- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام اور نسل پرستی
24 صفر 1442هـ

آسمانی ادیان کے کچھ بنیادی معتقدات ہیں جنہیں ہم ان کی بنیادیں کہہ سکتے ہیں جو ان تمام آسمانی ادیان میں مشترک ہیں۔یہ ایسی بنیادیں ہیں جن پر باقی تمام عقائد کی بنیاد ہے۔ انہی بنیادوں کی روشنی میں ہم ان ادیان کو پہچان سکتے ہیں ۔انہیں میں سے ایک بنیادی عقیدہ عدل کا عقیدہ ہے اسلام اور باقی تمام ادیان اس پر متفق ہیں اور اسلام بھی اسی کا قائل ہے۔اس عقیدے کا محرک اللہ تعالی کی ذات ہے جو عادل اور حکیم ہے۔اللہ نے عدل کو اپنے اسما میں قرار دیا اور خود ہمیشہ عدل کرتا ہے۔

 دین اسلام جو آخری دین ہے عدل اس کےاصول دین میں داخل ہے،اسی لیے کہا گیا کہ عدل کا ادیان اور بالخصوص دین اسلامی سے گہرا تعلق ہے۔اس دنیا کا اصل مقص  انسان ہے ۔عقیدہ توحید دین اسلامی کا منفرد عقیدہ ہے  جس پر قرآن مجید کی  آیات محکمہ دلالت کرتی ہیں جو بھی  ان آیات قرآنی  کی تلاوت کرتا ہے وہ فورا اس عقیدہ تک پہنچ جاتا ہے۔ان آیات کے ذریعے  اسلام کے بنیادی  نظریات کی وضاحت ہوتی ہے۔

ان سب کی بنیاد پر یہ بات واضح ہے کہ اس کائنات کا مقصد اصلی انسان ہے،دین اسلام جو کہ آخری دین ہے یہ تمام انسانیت کا دین ہےاس میں ہر عاقل مخلوق شامل ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے۔قرآن مجید کی آیات اس پر دلالت کرتی ہیں اور اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔اللہ تعالی نے انسان کو کسی نسل و قبیلہ کی  تفریق کے بغیر ایک ہی مادہ سے پیدا کیا ہے اور وہ مٹی ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ(سورہ المومنون۔۱۲) اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا۔

ہر انسان  بغیر کسی شرط و قید  کے محترم ہے انسانوں کے خالق نے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ(سورہ التین۔۴) بتحقیق ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔

اس کائنات کی ہر چیز اس کی خدمت کے لیےمسخر کر دی گئی ہے اس کی جنس و رنگ میں  کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔انسانوں  کے درمیان مساوات ہے ان کے خالق کی طرف سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے یہ خالق  کے  نظام کا حصہ ہے وہ عدل کرتا ہے۔یہ برابری اصل تخلیق میں ہےاسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جو اللہ تعالی نے علم و تقوی کی بنیاد پر لوگوں کو فضیلت دی ہے۔اللہ تعالی کا عادل ہونا صرف اس دنیا میں محدود نہیں ہے کہ صرف اسی دنیا میں ایسا ہوتا ہو کہ یہ دنیا امتحانوں کی جگہ ہے ۔یہ عدالت یوم آخرت اور حساب کے دن بھی جاری ہو گی۔جب اللہ تعالی  حساب کے وقت  کسی تخلیق کے فرق یا حسب نسل کے فرق کی بنیاد پر نہیں دیکھے گا اس کی دلیل قرآن مجید  کی آیت مجیدہ ہے: )فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡن((سورہ المومنون۔۱۰۱)

پھر جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو ان میں اس دن نہ کوئی رشتہ داری رہے گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

