- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


بہتان اور غیبت سے پرہیز
16 جمادى الاخير 1440هـ

غیبت یہ ہے کہ کسی مومن کا اس کی غیر موجودگی میں ایسا ذکر کرنا جو اس میں ہے اور وہ اسے نا پسند ہو اور اگر اس میں ہے ہی نہیں اور پسند بھی نہیں تو یہ بہتان ہو جائے گا۔ بعض لوگوں نے اسے یوں بھی بیان کیا ہے کہ کسی پشت پیچھے اس کے عیب کا بیان غیبت ہے۔غیبت کا دائرہ بہت وسیع ہے کسی بھی مسلمان کے بارے میں ایسی چیز کو ذکر کرنا جو اس کی تخلیق، اخلاق، قوم، پیشے، لباس وغیرہ یا اس شخصیت میں کسی خامی کی نشاندہی کرتی ہو غیبت ہوگی ۔

غیبت گفتگو،اشارہ،لکھائی ،تصویر اور اس طرح کے دیگر طریقوں سے ہوسکتی ہے بلکہ ہر وہ چیز جو مسلمان کی اہانت کا باعث بنے،اس کی شان میں کمی کرے، ایسی صفات کا ذکر کرنا جنہیں وہ پسند نہیں کرتا سب غیبت میں داخل ہیں۔غیبت گناہان کبیرہ میں سے ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہےاور اس کے مرتکب کے لیے عذاب شدید کی وعید کی ہے۔غیبت کو جہنمی کتوں کی خوراک کہا گیا ہے۔

مصیبت یہ ہے کہ غیبت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور لوگوں کے درمیان بہت زیادہ پھیل چکی ہے ۔لوگ غیبت کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے عذاب کا شعور ہی نہیں رکھتے۔غیبت سے صرف وہی بچ سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے ۔تعجب ہوتا ہے کہ بعض اوقات قرآن کی آیت پڑھی جاتی ہے مگر مقام ایسا ہوتا ہے کہ  کسی کی غیبت ہو جاتی ہے جیسے غیبت کرنے والا یہ آیت پڑھتا ہے:

((أولئك كالأنعام بل هم أظل سبيلا))

یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔  اس وقت وہ ایک خاص شخص کے پاس سے گذر رہا ہو۔

غیبت کے بہت سے اسباب ہیں چند اہم یہ ہیں:

1۔لوگ اس کے نتیجے میں ہونے والے عذاب سے غافل ہیں جو عذاب لوگوں کو دوسروں کے بارے میں اس طرح کی بات کرنے سے منع کر سکتا ہے ،معاشرے میں غیبت کے خریدار زیادہ ہیں اور خوشخبری ہو ان لوگوں کے لیے جن کو اللہ نے اس فعل شنیع سے بچایا ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

((ولا يغتب بعضكم بعضا أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه)) (الحجرات -12).

خبردار ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مفِدہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے اِرا سمجھو گے۔

وعن النبي صلى الله عليه وآله أنه قال في وصيته لابي ذر: "يا ابا ذر إياك والغيبة، فإن الغيبة أشد من الزنا"، قال ولم ذاك يا رسول الله؟ قال: "لأن الرجل يزني فيتوب الى الله، فيتوب الله عليه، والغيبة لا تغفر حتى يغفرها صاحبها".

نبی اکرمﷺ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :اے ابوذرغیبت سے بچو،غیبت زنا سے سخت ہے ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں یارسول اللہﷺ ایسا کیوں ہے؟ آپؐ نے فرمایا اس لیے کہ جب کوئی آدمی زنا کرتا ہے اور اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور غیبت اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی گئی ہے۔

حضرت علی بن ابی طالبؑ سے روایت ہے آپؑ فرماتے ہیں رسول اکرمﷺ نے غیبت کرنے سے منع فرمایا جس نے کسی مسلمان کی غیبت کی اس کا روزہ ٹوٹ گیا،وضو باطل ہو گیا، قیامت کے دن اس کے منہ سے مردار کی بد بوآئے گی اور اگر یہ شخص توبہ کرنے سے پہلے مرگیا تو ایسی موت مرا جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا تھا۔

