فلاحی معاشرہ ایک معاشرتی اصطلاح ہے آپ اسے سیاسی بھی کہہ سکتے ہیں،اس پر بہت زیادہ فکری اور ثقافتی مباحث موجود ہیں اسی لیے عام عوام کے علاوہ معاشرتی ماہرین بھی اس پر کافی بحث کرتے ہیں۔ ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر کافی ابحاث بڑی تیزی سے جمع ہو گئی ہیں اور یہ ابحاث بڑی ریاضیاتی ترتیب کے ساتھ ہوئی ہیں۔اس نے معاشروں کو بہت تبدیل کیا ہے اور بہت سی جگہوں پر نظام حکومت کو تبدیل کر دیا ہے اسی طرح اخلاقی نظام پر اثر انداز ہوئی ہیں۔فلاحی معاشرہ کی با ت کی جائے تو یہ یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب روایت پسند معاشروں اور جدید معاشروں کے درمیان اسے حد فاصل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔تاریخی طور پر اسے مورخین حد فاصل ہی قرار دیتے ہیں یعنی اس سے پہلے کا زمانہ اور اس کے بعد کا زمانہ ۔اس نے فکری اور ثقافتی انقلابات برپا کیے ہیں۔ ہم یہاں مسلم معاشروں کی بھی بات کررہے ہیں، مگر جہاں تک غیر مسلم معاشروں کی بات ہے اس نے چرچ کے خلاف دسیوں سال پہلے انقلاب برپا کیا تھا۔
بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اس موضوع پر بات کرنا اہم تھی مگر ہمیں اس میں خاندان کے مسئلے نے بات کرنے پر مجبور کیا۔ویسے فلاحی معاشرے کا نظریہ ابھی تک نظریاتی طور پر اتنا پختہ نہیں ہوا ،اس کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی اور ثقافتی تنازعات میں بھی گھسیٹا گیا ہے۔اس پر ہمارا اصل اعتراض اس نظریہ کا پختہ نہ ہونا ہے ہم دیکھیں گے کہ اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟اس کےبارے میں تجربات کیا کہتے ہیں؟ یہ بطور نئی اصطلاح کیا ہے؟اس کا مفہوم کیا ہے؟جو مغربی تعلیمی اداروں میں اسلامی نظام کے مقابل پیش کیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بیان کرنا ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو اسے ایک اور جدید نظریے کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ اسے تاریخی تجربات کی روشنی میں بیان کیا جا سکے۔ایسا کرنا اس وقت اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب اسے مدنیت کا نام دیا جاتا ہے،یہ ضرورت ہے کہ اس نظریہ کی وضاحت کے لیے اس کی سیاسی اور اجتماعی بنیادوں کو بیان کیا جائے تاکہ یہ تہذیب کے ساتھ اس کا اختلاط نہ ہو جائے۔
یہ انسانی معاشروں سے دین اور ثقافت کو ختم نہیں کرتا اگر دین کو ختم کرتا ہے تو اسے ایسا نظام سمجھا جائے گا جو انسان کے افکار سے خالی ہے اور جس کے لیے ابھی تک انسانیت نے کوئی کوشش نہیں کی اور انسان اور معاشرے کی ہونےو الی ترقی اور پیش رفت کو بھی قبول نہیں کرے گا جو موجودہ قوانین سے انسانوں نے حاصل کی ہے۔
ایک اور اہم بات جو اس کی وضاحت کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے نفاذ سے پہلے اس کا خوب مطالعہ کرنا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے اور دوسرے معاشروں کے لیے کس قدر سازگار ہے۔عربی دنیا میں بھی ماحول کا مسئلہ ہے اوریورپ میں پچھلے دو صدی کے روشن خیالی کے زمانہ کے دوران پتہ چلا ہے۔یورپ میں معاشرتی اور مذہبی مسائل پیش آئے عربی اور اسلامی معاشرے تو اس سے الگ ہیں یہاں کے رسم و رواج اور رویات الگ ہیں یہاں مذہب الگ ہو ہی نہیں سکتا اس لیے یہاں اور مسائل پیش آئیں گے۔جو سیاسی اور معاشی مسائل مغرب کے تھے ضروری نہیں کہ دوسری جگہوں پر بھی وہ ہوں۔ فلاحی معاشرے کے تصور کے بارے میں ہماری بات سیاسی اور معاشرتی نظام کو سمجھنے سے منسلک ہے۔ہمارا اس سے مقصد یہ ہے کہ معاشرے کی مذہبی اور معاشرتی بنیادوں کو سمجھا جائے ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس سمجھنے کی آڑ میں ہم فلاحی معاشرے کے تصور کو ہی ختم کر دیں بالخصوص اس صورت میں کہ سول سوسائٹی کا تصور ریاست مدینہ سے ملتا ہے۔نبی اکرمﷺ نے ایک جدید ریاست کی بنیاد رکھی جو اس کا اولین مصداق ہے وہ ایک فلاحی ریاست تھی۔اس ریاست میں عقائد،ثقافت،تہذیب کی بنیاد ڈالی گئی جو طویل عرصہ قائم رہی۔
