عصمت سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی قول یا فعل ایسا نہ ہو جس میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی گئی ہو۔یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے جو بھی انبیاء بھیجے ہیں سب کے سب معصوم ہوں اور اس کی چند وجوہات ہیں:پہلی تو یہ ہے کہ نبی یا رسول اللہ کے بنانے سے بنے ہیں اور یہ ہستیاں لوگوں پر اللہ کی حجت ہیں،تمام آسمانی ادیان کو ماننے والے انہی سے احکام کو لیتے ہیں،یہ قول،فعل یا تقریر کی صورت میں ہوتے ہیں،پوری تسلی سے لیتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہر قول ،فعل اور تقریر میں معصوم ہوں تاکہ ان سے احکام اعتماد کے ساتھ لے سکیں اسی وجہ سے تمام انبیاء کی عصمت کا مسلمہ عقیدہ ضروری ہے۔عصمت انبیاء کے عقیدہ پر عقلی اور نقلی ادلہ قائم ہیں ۔عصمت کی وجہ سے یہ یقین ہوتا ہے کہ جو احکام بھی بتائے جا رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں،عصمت انبیاءؑ کا ایک سبب ان بزرگ ہستیوں کو عظمتوں کا تحفظ بھی ہے کیونکہ اللہ کے چنے ہوئے پسندیدہ لوگ ہیں۔
((إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ)) (آل عمران-33)
اللہ نے آدم علیہ السّلام,نوح علیہ السّلام اور آل ابراہیم علیہ السّلام اور آل عمران علیہ السّلام کو منتخب کرلیا ہے۔
اللہ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ وہ ہستیاں جو آسمانی رسالت کا بوجھ اٹھائیں اور تمام لوگوں تک پہنچایں وہ معصوم ہونی چاہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:
((إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)) (الحجر-9)
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اسی لیے اللہ تعالی نے انبیاءؑ کو معصوم قرار دیا کہ ان کے افعال اور تقریرات پر یقین ہویعنی جو بھی ان سے صادر ہو وہ سنت حسنہ کا درجہ حاصل کر لے اور اس پر عمل کیا جا سکے ۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((.وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فانتهوا واتقوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)) (الحشر-7)
۔۔۔اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔
اللہ تعالی اس عصمت کے ذریعے یہ چاہتا ہے کہ اپنے پیغام کو ہر قسم کے نقص،تحریف اور زیادتی سے پاک رکھے اسی لیے انبیاء کو درجہ عصمت پر فائز کیا۔
انبیاء کی عصمت کے اسباب
یہ ضروری ہے کہ کچھ معتبر اسباب ہوں جن کی وجہ سے انبیاءؑ کو معصوم بنایا گیا ہو،بالخصوص اس صورت میں جب آسمانی تعلیمات نے تدبر اور فکر کی بات کی ہے۔انبیاء کی عصمت کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:
۱۔انبیاءؑ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جن کو اللہ تعالی نے تمام انسانوں میں سے چنا ہے تاکہ آسمانی پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچایا جا سکے،ان کا یہ چناو اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ لوگ برتر،پاک اور اعلی ہوں اور ان میں کسی قسم کے نقص اور عیب کا شائبہ تک نہ ہو۔اس لیے عصمت ایک حقیقت ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔اللہ سوائے معصوم کے کسی دوسرے کو اپنی پیغام کو پہنچانے کے لیے نہیں چنے گا۔
۲۔جو آسمانی شریعتوں پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ عصمت انبیاء ؑ کا عقیدہ بھی رکھیں۔ تاکہ انہیں یہ یقین ہو کہ رسول جو اللہ سے شریعت کو حاصل کر رہے ہیں وہ بغیر کسی کمی بیشی کے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔نبی اکرمﷺ سے کسی بھی قسم کے نسیان کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے:
(سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَى)) (الأعلى-6)
ہم عنقریب تمہیں اس طرح پڑھائیں گے کہ بھول نہ سکوگے۔
۳۔عصمت انبیاءؑ کا عقیدہ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں پر دلیل قائم کی جاتی کہ ایسے لوگوں کی بات کو مانیں جو اللہ سے پیغام رسالت لیتے ہیں اور بغیر کسی کمی بیشی کے پہنچا دیتے ہیں۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا)) (النساء-165)
یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحب ه حکمت ہے۔
یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ وہ شخص جو اللہ رسالت کا حامل ہے اور لوگوں پر اللہ کی حجت ہے وہ بھول جائے یا سہو کرے کیونکہ اس سے تو یہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ کوئی اہم الہی ذمہ داری بھی بھول گیا ہو اور ایسا خیال کرنا درست نہیں ہے۔
۴۔عصمت انبیاءؑ کا عقیدہ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے اللہ اپنے انبیاء ؑ کی حرمت کا تحفظ کرتا ہے کیونکہ اگر عصمت نہ ہو تو تبلیغ دین کے معاملے میں لوگ طعنہ زنی کر سکتے ہیں۔انبیاء اپنے زمانے کے پاکیزہ،برگزیدہ اور چنی ہوئی ہستیاں ہیں اللہ جو علم و تقوی میں بھی بے نظیر ہوتی ہیں۔
معصوم نہ ہونے کے نتائج
جب کوئی نبی معصوم نہیں ہو گا تو اس کے بہت سے اثرات ہوں گے وہ جو کچھ بھی لے کر آیا ہے اس کے بارے میں شک کیا جائے گا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے نہیں ؟ وہ عادل بھی ہے یا نہیں؟ اس طرح کے بہت سے اثرات ہوتے ہیں جن میں سے چند اہم یہ ہیں :
۱۔ اگر عصمت نہ ہو تو لوگوں پر حجت قائم نہیں ہو گا کیونکہ ایک غیر معصوم شخص پیغام پہنچا رہا ہے اس میں بہت سی خامیاں ہو سکتی ہیں جیسے سہو یا بھولنا اور کبھی کبھی وہ جو کہا ہے اس کے خلاف عمل کر بیٹھے گا،یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کبھی شریعت کی مخالفت کرے اور اس طرف متوجہ ہی نہ ہو کہ وہ تو بجائے شریعت بتانے کے اس کے خلاف بتا رہا ہے۔
۲۔ کوئی بھی ایسا شخص جو غیر معصوم ہے وہ ہمیشہ درست دلیل قائم نہیں کر سکے یعنی وہ لوگ اسے ہمیشہ ایمان کے راستے کے لیے راہنما اختیار نہیں کر سکتے ۔
۳۔ آسمانی شرائع کے پہنچانے میں کمی ،زیادتی اور تحریف کا امکان رہے گا کیونکہ پہنچانے والا معصوم نہیں ہے۔
۴۔ اگر نبی معصوم نہیں ہو گا تو یہ احتمال رہے گا کہ اس نے جو نقل کیا ہے وہ نامکمل ہے،ممکن ہے وہ کچھ بھول گیا ہو ۔
۵۔ یہ احتمال رہے گا کہ لوگ یہ تہمت لگائیں کہ شریعت کی باتوں میں اپنے خیالات کو شامل کر لیا ہے اس طرح تشکیک کا ایک باب کھل جائے گا۔
۶۔ یہ بھی ممکن ہے حالات سے خوفزدہ ہو کر حکمرانوں سے ڈر کر وہ شریعت کی بہت سے باتوں کو چھپا لے ۔
۷۔ جب وہ معصوم نہیں ہو گے تو یہ امکان ہے کہ وہ خدا سے شریعت لینے میں کامل نہ ہوں،اس طرح جب وہ مکمل پیغام نہیں لے سکیں گے تو وہ مکمل پیغام لوگوں تک بھی نہیں پہنچا سکیں گے اس طرح شریعت کا پیغام ناقص رہ جائے گا۔
۸۔ نبی کا معصوم نہ ہونا خود شریعت آسمانی کے آنے مقاصد کے خلاف ہے کیونکہ تمام شرائع اللہ کے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے آئی ہیں اور جب پہنچانے والا معصوم نہیں ہو گا تو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی مشکوک ہی رہے گی۔
وہ تما اعتراضات اس صورت میں ہیں جب نبی معصوم نہ ہو بلکہ ایک عام شخص لہذا یہ ضروری ہے کہ نبی معصوم ہو اسی کے ذریعے رسالت الہی بغیر کمی بیشی اور تحریف کے لوگوں تک پہنچے گی،اسی میں اللہ کے انبیاء کی حرمت کا تحفظ ہے کیونکہ انبیاء ہی شریعت آسمانی کے پہنچانے والے ہیں۔