- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


عالمی نجات دہندہ کا انتظار
12 صفر 1443هـ

قدیم تہذیبیں جیسے عراق کی تہذیب،فرعونی تہذیب،زرتشتی تہذیب یہاں تک کہ انسان کے بنائے ادیان بھی اور آسمانی ادیان بھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دنیا ایک دن ختم ہو گی اور ایک انتہائی پاک باز مخلص شخصیت آئے گی جو انسانیت کو سربلند کرے گی۔اس کے زمانے میں خیر کو شر پر غلبہ ملے گا،روشنی اندھیرے پر غالب آئے گی اور تمام انسانوں کے درمیان عدل و مساوات کا دور دورہ ہو گا۔

اسی طرح تمام انسانی نظاموں والے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کام ایسے انسان کے ذریعے ہو گا جو انسان کامل ،فوق العادہ اور خدا کی طاقت کا تائید یافتہ ہو گا جو اس دنیا میں اپنا نظام نافذ کرے گا۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام انسانی میراث اس فکر پر متفق ہے۔اس حوالے سے ہر تہذیب میں کچھ کہانیاں اور روایات معروف ہیں جن میں لوگ ظلم ،معاشی ناہمواری سے مایوس کن نفسیاتی عوامل سے متاثر ہیں۔ان کہانیوں اور معاشرے میں موجود مسائل نے نجات دہندہ کے ذریعے امید کو زندہ رکھا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمام انسان حالات کی ناہمواری اور معاشی مسائل سے نکل سکیں وہ امید رکھتے ہیں کہ اس کے ذریعے  وہ آزمائش سے نکلیں گے،انہیں اس سے حوصلہ ملتا ہے کہ جس ظلم و جبر کے ماحول میں وہ رہ رہے ہیں انہیں اس سے آزادی ملے گی۔ہمیشہ سے حق و باطل کی جنگ رہی ہے متناقضات جیسے خیر و شر،نور و ظلمت اور حق و باطل ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔

اس لیے یہ اصولی طور پر  اتفاق رکھتے ہیں اور تمام انسانی تہذیبوں میں اس پر اتفاق ہے حالانکہ ان تہذیبوں کے درمیان زمینی اور زمانی فاصلہ بہت زیادہ ہے۔یہ اس بات کی تائید ہے کہ ایک منجی کی ضرورت ہے اور اس کے بارے میں سوچنا یہ انسان کی فطری ضرورت ہے۔انسان میں یہ امید موجود ہے اور آج کے انسان کا وجدان بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امتوں میں حالات ایک سے رہے ہیں اور زمانوں میں اختلاف کے باوجود تمام کی تکالیف ایک جیسی رہی ہیں۔

چنانچہ تینوں آسمانی ادیان اور دیگر بت پرست ادیان سب کے سب ہمیشہ سے ایک مخلص منجی کے ظہور کے منتظر ہیں۔یہ ایک صالح آدمی ہو گاجو لوگوں کو ظالموں اور مفسدوں سے نجات دلائے گا۔

بہت سے شک کرنے والے آخری زمانے میں ایسے کسی بھی مصلح کے آنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ محض ایک وہم ہے جو اقوام و شعوب میں پایا جاتا ہے۔اور یہ کہ اس نظریہ سے مصیبت کا شکار لوگوں میں ایک امید پیدا ہوتی ہے ورنہ یہ ایک عام سی بات ہے جس میں نجات دہندہ کے بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔نجات دہندہ  کے بارے میں ہر  ایک اپنے عقیدے کے مطابق سوچتا ہے۔ اگرچہ اس کا کردار،اس کے حالات اور اس کے کام کرنے کا طریقہ  سب کے ہاں الگ الگ ہے مگر ایک بات پر سب متفق ہیں کہ ایک نجات دہندہ آئے گا۔اس پر دینی نصوص دلالت کرتی ہیں۔ یہودیت،مسیحیت اور اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  یہ الہی نمائندہ ہو گا ،اس کے ذریعے زمانے کے طاغوتوں کا قلع قمع کیا جائے گا اور وہ انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے گا۔اس کی حکومت کے دوران زمین خیر سے بھر جائے گا  اور زمین کی جو وراثت متقین کے لیے ہے وہ انہیں مل جائے گی۔