فلاحی ریاست ایک قدیم اسلامی اصطلاح ہے مغربی معاشرے نے اس کا اعتراف نہ کر کے غفلت کا ثبوت دیا ہے۔ فلاحی ریاست ،متمدن معاشرہ یا سول سوسائٹی کو جدید بتا کر یہ اپنے تعلیمی اداروں میں یہ بتانا ہے کہ یہ مغربی اصطلاح ہے۔اس طرح اس کی اسلامی اور مذہبی بنیادوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہے اس کی یہ بھی وجہ ہے کہ اس وقت مغربی معاشرے کو دیکھا جائے تو وہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت اسلامی معاشرہ فلاحی ریاست کو جنم دے رہا تھا۔
فلاحی معاشرے یا ریاست کو سمجھنے کے لیے اور اس کے تاریخی ارتقا کو جاننے کے لیے نبی اکرمﷺ کی سیرت کو سمجھنا ہو گا اس کے بغیر اسے نہیں جانا جا سکتا کہ ہم اگرچہ مختصر ہی کیوں نہ ہو ہم ریاست مدینہ کو سمجھیں ۔ہم سرعت سے پہلے اسلامی معاشرے کی طرف رجوع کریں گے جس کا پہلا تجربہ مکہ میں کیا گیا اور پھر اسے مدینہ میں نافذ کیا گیا۔اس سے اسلامی پیغام کی گہرائی ،پیغمبر اسلام ﷺ کی قائدانہ صلاحیت کا پتہ چلتا ہے آپﷺ نے ایک ایسے معاشرے میں یہ نظام قائم کیا جو اپنی اصل میں قبائلی اور خانہ بدوش تھا اور ان کا پیشہ غلہ بانی اور زراعت تھا۔اس نظام کی بنیادیں نبی اکرمﷺ کےاعلی نظریات،دور اندیشی اور گہری فکر کے ساتھ رکھیں۔ایک مذہبی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی، ایک موجود قدیم نظام کو ایک جدید نظام میں تبدیل کیا اور زندگی کو دینی معانی عطا کیے۔ آپﷺ نے یثرب کا نام تبدیل کر کے مدینہ منورہ رکھ دیا یہ سوچی سمجھی تبدیلی تھی۔یہاں نبی اکرمﷺ نے نام میں المدینہ کو اختیار کیاجو المجتمع المدنی کی بنیاد بنا۔یثرب کا نام اس زمانے کے ساتھ لوگوں کی طبیعتوں کے مطابق رکھا گیا تھا۔اب یہ تبدیلی ثقافتی اور دینی انقلاب لے کر آئی جو اس یثرب کے معاشرے میں آیا۔یہ اقدار اور طرز زندگی میں تبدیلی کا انقلاب تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے مدینہ منورہ کا انتخاب اتفاقی بات نہیں بلکہ یہ معاشرتی تبدیلی کا اعلان تھا جس کا آغاز نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا۔یہی مفہوم ہمیں دین اسلامی سے سمجھ میں آتا ہے اسلام وہ دین ہے جہاں انسان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اسے یہاں خلیفہ بنایا گیا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (النور:۵۵)
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔
قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِ وَ ہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡاَخۡسَرُوۡنَ۵ وَ اِنَّکَ لَتُلَقَّی الۡقُرۡاٰنَ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ عَلِیۡمٍ۶ (سورہ نمل ۵۔۶)
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں ہوں گے۔۵ اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقینا ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔۶
آپ ذرا اس اسلامی انقلاب کی عظمت کا تصور کریں جو اسلام سرزمین یثربین پر لے کر آیا تھا اور ایسے لوگوں میں لے کر آیا تھا جو بدو تھے اور شدت پسند اور ہٹ دھرم تھے قرآن مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے: اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ کُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجۡدَرُ اَلَّا یَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ۹۷ وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ مَغۡرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ۹۸
یہ بادیہ نشین بدو کفر و نفاق میں انتہائی سخت ہیں اور اس قابل ہی نہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے ان کی حدود کو سمجھ سکیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے ۔۹۷ اور ان بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ تم پر گردش ایام آئے، بری گردش خود ان پر آئے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔ ۹۸