اللہ تعالی نے موسیؑ سے کہاجو غیبت سے توبہ کر کے مرا وہ جنت میں سب سے آخر میں جائے گا اور جو اس حالت میں مرا کہ غیبت کرتا اور اس سے توبہ بھی نہیں کرتا تھا تو وہ سب سے پہلے جہنم میں داخل ہو گا۔

جہاں غیبت نہیں ہوتی:

چند امور غیبت سے خارج کیے گئے ہیں:

وہ شخص جو فاسق ہے اور اعلانیہ گناہ کرتا ہو اس کی اس گناہ میں کوئی غیبت نہیں ہے، جیسے ایک شخص لوگوں کے سامنے شراب پیتا ہے یہ بات واضح رہے کہ اگر وہ شخص چھپ کر شراب پیتا ہے تو اس کی غیبت نہیں کی جا سکتی۔اسی طرح وہ شخص اعلانیہ مسلسل فحاشی کے کام کرتا ہے تو اس کی غیبت جائز ہے۔

 عدالت میں جج کے سامنے کسی واقعہ کو بیان کرنے کے لیے غیبت کرنا جائز ہے۔

 گمراہ نظریات کو مورد بحث قرار دے کر علمی رد کرنے کے لیے بات کرنا غیبت شمار نہیں ہوتا ۔

وہ باتیں جو غیبت چھوڑنے کے لیے مددگار ہو سکتی ہیں:

اللہ کے غضب اور قیامت کے دن غیبت کرنے والوں پر  اللہ کے عذاب کا ذکر کیا جائے۔

اس بات کی یاد دہانی کرائی جائے کہ جس غیبت کرنے والے کی نیکیاں اس شخص کو مل جاتی ہیں جس  کی غیبت کی جاتی ہے۔ا سی لیے قیامت دن غیبت کرنے والا نیکیوں سے خالی ہو گا اور اس کے نیک اعمال جس کی غیبت کی گئی ہے اس کے نامہ اعمال میں درج ہو چکے ہوں گے اور یہ ایک بڑا نقصان ہے۔

انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ اپنی خامیوں کا ذکر کر کے ان کو درست کرے نہ یہ کہ دوسروں کی خامیوں  کے پیچھے پڑا رہے۔

ایسے لوگ جن کی محفل برائی کی محفل ہوتی ہے اور ان لوگوں میں تقوی نہیں ان کے پاس نہ بیٹھے کیونکہ ان کی محفلوں میں بہت زیادہ غیت ہوتی ہے۔

بہتان:

غیبت کی وضاحت میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ کسی مسلمان میں پائی جانی والی بات جس کے بیان کو وہ نا پسند کرے کرنا غیبت کہلاتا ہے اور بہتان یہ ہے کہ مسلمان کی نسبت ایسے برے فعل کی طرف دینا جس کو وہ نا پسند کرتا ہے جو اس میں سرے سے موجود ہی نہ ہو، یعنی افتراء باندھنا  یا کسی کی نسبت ایسے قول یا فعل کی طرف دینا جو اس نے انجام نہ دیا ہو۔بہتان اللہ کے ہاں غیبت سے بھی بڑا جرم ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (ومن يكسب خطيئة أو إثما ثم يرم به بريئا فقد احتمل بهتانا وإثما مبينا)) (النساء -112).

اور جو شخص بھی کوئی غلطی یا گناہ کرکے دوسرے بے گناہ کے سر ڈال دیتا ہے وہ بہت بڑے بہتان اور کِھلے گناہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

جس نے کسی مومن یا مومنہ کی  طرف غلط نسبت دی یا وہ کہا جو ان میں نہیں ہے،اللہ قیامت دن اسے آگ پر کھڑا کر دے گا یہاں تک کہ وہ بیان کرے گا جو اس نے اس وقت کہا تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ غیبت اور بہتان  بہت بڑے اور خطرناک گناہ ہیں،نیک عمل کو ختم اور نیکیوں کی بیناد کو گرا دیتے اور لوگوں کو اس طرح ہلاک کرتے ہیں کہ انہیں پتہ بھی نہیں ہوتا۔اس لیے ان سے پرہیز ضروری ہے۔