسی نصوص بہت زیادہ ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات ان قوانین سے خارج ہے جو وجود اور اور عقل پر لاگو ہوتے ہیں بالخصوص اہلبیتؑ کے فرامین بہت زیادہ ہیں۔یہ چند مثالیں ہیں جہاں ائمہ اہلبیتؑ نے جواب دیتے ہوئے ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ایک حدیث صحیح  ہے امام باقر ؑ فرماتے ہیں:

عن عبد الرحمن ابن أبي نجران قال: "سألت أبا جعفر عليه السلام عن التوحيد، فقلت:[ إنّني] أتوهم شيئا؟ فقال: نعم، غير معقول ولا محدود، فما وقع وهمك عليه من شئ فهو خلافه، لا يشبهه شئ، ولا تدركه الأوهام، كيف تدركه الأوهام وهو خلاف ما يعقل، وخلاف ما يتصور في الأوهام؟! إنما يتوهم شئ غير معقول ولا محدود"

عبدالرحمن بن ابی نجران کہتے ہیں میں نے ابوجعفرؑ سے توحید کے متعلق پوچھا کہ مجھے اس بارے میں کسی چیز کا وہم ہوتا ہے؟اس پر انہوں نے کہا اچھا ، اللہ کی ذات نہ سوچ میں سما سکتی ہے اور نہ گنی جا سکتی ہے اور جو کچھ تیرے وہم میں آیا ہے وہ اس ذات کے برعکس ہے کیونکہ کوئی چیز اس کی مشابہت نہیں رکھتی،وہم اسے درک نہیں کر سکتے اور وہم اسے درک بھی کیسے کر سکتے ہیں جبکہ وہ ہر سوچی جانے والی چیز کے خلاف ہے اور اس کے علاوہ جو وہم میں تصور کیا تھا؟ وہ یقینا ایک ایسی چیز کا تصور تھا جو نہ تو عقل میں آ سکتی ہے اور نہ اس کی حدبندی کا جا سکتی ہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے:

عن زرارة بن أعين قال: سمعت أبا عبد الله عليه ‌السلام يقول: "إن الله خلو من خلقه، وخلقه خلو منه، وكل ما وقع عليه اسم شيء ما خلا الله، فهو مخلوق، والله خالق كل شيء تبارك الذي (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ـ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير)". 

زرارہ بن اعین کہتے ہیں میں امام صادقؑ سے سنا آپ فرما رہے تھے  کہ خدا اپنی مخلوق سے بے نیاز  ہے  اس کی مخلوق اس مبرا ہے،ہر وہ  چیز جس پر شئ کا اطلاق ہوتا ہے  جو بھی اللہ کے علاوہ ہے وہ مخلوق ہے اللہ ہر  چیز کا خالق ہے  اور وہ بابرکت ذات ہے۔(اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا صاحب بصیرت ہے)

وہ جس کی حقیقت قوانین موجودات اور عقل کے دائرے سے باہر ہےوہ قابل ادراک نہیں ہے عقل کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اس کی حقیقت کو جان سکے۔

ان مقدمات کا  نتیجہ:

ہم نے یہ جان لیا کہ عقل ادراک کے لیے محدودیت کا شکار ہے۔عقل زیاد ہ سے زیادہ جہاں تک پہنچ سکتی ہے وہ اس کائنات میں موجود قوانین کا ادراک ہے جن کے ذریعے یہ کائنات چل رہی ہے۔وہ جو ہر موجود کو وجود بخشنے والا ہے وہ  اس کائنات پر حاکم قوانین سے بالا ہے عقل کی مجال کہاں ؟کہ اس کا اداراک کر سکے۔اس سب کے ذریعے ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ  محال ہے کہ عقل  اس کی حق معرفت حاصل کر سکے اور عقل حقیقت خدا کو جان سکے۔

ہم چند مقدمات کے ذریعے اس نتیجے تک پہنچے ہیں یہ نتیجہ اس بات سے متصادم ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی دسیوں جگہوں پر اپنا تعارف کرایا ہے۔یہ نتیجہ ان روایات سے بھی متصادم ہے جو صفات خدا میں غور و فکر کرنے پر ابھاتی ہیں۔یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ  اس کی پہچان کیسے ناممکن ہے درحالانکہ اس نے خود کو انسانوں  اپنے بارے میں بات کی ہے اور اپنی بہت زیادہ صفات کا ذکر کیا ہےجن  کو عقل درک کر سکتی ہے اور یہ صفات اس کو بیان کرتی ہیں۔