آسمانی اور انسانی ادیان میں نجات دہندہ

مشرقی تہذیبیں اس حوالے سے جانی جاتی ہیں کہ یہ غیب اور پوشیدہ امور کو تلاش کرتی ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتی ہیں۔یہ نجات دہندہ جس کے بارے میں کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے تخیل کا سہارا لیا گیا ہے۔اس نجات دہندہ کے ذریعے  ظلم و انصافی سے نجات ملے گی۔نجات دہندہ کا تخیل  سب سے پہلے زرتشتی مذہب کے زورسٹر نے پیش کیا تھا۔اسی طرح دیوتا آمون فرعونوں کے ساتھ ،یہودیوں میں یودقا نجات دہندہ ہے جو بنی اسرائیل کے دشمنوں سے جیت جائے گا۔مسیحیوں میں حضرت مسیح کو گناہوں اور غلطیوں سے انسانیت کا نجات دہندہ مانا جاتا ہے جنہوں نے خود کو فدیہ کر دیا۔

اسلام میں نجات دہندہ کا تصور

مسلمانوں کا نجات دہندہ کے بارے میں تصور کوئی اضافی اور غیر ضروری تصور نہیں ہے  کہ اس کا اصل وجود تو نہیں ہے بس خیالات میں اسے بنا لیا گیا ہے۔جیسا کہ  کافروں کا عقیدہ ہے وہ اس کا عقیدہ نہیں رکھتے جیسا کہ بعض شک کرنےو الے یہ عقیدہ نہیں رکھتے۔وہ استبداد اور ظلم کے ذریعے سے  نجات دہندہ کی فکر کو ختم کر دیتے ہیں اور اپنے چھوٹے نظریات بتاتے ہیں۔حالانکہ ان لوگوں کو خود نجات دہندہ کے آنے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوتا بلکہ یہ آنے کا یقین رکھتے ہیں قرآن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ )الصف ۹)

وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو ناگوار گزرے۔

یہ وعدہ درحقیقت  اللہ تعالی کا حکم ہے کہ ظہور ہو گا اور یہ خوشخبری باقی ادیان کی نسبت دین اسلام ہے۔یہ ظہور ایک قائد کا  محتاج ہے جو اس کے ہاتھ پر ہو جس کا وعدہ کیا گیا ہے اس لیے امام مہدیؑ وہ قائدو نجات دہندہ اور امام ہیں جن کو اللہ نے عدل الہی پر مبنی حکومت کے قیام کے لیے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔اللہ انہیں آخری زمانے میں کمزوروں اور محکوموں کے لیے ایک عطیہ کے طورپر ظہور دے گا  تاکہ نیک و محکوم  بندے زمین کے وارث بن جائیں قرآن مجید فرماتا ہے:

وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (القصص ۵ )

اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔

اس بہت ہی اہم معاملے پر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ نجات دہندہ  کیسا ہو گا؟ اس پر احادیث متواتر ہیں چنانچہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:۔۔نو حسینؑ کی اولاد میں سے ہوں گےنواں میری امت کا قائم ہوگا،یہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک فرمان میں بھی نجات دہندہ کا ذکر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ ان میں سے نواں میری اہلبیت کا قائم ہو گا ،میری امت کا مہدی ہو گا،وہ لوگوں میں سب سے زیادہ شمائل ،اقوال اور افعال میں میرے مشابہ ہو گا۔وہ ایک طویل غیبت ،گمراہ کردینے والی حیرت کے بعد آئے گا۔وہ اللہ کے حکم کا اعلان کرے گا،اللہ کے دین کو غالب کرے گا،اسے اللہ کی نصرت کی تائید ہو گی،اللہ کے ملائکہ اس کے مددگار ہوں گے اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح  بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