اسلام نے ان کے لیے ایک جدید ،منظم اور منفرد اجتماعی نظام قائم کیا یہ نیا نظام اس نظام سے مختلف تھا جس سے پہلے وہ آشنا تھے۔وہ عقیدہ جس پر ان کا نظام قائم تھا اس کی بنیاد شرک اور کفر پر تھی اور اسلام جو نظام لایا اس کی بنیاد توحید پر تھی۔اسلام نے عبادات کا ایک منظم نظام دیا جس کا تعلق اعتقاد سے تھایہ ایک اعلی راستے کا انقلاب تھا اس نے حمیت کے مفہوم کو منظم کیاخواتین کے ساتھ بے رحمی سے پیش آنے سے منع کیا،اسلام نے بیٹیوں کو پیدائش کے ساتھ قتل کرنے پر پابندی عائد کی،خواتین کو وراثت میں حق دیا،اسلام نے سود کے تصور کو ختم کیا،قبائل کے درمیان اجتماعی بدلے کے نظام کو ختم کیا۔اسلام نے تبدیلی اور روشن خیالی کے ساتھ معاشرے کو تبدیل کیا۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں تبدیلی لانا جو خانہ بدوش ہو اور اس روایت پسندی کی تاریخ ہو کافی مشکل ہوتا ہے بالخصوص انہیں کسی تمدن اور تہذیب سے آشنا کرنا کہ وہ ایک اجتماعی نظریہ کو اختیار کر لیں۔یہ تبدیلی کہ وہ پرانے نظریے کو چھوڑ کر نیا نظریہ حیات اختیار کر لیں کافی مشکل امر ہے اگر یثرب کی بات کی جائے تو وہ ایک مختلف الخیال گروہوں کا معاشرہ تھا۔یہ معاشرہ ایک سخت قبائلی مزاج رکھتا تھا نبی اکرمﷺ نے اس میں مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت قائم کر دیا اور اس کے نبی اکرمﷺ نے اسلام کے اجتماعی نظام کی بنیاد رکھی۔آپ ﷺ نے اجتماعی شہری زندگی کو بہت ہی شفاف اور واضح انداز میں مدینہ کے لوگوں کو بتایا اور میثاق مدینہ جیسا عظیم الشان معاہدہ کیا۔یہ معاہدہ نبی اکرمﷺ ،یہود اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ تھا۔یہ معاہدہ مدینہ میں اجتماعی زندگی کی بنیادیں فراہم کرتا تھا جس میں دوسروں کو انسانی احترام کے ساتھ قبول کیا گیا تھا۔یہ معاہد رنگ ،نسل اور مذہب کے فرق سے قطع نظر سب کو شہری حقوق دیتا تھا۔نبی اکرمﷺ نے یثرب شہر کے طرز تعمیرات کو بھی تبدیل کر دیا آپﷺ سے پہلے یثرب کے مکانات وہاں یہاں بکھرے ہوئے تھے آپﷺ نے مکانات قریب بنوائے۔یہ اس ترتیب کے عین مطابق ہے جو آج کل ہمارے تمدن اور تہذیب میں رائنج ہے۔نبی اکرمﷺ نے ایک عظیم الشان مسجد کی بنیاد رکھی جو اس وقت ایک یویورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی۔یہ مسجد اجتماعی،ثقافتی تبدیلی کا مرکز تھی یہاں صرف عبادات ،تعلیم اور سیاست ہی نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑھ کر یہ حکومت کا مرکز اور خلافت کا گھر بن گئی ۔
اس مختصر سی وضاحت کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی وہ نبی اکرمﷺ تھے۔مغربی ادارے اس کی نسبت بہت بعد میں اپنی طرف دیتے ہیں حالانکہ اسے نبی اکرمﷺ بہت پہلے مدینہ میں قائم کر دیا تھا ۔یہ وہی فلاحی ریاست ہے جس کی با ت آج کے مغربی ادارے کرتے ہیں اور اس ریاست کی خاص بات یہ بھی تھی کہ یہ دینی ریاست تھی۔مغربی معاشرے نے ابھی تک اسے قبول نہیں کیا کہ فلاحی معاشرے میں مذہب کا بھی کوئی کردار ہے، نبی اکرمﷺ نے فلاحی ریاست میں مذہب کے کردار کو واضح کیا۔آج جس فلاحی ریاست کا باربار کہا جاتے ہے یہ ان شہروں کے ڈھانچوں پر قائم ہے جو جنگوں اور معرکوں میں اسے قائم کرنے کے لیے لڑے گئے۔انہی جنگوں میں سے کچھ جنگیں کلیسا اور مغربی اقوام کے درمیان بھی ہوئیں یہی وجہ ہے کہ مغربی لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ دین کو ریاست سے الگ کر دیا جائے۔دین کو ریاست سے الگ کرنے کا پس منظر یہی ہے۔ انہوں نے مذہب کو عبادت گاہوں تک محدود کر دیا اس طرح انہوں نے معاشرے کو ادیان آسمانی کے اجتماعی اور اخلاقی نظام سے محروم کر دیا ۔جب مذہب کی تفہیم میں موجود کجی کو دور کرنا ممکن تھا ایسا نہ کیا گیا اور مذہب کی جگہ سیکولرازم کو دے دی گئی اس کے مقابل اسلام نے اپنی تہذیب اور تمدن کاعملی اظہار کیا ۔فکری،اجتماعی،سیاسی اور ثقافتی طور پر اسلام نے اپنے نظام کو پیش کیا اور اس کے اور فلاحی ریاست کے نظام کے درمیان کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔تہذیب و تمدن میں بھی کسی قسم کا تضاد نہیں ہے۔فلاحی معاشرے اور سیکولرازم میں تضاد ہو گا تو اسے دین فلاح سمجھتا ہے اس کے خلاف کسی رائے کو قبول نہیں کرتا۔