 اب ہم جواب کی طرف آتے ہیں یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مولی اس بات سے بلند  اور ارفع ہے کہ عقل اسے پہچان سکے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی پہچان حقیقی عقل کے دائرہ کار سے ہی باہر ہے۔در اصل وہ اس سے بلند ہے کہ اس کو کسی وصف سے موصوف کیا جائے یا کسی  تعریف کی محدودیت میں آ سکے وہ ہر طرح کی صفت اور حدبندی سے اوپر ہے۔یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ  وصف ہونا اور حد بندی کا ہونا یہ سب  ان موجودات کے خواص میں سے ہے جو سب کی سب اس مولی کی محتاج ہیں۔اس  پر ایک حدیث کو علامہ مجلسی نے امام باقرؑ سے نقل کیا ہے:

"كل ما مَيَّزْتُمُوهُ بأوهامكم في أدقِّ معانيه [هو] مخلوق مصنوع مثلكم، مردود إليكم، ولعل النَّمل الصِّغار تتوهَّم أنّ لله تعالى زَبَانِيَتَين، فإنّ ذلك كمالها، ويتوهَّم أنّ عدمها نُقْصان لمن لا يتَّصف بهما"

ہر وہ چیز جو اپنے گمان اور ادراک کے مطابق اور دقیق ترین معانی کے مطابق (اللہ کی ذات کی توصیف) کرتے ہو وہ تمہارے (ذہن کی) پیداوار ہے اور تمہاری طرف اس کی بازگشت ہے۔ کیونکہ بہت دفعہ کوئی چیونٹی یہ گمان کرتی ہے کہ اللہ تعالی کے بھی دو سینگ ہوں گے اور وہ چیونٹی اس کو کمال سمجھتی ہے اور سوچتی ہے کہ جس کے باس یہ دونوں نہ ہوں اس کے لئے یہ نقص ہوگا۔

امام ؑ کے اس فرمان میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ہر وہ چیز جس  کا سوچنا عقل کے لیے ممکن ہے وہ مولی کی حقیقت سے دور ہے اور اس  کا انطباق مولی پر نہیں ہو سکتا۔یہاں چیونٹی کی مثال دی گئی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ سینگھ کا ہونا کمال ہے  اسی طرح وہ یہ بھی سوچتی ہے کہ اس کے پاس پھندے ہوں گے کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے کمال ہے مگر حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی باتوں کا مولی کے کمالات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہی بات امیرالمومنین حضرت علیؑ کے کلام سے معلوم ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں :

أوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ، وَكَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْديقُ بِهِ، وَكَمَالُ التَّصْدِيقِ بِهِ تَوْحِيدُهُ، وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ الاْخْلاصُ لَهُ، وَكَمَالُ الاِخْلاصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ، لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَة أَنَّها غَيْرُ المَوْصُوفِ، وَشَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوف أَنَّهُ غَيْرُ الصِّفَةِ، فَمَنْ وَصَفَ اللهَ سُبْحَانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ، وَمَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنَّاهُ،وَمَنْ ثَنَّاهُ فَقَد جَزَّأَهُ، وَمَنْ جَزَّأَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ، وَمَنْ جَهِلَهُ فَقَدْ أشَارَ إِلَيْهِ وَمَنْ أشَارَ إِلَيْهِ فَقَدْ حَدَّهُ، وَمَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ، وَمَنْ قَالَ: «فِيمَ» فَقَدْ ضَمَّنَهُ، وَمَنْ قَالَ: «عَلاَمَ؟» فَقَدْ أَخْلَى مِنُهُ، كائِنٌ لاَ عَنْ حَدَث، مَوْجُودٌ لاَ عَنْ عَدَم، مَعَ كُلِّ شَيْء لاَ بِمُقَارَنَة، وَغَيْرُ كُلِّ شيء لا بِمُزَايَلَة، فَاعِلٌ لا بِمَعْنَى الْحَرَكَاتِ وَالاْلةِ، بَصِيرٌ إذْ لاَ مَنْظُورَ إلَيْهِ مِنْ خَلْقِهِ، مُتَوَحِّدٌ إذْ لاَ سَكَنَ يَسْتَأْنِسُ بهِ وَلاَ يَسْتوْحِشُ لِفَقْدِهِ".