تخلیق کے ساتھ ہی جنگل کا طریقہ کار  انسانی تعلقات میں اثر انداز ہوا ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ یہی قوانین انسانوں پر حاکم ہیں ۔زور و قبضے کی پالیسی ہی ہے جس نے انسانوں کے درمیان نسل کی بنیاد پر تعلقات میں تفریق پیدا کی ہے۔اس طرح کہ فلاں شخص کی جنس  اعلی ہے وہ دوسری جنس سے خود کو بڑا بنا لیتا ہے یوں دوسری جنس  اس کے زیر قبضہ آ کر غلامی کرتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان رنگ کی بنیاد پر  تفریق پیدا کی جائے  گورے رنگ والے کالے رنگ والوں کو غلام بناتے ہیں اور ان سے نوکروں کی طرح خدمت کرواتے ہیں۔یہ بہت ہی بری بات ہے کہ صرف اس وجہ سے انسانی کرامت سے کسی کو نیچے گرا دینا اور اسے غلام بنا لینا فقط اس وجہ سے کہ اس کا رنگ  مختلف ہے  انسانیت سے گرنے والی بات ہے۔اسلام نے اس قسم کے قدیم موجود غلط رسم و رواج اور   تاریخی طور پر چلے آتے طریقہ کار  کے ساتھ مقابلہ کیا ہے جو کہ ماضی قریب تک جاری رہا۔اسلام  نے ابتدا سے ہی  ایسے نطریات سے جنگ کی ہےاسی طرح عالم عربی جہاں اسلام آیا ہے یہاں  بھی اسلام ان غیر منصفانہ اصولوں سے لڑا ہے۔خطہ عرب براعظم افریقہ کے قریب ہے یہیں سے لوگوں کو غلام بنا بناکر  بھیجا جاتا تھا،عرب معاشرہ اس طریقہ کار سے بہت متاثر ہوا تھا۔اس معاشرے میں غلام خریدے اور بیچے جاتے تھے عورتیں اور مرد ایسے فروخت ہوتے تھے جیسے  کوئی خرید و فروخت والی جنس ہوں۔اسی لیے ان غلاموں کی خرید و فروخت کے لیے الگ الگ بازار تھے اس میں انہیں فروخت کیا جاتا تھا۔قرآن مجید نے حضرت یوسفؑ کے قصہ میں  غلاموں کی خرید وفروخت کے معاملات کو بیان کیا کہ یہ قدیم طریقہ تھا۔اس میں بتایا گیا ہے کہ  کیسے حضرت یوسفؑ اندھیرے کنویں میں  تھے،اسی طرح کیسے  مصر کے بازار میں عزیز مصر کو فروخت کیے گئے؟  اور کیسے پہلے انہیں  انتہائی کم درھموں کے بدلے بیچا گیا تھا؟

 قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:)وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۹﴾وَ شَرَوۡہُ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ دَرَاہِمَ مَعۡدُوۡدَۃٍ ۚ وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ۲۰ وَ قَالَ الَّذِی اشۡتَرٰىہُ مِنۡ مِّصۡرَ لِامۡرَاَتِہٖۤ اَکۡرِمِیۡ مَثۡوٰىہُ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا ؕ (سورہ یوسف۔۱۱،۱۲)

پھر ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنا سقا بھیجا جس نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا (تو یوسف آویزاں نکلے) وہ بولا: کیا خوب ! یہ تو ایک لڑکا ہے اور انہوں نے اسے تجارتی سرمایہ بنا کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔۱۹ اور انہوں نے یوسف کو تھوڑی سی قیمت معدودے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور وہ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے۔۲۰اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: اس کا مقام معزز رکھنا، ممکن ہے کہ وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔۲۱

عورتیں  خرید وفروخت سے بچیں ہوئی نہیں تھی  بلکہ ان کا حصہ مردوں سے زیادہ تھا۔مختلف تہذیبوں اور جنگوں کے ذریعے مختلف بادشاہوں کے آنے، غرض ہر زمانے میں خطہ عرب کا غلامی کے اس  نظام میں ایک حصہ رہا ہے۔اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جو جنگیں ہوتی تھیں جن کے نتیجے میں سرداریاں ملا کرتی تھیں،اس وقت کا معاشرتی نظام جو عورتوں کے خلاف تھا اور وہ سردار کو یہ حق دیتا تھا کہ وہ ان کو جب چاہیں  خریدیں ،جب چاہیں بیچیں اور جب چاہیں ان میں سے کسی سے شادی کر لیں  عورتوں کی حیثیت  کسی بھی مال  کی طرح تھی۔

