- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


ماحولیاتی حقوق احادیث نبوی کی روشنی میں
17 ذو القعدة 1442هـ

اللہ تعالی نے انسان کو خلق فرمانے کے بعد اس کے ذریعہ اپنی دیگر مخلوقات پر فخر و مباہات کی۔ انسان ہی کے لئے اللہ تعالی نے اس کے ماحول میں پائی جانے والی تمام اشیاء کو خلق فرمایا اور ہر چیز کو اس کے لئے مسخر فرمایا۔ یہی درحقیقت مشیت خداوندی کا تقاضا تھا کہ تمام قدرتی ماحول اور فطری مناظر کو انسان کے لیے مسخر کیا جائے۔

 ان تمام اشیاء کو انسان کے لئے تسخیر کرنے کے بدلے اللہ تعالی نے اس کا تحفظ اور اس کا درست استعمال بھی انسان پر لازم قرار دیا کیونکہ فطری ماحول سے ہی انسان وجود میں آتا ہے اور اسی کی طرف پلٹنا بھی ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات کی واضح نشانیوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے جسے اللہ تعالی نے بہترین شکل میں رکھا ہے۔ اسےخلق کرنے  کے بعد اسے منظم انداز میں  قائم رکھنے کا اللہ تعالی نے خاص انتظام فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں غور و ((أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ * وَالأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُل زَوْجٍ بَهِيجٍ))(سورة ق ـ 6ـ 7).

"کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا اور مزین کیا؟ اور اس میں کوئی شگاف بھی نہیں ہے۔ اور اس زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کے خوشنما جوڑے ہم نے اگائے،

دین مقدس اسلام نے ایک مسلمان فرد اور اس ماحول کے درمیان پیار محبت کا رشتہ قائم کیا ہے۔ جبکہ جاندار اشیاء ہوں یا بے جان اشیاء، ان کا تحفظ کرنے میں ہی انسان کے لئے فائدے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کا دنیا میں فائدہ یہ ہے کہ انسان ایک صحت مند اور خوشگوار زندگی جی سکتا ہے اور اس کام کا آخرت میں بھی عظیم ثواب کی شکل میں فائدہ ملے گا۔ چنانچہ قرآن کریم کے اس جامع نظریے کی تاکید کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو انسان اور کائنات کے درمیان موجود اس رشتے کی تصدیق کرتی ہیں۔ بلکہ یہ رشتہ انسان اور فطرت کے دوسرے عناصر کے درمیان ایک خاص اور بنیادی ربط ہے اور اس رشتے کی بنیاد اس بات پر ایمان ہے کہ انسان جب فطرت کے دیگر عناصر میں  سے  کسی عنصر کے ساتھ زیادتی کرے یا اس کا غلط استعمال کرے یا اس فطری نظام میں کوئی خلل ڈالے تو نتیجے میں خود انسان کو بھی کافی ضرر اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

چنانچہ شریعت  مقدس اسلام میں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کی تاکید ہوئی ہے۔ شریعت نے اس بارے میں باقاعدہ فقہی قواعد بنائے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ( لا ضرر ولا ضرار...)  درحقیقت ایک قاعدہ ہے۔ یہ قاعدہ ماحول میں آلودگی  پھیلانے اور اسے خراب کرنے سے ہمیں خبردار کرتا ہے ۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : "اتَّقُوا الْـمَلاَعِنَ الثَّلاَثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْـمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ".

لعنت کی  تین چیزوں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ، عمومی راستہ اور سائے میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے پرہیز کرو۔

اسی طرح رسول اکرم نے راستے سے گزرنے والوں کے لیے اذیت کا باعث نہ بننابھی راستے کے حقوق میں سے ایک حق  قرار دیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:  راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ لوگوں نے کہا: یہ ہم کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ یہی تو ہماری بیٹھنے کی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر ہم باتیں کرتے ہیں آپ نے فرمایاکہ اگر تم منع کرتے ہو اور راستے پر ہی بیٹھنا ہے تو راستے کو  اس کا حق دو۔ لوگوں نے پھر پوچھا: یا رسول اللہ، راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اذیت دینے سے باز رہو۔

اسی طرح زمین کے حسن کو برقرار رکھنے، اسے آباد کرنے اور اس پر زراعت کرنے کے بارے میں مزید صراحت کے ساتھ رسول اللہ کا فرمان ہے:  "کوئی بھی مسلمان کوئی کاشت کاری کرےتو اس سے جو کچھ کھائے وہ اس کے لئے صدقہ ہے، اس سے اگر کوئی چیز چوری ہوجائے تو بھی صدقہ ہے اسے کوئی درندہ کھا لے تو بھی صدقہ  ہے یا کوئی پرندہ اسے کھا جائے تو بھی صدقہ ہے۔ اس کے ساتھ کوئی بھی بہانہ ہو جائے  تو وہ بھی اس  شخص کے لیے قیامت تک صدقہ ہے"

 رسول رحمت اللعالمین نے غیر آباد زمین کی بحالی جیسے سودمند کاموں کی طرف توجہ دلائی ہے چنانچہ پودے لگانا فصل اگانا یا کسی غیر آباد زمین کو پانی دینا نیکی اور احسان میں شامل فرمایا ہے۔  جیسا کہ ارشاد گرامی ہے  "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَلَهُ مِنْهَا -يَعْنِي أَجْرًا- وَمَا أَكَلَتِ الْعَوَافِي مِنْهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ".

جس نے کسی غیر آباد زمین کو آباد کیا تو اس سے جو حاصل ہوا ، سوحاصل ہوا ۔ لیکن جو ضائع ہوا ہے وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے۔ چونکہ قدرتی ماحولیات میں پانی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا اس کا درست استعمال اور اس کی پاکیزگی کا تحفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی حضرت سعد کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "مَا هَذَا السَّرَفُ يَا سَعْدُ؟ " یہ کیا اسراف ہے سعد؟ ! عرض کیا  أَفِي الْوُضُوءِ سَرَفٌ؟) “یا رسول اللہ) کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟! فرمایا:  "نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهْرٍ جَارٍ"  ہاں اگر تم کسی  نہرپر ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہونے والی یہ تنبیہ درحقیقت فطرت کے تحفظ کے حوالے سے ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے جس سے فطرت کے تحفظ کی اہمیت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کا ایک خاص تصور پیدا ہوتا ہے کہ ماحولیات کی مختلف چیزیں اپنے ایک کائناتی اصول کے مطابق ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے متمم و  مکمل ہیں اور اللہ تعالی کے ارادے سے اس کائنات کے حسن و جمال کو باقی رکھنے کے لئے فطرت کے تمام اجزاء ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