دین کی ابتداء اس کی معرفت سے ہے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے۔تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ہے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد بر ذات صفات کی نفی ہے' کہ صفت کا مفہوم خود ہی گواہ ہے کہ وہ موصوف سے الگ کوئی شے ہے اورموصوف کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ صفت سے جدا گانہ کوئی ذات ہے۔اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اوراجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے معرفت نہیں ہے اور جو بے معرفت ہوگیا اس نے اشارہ کرنا شروع کردیا اور جس نے اس کیطرف  اشارہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کردیا اورجس نے محدود کردیا اس نے اسے گنتی کا ایک شمار کرلیا۔ اس نے اسے کسی کے ضمن میں قرار دے دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ کس کے اوپر قائم ہے اسنے نیچے کا علاقہ خالی کرالیا۔ اس کی ہستی حادث نہیں ہے اور اس کا وجودعدم کی تاریکیوں سے نہیں نکلا ہے ۔وہ ہر شے کے ساتھ ہے لیکن مل کرنہیں ' اور ہر شے سے الگ ہے لیکن جدائی کی بنیادپر نہیں۔ وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ نہیں اور وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب دیکھی جانے والی مخلوق کا پتہ نہیں تھا۔وہ اپنی ذات میں بالکل اکیلا ہے اور اس کا کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے جس کو پاکر انس محسوس کرے اور کھو کر پریشان ہو جانے کا احسان کرے۔

حضرت علیؑ نے مختلف حقائق کو ہمارے لیے جمع کر دیا ہے اور  بتا دیا ہے کہ دین کی اصل یہ ہے کہ اپنے رب کو پہچانا جائے۔رب کی معرفت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس  اس کی تصدیق نہ کی جائے اور اسے کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا جائے۔تصدیق اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک  اس کی توحید پر ایمان نہ لایا جائے۔کسی بھی  عبد کی توحید اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتی  جب تک  وہ فقط اور فقط اللہ کے لیے خالص نہ ہو جائے۔ یہ اخلاص  جو  توحید کی تکمیل پر منحصر ہے ، اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک عبد اس حد تک نہ پہنچے کہ  وہ خداتعالیٰ کی ہر صفت کا انکار کر دے بلکہ وہ اس پر عقلی ادلہ سے  دلیل لاتا ہے کہ صفت موصوف سے مختلف ہے اور موصوف صفت سے مختلف ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ  اللہ بھی ان صفات کے ساتھ مرکب ہے اس طرح صفت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔اس سب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دوئیت کے قائل ہوں جب ہم دوئیت کے قائل ہوئے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اجزاء کے قائل ہوں۔جب اجزاء کو مان لیا تو  یہ اللہ  کو نہ پہچاننے کی علامت ہے۔یہاں سے پتہ چلا کہ جسے شروع میں توحید کو سمجھنے کا دعوی کیا گیا تھا وہ درست نہیں ہے اور انسان کو خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوئی۔

ائمہ اہلبیتؑ کی دیگر روایات بھی یہی نتیجہ دیتی ہیں بالخصوص وہ دعائیں جو ائمہ سے منقول ہوئی ہیں ان میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔صحیفہ سجادیہ میں امام زین العابدینؑ سے منقول  دعا کے الفاظ کو پڑھیں تو اسی عقیدے کا پتہ چلتا ہے۔

"أَنْتَ الَّذي لا يَحْويك مَكانٌ، وَلَمْ‏ يَقُمْ لِسُلْطانِك سُلْطانٌ، وَلَمْ يُعْيِك بُرْهانٌ وَلا بَيانٌ، أَنْتَ الَّذي‏أَحْصَيْتَ كُلَّ شَي‏ء عَدَداً، وَجَعَلْتَ لِكُلِّ شَي‏ء أَمَداً، وَ قَدَّرْتَ كُلَ‏ شَي‏ء تَقْديراً، أَنْتَ الَّذي قَصُرَتِ الاْوْهامُ عَنْ ذاتِيَّتِك، وَعَجَزَتِ ‏الاْفْهامُ عَنْ كَيْفِيَّتِك، وَلَمْ تُدْرِك الاْبْصارُ مَوْضِعَ أَيْنِيَّتِك، أَنْتَ الَّذي‏لا تُحَّدُّ فَتَكُونَ مَحْدُوداً، ولَمْ تُمَثَّلْ فَتَكُونَ مَوْجُوداً، وَلَمْ تَلِدْ فَتَكُونَ‏ مَوْلُوداً"