نسلی امتیاز کے بارے قرآن کیا کہتا ہے؟

رنگ اور نسل کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان  تفریق کی  فطرف سلیم انکار کرتی ہے اور عقل بھی اس پر سوال اٹھاتی ہے۔اسلام عقلی اور فطری دین ہیں قرآن مجید  کی آیات  رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق کی نفی کرتی ہیں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:)فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ)(سورہ روم ۔۳۰)

پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اسی لیے  قرآن نسلی امتیاز کا انکار کرتا ہے کہ بنیادی  چیز جس پر ہر چیز کا دارو مدار ہے وہ عدل ہےنسل پرستی سے یہ انکار آج کل پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ پہلے دن سے ہے۔قرآنی آیات اس کی تاکید کرتی ہیں کہ انسان کی اصل خلقت ایک جیسی ہے جس کی وجہ سے ان کے درمیان فرق کرنا درست نہیں ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:)خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّار((سورہ الرحمن۔۱۴) اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کے خشک گارے سے بنایا۔

اسلام نے تخلیق انسان کے بعد ان میں  فضیلت کی بنیاد علم اور تقوی پر رکھی ہے اور امتحان میں کامیابی پر رکھی ہیں قرآن مجیدمیں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:) الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ((سورہ ملک۔۲)

اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان پر تمام  دلیلیں قائم کر دی ہیں کہ  انسان کے پاس کل قیامت کے دن  کوئی دلیل نہ ہو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:)قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ((سورہ انعام۔۱۴۹)

کہدیجئے: اللہ کے پاس نتیجہ خیز دلائل ہیں،پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (جبراً) ہدایت دے دیتا۔

قرآن میں کسی بھی جگہ پر رنگ اور نسل کی بنیاد پر نسل پرستی کی کوئی گنجائش موجود نہیں  سب اس کے بندے ہیں اور وہ سب کا خالق ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:)يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ((سورہ الحجرات۔۱۳)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔

قرآن مجید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ رنگ و نسل کا مختلف ہونا ایک حکیم پیدا کرنےو الے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے یہ فطرت ہے جس پر اس نے یہ تخلیق کی ہے ۔یہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ اختلاف ایک تکوینی امر ہےاس میں کسی اختلاف کی وجہ سے کسی ایک کو دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:)وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ((سورہ روم ۔۲۲)

اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

کسی انسان کو یہ اختیار کیسے حاصل ہے؟  چاہے وہ کوئی بھی ہو کہ خدا کے قوانین کے خلاف جائے اور ایسے قوانین کو بنائے جو اس جیسے دوسرے لوگوں کے خلاف ہوں؟ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ  نسل پرستی کی ساری بحث تخلیق کے مراحل سے بعد کی ہے۔اللہ تعالی نے انسان کے شرف و عزت کا جو معیار طے کیا ہے وہ  ایمان او رعمل صالح ہے۔قرآن مجید میں اس کی طرف واضح اشارہ موجود ہے جو اس پر دلیل ہے ارشاد باری ہے:)إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَـٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ(( سورہ البینہ ۔۷)  جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے یقینا یہی لوگ مخلوقات میں بہترین ہیں۔

اللہ سے قریب ہونے کا  طریقہ  معنوی ہے اور وہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھنا ہے  اور اسی طرح نبی اکرمﷺ کے ذریعے جو کچھ شریعت کی صورت میں آیا ہے اس پر ایمان رکھنا ہے۔اس ایمان کو عمل صالح کے ساتھ ملانا ہے اسلام میں انسانیت کے ساتھ اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔اسلام میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ اس نسل  یا اس جنس کو  دوسری پر کسی قسم کی برتری حاصل ہے یا کسی سے کم ہے۔یہ  برابری صرف اس دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ  یہ یوم حساب تک جاری رہے گی اس میں نسب  کو برتری حاصل نہیں ہے روز قیامت تمام کی تمام  نسلیں اور جنسیں اللہ ک ہاں برابر ہوں گی قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:)فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ((سورہ مومنون۔۱۰۱)

