نبی انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالی عہدہ نبوت کے لیے چنتا ہےتاکہ وہ لوگوں کو تبلیغ رسالت کرے۔وہ کھانا کھاتا ہے،بازاروں میں چلتا ہے،عورتوں سے نکاح کرتا ہے اور بہت سی صفات میں عام انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے اور یہی اعلی صفات انہیں دوسرے انسانوں سے الگ کرتی ہیں ایک اہم صفت عصمت ہے جس کے ذریعے ان کی بات تسلیم کیا جاتی ہے یعنی وہ جو کچھ اللہ سے لیتا ہے بغیر کمی بیشی کے اسے پہنچا دیتا ہے۔اسی لیے اس کی اطاعت ضروری ہوتی ہے اور اس کی باتوں کی تصدیق کی جاتی ہے۔امانت ،صداقت،حسن خلق اور اس جیسی دیگر صفات حسنہ ان میں موجود ہوتی ہیں۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب وہ مکہ میں تھے یہ تمام صفات موجود تھیں اور اہل مکہ آپ کو ان صفات کے ساتھ پہنچانتے تھے۔اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عہدہ نبوت عطا کیا تھا اس لیے آپ میں یہ اعلی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔
اللہ کے نبی ان عظیم اور زبردست صفات کے حامل تھے یہ خصوصیات صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاضت اور کوشش کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کا خاص کرم اور لطف تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ صفات عطا کی گئی تھیں۔یہ صفات حسنہ اس لیے بھی ضروری ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی طرف سے خبر دینے والے تھے اس لیے ضروری ہے کہ ہر نا پسندیدہ صفت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہو اور کوئی برا اخلاق آپ کے پاس ہی نہ آئے جیسے جھوٹ،خیانت،ظلم اور اسی طرح کی دیگر اخلاقی برائی جو انسانی نفس میں آ سکتی ہیں آپ ان سے دور تھے۔اللہ کے نبی درجہ عصمت پر فائز تھے اور ہر قسم کی غلطی،سہو اور نسیان سے پاک تھے۔جب آپ نے اللہ کی طرف سے تبلیغ رسالت کرنی ہے تو آپ کا ان تمام سے منزہ ہونا ضروری تھا تاکہ اللہ کی طرف سے معلومات کے پہنچانے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے۔
کچھ خصوصیات ایسی ہیں جو انبیاء میں پائی جاتیں :
وحی: وحی انبیاءؑ کے ساتھ خاص ہےوحی کے ذریعے ہی نبی عالم غیب سے رابطہ کرتا ہے۔
عصمت:نبی معصوم ہوتا ہے وہ صغیرہ اور کبیرہ گناہ کے قریب بھی نہیں جاتا،وہ جھوٹ نہیں بولتا کیونکہ کوئی بھی شخص اللہ کا نمائندہ اور پیغام الہی کا ترجمان نہیں بن سکتا جو سچ نہ بولتا ہو۔
کمال:نبی ذاتی اور عقلی کمالات پر فائز ہو،جیسے ہر سہو و نسیان سے پاک ہونا یہ تبلیغ کرنے کی بنیادی ضروری ہے کہ نبی ان سے پاک ہو۔
معجزہ:نبی کے پاس معجزہ کی طاقت ہونی چاہیے تاکہ عام لوگوں کو وہ قانع کر سکے کہ انسانی قدرت سے باہر کوئی طاقت موجود ہے معجزہ کے ذریعے لوگ نبی پر ایمان لاتے ہیں اور اسی کے ذریعے نبی کی تصدیق کی جاتی ہے۔
ولایت کی دو قسمیں ہیں:
ا۔ولایت تکوینی:ولایت تکوینی سے مراد موجودات کو مسخر کرنے اور ان میں تصرف کرنے کی قدرت کا نام ہے، یعنی جس کے پاس یہ ولایت ہو گی وہ موجودات میں تصرف کر سکتا ہے انہیں مسخر کر سکتا ہے ۔یہ بات ضروری ہے کہ یہ سب اللہ کی دی ہوئی قوت سے ہو گا کیونکہ ہر چیز اللہ کی مرضی کے ساتھ ہوتی ہے اس کی دی طاقت سے ہوتی ہے۔قرآن مجید میں واضح طور پر آیا ہے کہ جس کسی کے پاس بھی یہ ولایت ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے دی ہوئی ہے یہ اس لیے بتا دیا گیا کہ لوگ شرک میں نہ پڑ جائیں۔اللہ تعالی حضرت عیسی ؑ کی زبان میں فرماتا ہے:
((وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّـهِ))(آل عمران ـ 49)
اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکهِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکهِ خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا۔
ب:ولایت تشریعی :اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف انبیاء کو تشریع کا حق حاصل ہے یعنی وہی اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ احکام خدا شریعت صحیحہ سے استنباط کریں اور اس ولایت رکھنے والے کے لیے امر و نہی کا حق حاصل ہوتا ہے اور دوسرے پر ان کی اطاعت لازمی ہوتی ہے۔
وہ انبیاء جن پر کتب اور صحف نازل ہوئے اور ان کا ذکر قرآن میں ہے وہ یہ ہیں:
۱۔حضرت نوحؑ اور ان پر نازل وحی کو قرآن نے الکتاب کا نام دیا ہے۔
۲۔حضرت ابراہیمؑ پر نازل وحی کا نام الصحف بتایا گیا ہے۔
۳۔حضرت داودؑ پر نازل کتاب زبور ہے۔
۴۔حضرت موسیؑ پر نازل کتاب تورات ہے۔
۵۔حضرت عیسیؑ پر نازل کتاب انجیل ہے۔
۶۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کتاب کا نام قرآن ہے۔