تو وہ ہے جسے کوئی گھیرے ہوئے نہیںہے اور نہ تیرے اقتدار کاکوئی اقتدار مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ تو دلیل و برہان اور کسی چیز کو واضح طور پر پیش کرنے سے عاجز ہے۔تو وہ ہے جس نے ایک ایک چیز کو شمار کررکھا ہے اور ہر چیز کی ایک مدت مقرر کر دی ہے اور ہر شے کا ایک اندازہ ٹھہرادیا ہے۔تو وہ ہے کہ تیری کنہ ذات کو سمجھنے سے واہمے قاصر اور تیری کیفیت کو جاننے سے عقلیں عاجز ہیں او رتیری کوئی جگہ نہیں ہے کہ آنکھیں اس کا کھوج لگا سکیں۔تو وہ ہے کہ تیری کوئی حد و نہایت نہیں ہے کہ تو محدود قرار پائے اور نہ تیرا تصور کیا جاسکتا ہے کہ تو تصور کی ہوئی صورت کے ساتھ ذہن میں موجود ہوسکے اور نہ تیرے کوئی اولاد ہے کہ تیرے متعلق کسی کی اولاد ہونے کا احتمال ہو۔

اس دعا میں امام ؑ نے فرما دیا ہے کہ عقل  کی اس تک رسائی نہیں ہے اسی طرح عقل اس کی صفات اور  ذات کو جاننے سے عاجز ہے اس طرح کہ کوئی چیز خدا کا احاطہ نہیں کر سکتی  اور موجودات میں سے کوئی چیز اس کی مثل نہیں ہے۔

درست غور و فکر اور ان  دینی نصوص کی روشنی میں اس نتیجے تک آسانی سے پہنچ جاتے ہیں کہ  اللہ تعالی کی ذات حق اس سے بہت بلند ہے کہ انسانی عقل  اس کو کسی وصف سے موصوف کرے۔اس بات کا بھی پتہ چلا کہ  صفت کو   اللہ کے ساتھ موصوف کرنا درست نہیں ہے کیونکہ کسی بھی صفت سے موصوف ہونا یہ موجودات ممکن کی خصوصیات میں سے ہے۔اب یہاں پر ہمارے سامنے یہ بات بچ جاتی ہے کہ مولی نے خود قرآن میں اپنے آپ کو صفات سے متصف کیا ہے اور بہت سی احادیث موجود ہیں جن میں خدا کو صفات سے متصف کیا گیا ہے۔

اس کی تفسیر میں ہم یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں  خود کو انسانوں کو  پہچنوایا ہے۔  یہ نقص  یونی صفت کے ذریعے پہچان کراناایک طرح سے خود انسان کی وجہ سے ہے۔اس کی ایک جہت لغوی نظام کی کمزوری بھی ہے  جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اور مولی انسانوں سے کلام انہی کی زبان میں کرتا ہے۔انسان کا یہ عجز دو طرح کا ہے:

 انسانی کمزوری:اس کمزوری کی وجہ انسان کا چیزوں کو درک کرنے کا نظام ہے۔انسانی عقل کے لیے کسی بھی ایسے وجود خارجی کو جو جوھرا یا عرضا اس کے مقولات میں سے نہ ہو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔جو بھی انسانی عقل کے مقولات سے خارج ہے عقل کے لیے  اس کا تصور کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

انسانی ناتوانی:انسان عملی آثار مرتب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جیسے رابطہ قائم کرنا اور تسلیم کرنا۔کسی ممکن کے لیے یہ کسی بھی طرح سے اسے پہچاننا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ انسان کی  نسبت یہ چیز مجہولات میں داخل ہے جسے وہ جان ہی نہیں سکتا ہے۔