پھر جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو ان میں اس دن نہ کوئی رشتہ داری رہے گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

نبی اکرمﷺ کی نسلی امتیاز کے خلاف جدو جہد

نبی اکرمﷺ کی رسالت عالمی رسالت ہے یعنی یہ کسی خاص علاقے  اور خاص لوگوں کے لیے نہیں ہے  اس لیے اس میں  رنگ اور نسل کی بنیاد پر کسی قسم کا  کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا ۔اللہ  تعالی نے نبی اکرمﷺ کو  تمام کے تمام انسانوں کے لیے خوشخبری دینے والے اورڈرانے والے بنا کر بھیجا ہے۔آپ ﷺکسی خاص جنس یا رنگ کے لیے نبی بن کر نہیں  آئے اس لیے  رنگ نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے کیونکہ آپﷺ سب لوگوں کے لیے نبی ہیں۔ اللہ  تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:)وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ((سبا۔۲۸) اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

نبی اکرمﷺ پر نازل ہونے والا آسمانی پیغام  شرک و ھوی میں پڑ جانے سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ یہ نبی اکرمﷺ کا ذاتی اجتہاد نہیں ہے  کہ اس میں ذاتی  رائے یا رنگ  ونسل   کی بنیاد پر تفریق نظر آئے  اللہ کے نبی ﷺ اس طرح کی چیزوں سے پاک ہیں۔اس طرح کی بات نبی اکرمﷺ سے صادر نہیں ہو سکتی اور اس کا راستہ  اللہ تعالی نے اس قرآنی نص کے ذریعے سے بند کر دیا ہے آپ ﷺ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ  آپ  لوگوں کو  آیات  کے نازل ہونے کے مقاصد سے آگاہ کریں ارشاد ربانی ہے:)وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ((سورہ النحل۔۴۴)

(اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔

اس آیت مجید میں الناس کا لفظ جمع کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور اس میں تمام انسان شامل ہیں کسی کو بھی اس سے نکالا نہیں گیا کہ ان کے درمیان کسی قسم  کی تفریق ہو سکے ا س لیے انسانوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہے۔نبی اکرمﷺ کے اخلاق کا نام قرآن ہے  کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کی  اعلی منزلت و شان کی وجہ سے آپ ﷺ کی اس طرح صفت بیان کی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:)وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ((سورۃ القلم ۔۴) اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔

نبی اکرمﷺ کا یہ طریقہ اور اسوہ حسنہ تھا کہ آپ ﷺ نے زندگی کے عام معاملات میں لوگوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق   نہیں کی۔ نبی اکرمﷺ کی یہی تربیت مسلمانوں کے ہاں شروع سے جاری  ہے اور مسلمانوں کا قدیم زمانے سے یہ طریقہ رہا کہ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو دعوت دیتے تھے تو اس میں کالے اور گورے میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔اسی لیے مختلف جنسوں اور اقوام کے لوگ اسلام پر ایمان لائے جیسے بلال حبشیؓ،صہیب رومیؓ اور سلمان فارسی ؓ  ،یہ لوگ نہ صرف ایمان لائے بلکہ  یہ نبی اکرمﷺ کے مقربین میں سے تھے۔نبی اکرمﷺ نے سلمان فارسی ؓ کے لیے  فرمایا تھا کہ سلمان ہم اہلبیتؑ میں سے ہے اور یہاں پر اہل بیت سے مراد  خانہ نبوت ہے  ساتھ ساتھ ابولہب سے آپﷺ قرابت داری کے باوجود وہ تعلق نہ تھا۔

یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ نبی اکرمﷺ نے زید بن حارثہؓ جو کالے رنگ والے تھے کو جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کا سپہ سالار بنایا،اسی لشکر میں آپﷺ کے چچا زاد جعفر بن ابی طالبؑ ان کے ماتحت تھے  یہ دونوں دلیلیں کافی وزنی ہیں۔اسلام اور نبی اکرمﷺ جنس ،رنگ اور قرابتداری میں  فضیلت کو نہیں دیکھتے بلکہ اسلام کا معیار فضیلت  تقوی ہے۔