جہاں تک لغوی نظام کی محدودیت کی بات ہے یہ در اصل معانی اور مفاہیم کی محدودیت کی طرف پلٹتی ہے کیونکہ مادہ ہی فکر انسانی کو حرکت دیتا ہے۔یہ محدودیت اس لیے بھی ہے کہ یہ نظام انسانوں کا بنایا ہے اس لیے یہ اسی عالم موجود تک محدود ہے اس لیے وہ خدا جو اس عالم سے دیگر عالم کے حقائق کو بھی جانتا ہے اس کا بنایا نہیں ہے۔انسان اس عالم کے مفاہیم  کو سمجھتا اور سمجھاتا ہےیہ  سب کے سب اس عالم امکان سے مربوط ہیں۔

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں انسان سے اللہ کا تعبد ممکن ہے اور مکلف پر  اس تعبد کے آثار بھی  مترتبت ہوتے ہیں۔انسانی عقل بھی  اس طبعی نظام کے مطابق حرکت کرتی ہے۔لغوی نظام بھی اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ عبد اور مولی کے درمیان رابطہ کرا سکے۔صفات سے اچھا کوئی طریقہ نہیں پایا جاتا جن کے ذریعے مولی انسان اور زبان میں موجود نقص کی موجودگی میں  انسان سے گفتگو کرے۔اگر ہم اس طریقے پر غور و فکر کریں جس کے ذریعے  انسان اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرتا ہےتو معلوم ہو گا کہ سب سے بہترین طریقہ جس کے ذریعے سے کم ترین غلطیوں کے سے ساتھ  بتایا جا سکتا ہے تو وہ طریقہ صفت ہی ہے۔یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ انسانی عقل کے لیے صفت کو جاننا آسان ہے اور یہ کہ  کنِ حقیقت کو جاننا بہت مشکل ہے۔

اسی لیے مولی نے صفات  کا ذکر کیا تاکہ بنی نوع انسان کو حقیقت کے قریب کرے۔یہاں ایسا رابطہ بھی موجود ہے جو اس  بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کے عملی آثار بھی ہوں کیونکہ ہم جس مورد بحث میں ہیں اس میں کمزوری موجود ہے۔اللہ تعالی نے اپنی حکمت اور عدل کے ساتھ حکم دیا ہے کہ انسان کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ذات پر ایمان  اور عدم ایمان کو اپنی مرضی سے چنے۔اللہ تعالی نے اس دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے جہاں ہر چیز سبب و مسبب کے رشتے میں جکڑی ہے اگر ایسا نہ ہو تو مولا اس کے علاوہ بھی کوئی طریقہ ایجاد کر سکتا ہے  جس کے ذریعے ہمیں خود کا تعارف کرا دے۔جیسے ہماری فطرت اور جبلت میں ہی یہ رکھ دیتا کہ سب اس پر ایمان لے آئیں،اسی طرح ہر بندہ اس کا اطاعت گزار رہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دونوں امور کی طرف اشارہ کیا ہے: (وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ) (يونس ـ99)

اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے: (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلاَّ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (3) إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّن السَّمَاء آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ(4))(الشعراء ـ 3-4)

شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں ۔

اہلبیت ؑ کا بھی یہی طریقہ تھا وہ بھی اللہ تعالی کی ذات میں غور و فکر  سے منع کرتے تھے کیونکہ انسانی عقل ذات خدا میں  تدبر کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔جو بھی تصور انسانی عقل میں آتا ہے اس کا اللہ تعالی سے کوئی تعلق نہیں ہے  وہ ا س کا غیر ہے۔ائمہ اہلبیتؑ نے ذات خدا میں غور و فکر سے منع کیا ہے وہ ان بڑے مفاسد سے بچنے کے لیے ہے  جو اللہ کی بے نیاز ذات میں  فرض  کر لیے جاتے ہیں۔یہی مفاسد جو اپنے توہم سے حاصل ہوئے ہیں انہیں کو حقیقت توحید سمجھ لیا جائے گا۔یہ توحید دین کی اساس ہے۔

ائمہ نے نہی کی ہے کہ ذات خدا میں غور نہ کیا جائے انہوں نے لوگوں کو واردار کیا کہ  وہ صفات خدا  میں غور و فکر کریں ۔ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا کہ یہ صفات ایسی نہیں ہیں جیسی ممکن الوجود کی صفات ہوتی ہیں۔اسی طرح ائمہ نے اللہ تعالی کی صفات کمالیہ سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے اور ان صفات کی اللہ تعالی سے نفی کی جن کے ذریعے ذات خدا میں کوئی نقص پیدا ہوتا تھا۔ان صفات کی اللہ کی طرف نسبت دینے میں یہ شرط رکھی کہ یہ بدون کیف ہوں گی۔ائمہ نے لوگوں کو اللہ تعالی کے راستے کا طالب بنایا کہ وہ صفات کے ذریعے اس تک غور و فکر کے ذریعے پہنچ جائیں۔یہ معرفت خدا کا ایسا طریقہ ہے جس  کے ذریعے بہت انسان گمراہی اور ضلالت سے بچ جاتے ہیں ایسا نہ ہوتا تو بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے۔اس تمام سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے رب کی معفرفت ہو جائے ایسی معرفت جس کے ذریعے انسان  عمل کی طرف آ جائے اسے ہم تکلیف شرعی سے تعبیر کرتے ہیں۔اس سے ہمارا مقصد یہ ہوتاہے کہ ہم انسانی زندگی کو بے دین  ہونے سے بچائیں یہ وہ گہری کھائی ہے جس میں انسان اپنے مولی سے جاہل رہتا ہے۔ہر اس  چیز  پر غور  وفکر کیا جاتا ہے جس کے ذریعے رب اور عبد میں رابطہ قائم ہوتا ہے۔جب اہلبیتؑ نے ذات و صفات میں دوئیت والی مشکل کو دیکھا  اور وہ یہ جانتے تھے کہ انسانی عقل کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی ذات کی معرفت حاصل کر سکے۔اس کے ساتھ ساتھ  کسی بھی صفت کی نسبت مولی کی طرف حقیقت میں منطبق ہی نہیں ہو سکتی۔اسی لیے جب لوگوں نے ائمہ سے سوالات پوچھے تو انہوں نے مختلف لوگوں کو مختلف جوابات دیے ان جوابات  پر غور و فکر کیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ  ائمہ نے مسکت جوابات دیے اور ان  کے جوابات اس قاعدہ کے مطابق تھے:

«أُمرنا بأنّ نخاطب النّاس على قدر عقولهم»

ہم حکم دیتے ہیں کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔

مندرجہ بالا مطالب کا خلاصہ

ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات  اس کائنات میں موجود موجودات کے نظم اور ان کے  قوانین سے باہر ہے۔ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ صفت کو مولی  پر اسی طرح لانا جیسے یہ انسانوں کے لیے آتی ہے یہ کمال توحید کے خلاف ہے۔اسی طرح ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ ذات خدا میں غور کرنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح اگر  صفات کے راستہ کو بھی بند کر دیا گیا تو بھٹکنے کا خطرہ ہے۔

اس کے بعد ہم  اس تلخیص کی طرف آتے ہیں کہ  ہم صفات کے ذریعے  اللہ  تعالی کی معرفت حاصل کریں۔یہ ایسے نہیں ہے  کہ مولی کے لیے واقع اور حقیقت میں صفات ہیں بلکہ  اللہ کی ذات  اس سے بلند ہے کہ اس کی کوئی صفت لائی جائے ۔ اس کی وجہ بہت ہی واضح ہے کہ اللہ کی ذات اور صفات ایک ہی ہیں  اورذات و صفات میں دوئیت کا ادراک کرنے میں انسانی عقل قادرنہیں ہے کیونکہ  عقل اس وقت سمجھتی ہے جب ذات و صفات میں تغایر ہو اور یہ دراصل  عقلی مسئلہ  ہے۔عقل  ان صفات  کا اداراک کر سکتی ہے جو ممکنات کی صفات ہوں ۔یہ صفات جو ذات سے الگ ہوتی ہیں ان کا تعلق فقط اورفقط ممکنات سے ہے۔ممکنات وہ مخلوقات جو باہر دنیا میں موجود ہیں، صفات  عقل کے لیے آئینہ کا کام کرتی ہیں جو باہر موجود ممکنات  کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہ محض عقلی اعتبار ہی ہو بلکہ اس کے لے خارج میں وجود  ہوتا ہے۔ایسا سوچنا بھی مولی کے وجود کے بارے میں  ممکن نہیں ہے کیونکہ مولی کا وجود ان قوانین کے دائرہ کار سے باہر ہے  جو قوانین عقلی اور خارجی ممکن  وجود میں جاری ہوتے ہیں۔
یہاں سے وہ معنی واضح ہو جاتا ہے جس کی صراحت ائمہ  فرماتے ہیں جب وہ کہہ رہے ہوتے ہیں  کہ اللہ کی صفات اس کی عین ذات ہیں در اصل وہ ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہے ہوتے ہیں کہ  ذات و صفات  کی کثرت اس کثرت کی طرف پلٹتی ہے جو  خارج میں موجود  ممکن جو واقع  ہے سے عقل کو حاصل ہوتی ہے  ۔اس لیے  ہمیں توجہ کرنی چاہیے کہ جب مولی کی حقیقت کی بات ہوتی ہے  تو عقل  کے پاس ذات و صفات  میں کثرت موجود ہے اس لیے  ہم دھوکہ نہ کھائیں اور وہم نہ کریں کہ  جب مولی کے بارے میں بات ہوتی ہے تو بھی صفات و ذات میں کثرت پائی جاتی ہے جو باہمی طور پر متغایر بھی ہے جیسے خارج میں موجود وجودذات ممکنہ میں یہی ہے۔مولی کی صفات اور ذات حقیقت میں ایک ہے ۔

عقل بالکل درست حکم لگاتی ہے کہ صفت اور ذات عقل اور خارج میں   دو متباین اور متغایر چیزیں ہیں یہ سب اس وقت ہے جب ہم عالم ممکنات کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بات کرتے ہیں۔جب عقل  مولی کی حقیقت کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو  ذات و صفات صرف عقل میں متغایز اور متباین ہیں  جہاں خارج میں ذات اور صفات کی بات ہو گی تو  وہ دونوں ایک ہی  ہیں اور ان دونوں میں  کثرت نہیں ہے بلکہ وحدت پائی جاتی ہے۔ذات اور جب بات مولی کی حقیقت کی ہو صفت دونوں ایک ہی  ہیں ۔

یہاں ہم نے اس معنی کو سمجھ لیا جس طرف ائمہ اہلبیتؑ نے رہنمائی کی ہے  ہم سرگردانی سے بھی بچ گئے اور مرکب ہونے میں بھی نہیں پڑے۔یہ جواب بھی کافی ہے کہ حقیقت مولی  ان عقلی اور خارجی قوانین سے بلند ہے اور یہ ضابطے اس میں جاری نہیں ہوتے۔

وہ جواب میں  مکالمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  بجائے جواب دیتے  یہ کہا جا رہا ہے کہ عقل  اس طرح کے معاملات کو سمجھنے سے ہی عاجز ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انسان کے سامنے اس طرح سے یہ مسئلہ پیش کیا جائے کہ وہ  اس کو سمجھ لے اور  مولی سے نا شناسا نہ  رہ جائے اور مولی کو اپنے خیالات اور ظاہری دھوکے کے ساتھ نہ مانتا رہے جس کی بنیاد اس  کا عقلی نظام ہو گا۔

ہم ان سے کہیں گے وہ صفت جو ذات سے آئینہ بن رہی ہوتی ہے وہی عین ذات ہے یہ ممکنات میں صفت کے آئینہ بننے  کی طرح نہیں ہے اور یہ بات واضح ہے کہ مولی کی حقیقت بڑی ،اعلی اور ارفع ہے کہ اس کی صفت لائی جائے یا اس کی تعریف کی جائے۔پس یہ صفات صرف ادوات کی طرح ہیں جن کو سمجھانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے کیونکہ انسان میں محدودیت ہے کہ وہ اللہ کی ذات  کو پہچان سکے۔اسی پہچان پر ہی تمام شرعی تکالیف موقوف ہیں۔اس جواب کے ساتھ ہی ہم نے دوئیت کے مسئلہ کو حل کر لیا،  مرکب ہونا جو عقلی نظام کے تحت فرض کرنا پڑتا تھا وہ  مولی کے بارے میں فرض نہیں کیا جا سکتا۔ترکیب اس لیے فرض نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کی بنیاد انسانی عقل ہے جس نے خارج میں موجود موجود ممکنہ کے سمجھنے کے لیے قوانین بنائے ہوئے ہیں  یہ قوانین  اس عالم میں جاری نہیں ہوتے جو عالم عالم امکان سے آگے ہے۔