قرآن کریم نے اسیر کے حقوق کو بڑے اہتمام سے بیان کیا ہے اور بہت حکمت والا طریقہ اپنایا ہے اس سے جہاں اسلام کے ہاں انسانیت کی قدر کا پتہ چلتا ہے وہیں اسلام کی عظمت بھی واضح ہوتی ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا))(سورة الإنسان ـ 8)
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مشاہدہ کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام فرماتے تھے، ان کو اچھا کھانا کھلاتے،ان کے لیے رہائش کا انتظام کرتے اور ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کے لشکر کو خود پر اور اپنے لشکر پر ترجیح دی ،بالخصوص کھانے پینے میں۔اس عمل نے قیدیوں پر بہت اچھا اثر ڈالا کہ کیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچھی روٹی اور باقی چیزیں قیدیوں کو دیں اور خود اور مسلمانوں نے کھجور، پانی اور دیگر بچے ہوئے کھانےسے کھایا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ قیدی کو اس بات سے قطع نظر کہ اس نے جنگ کی ہے جب وہ کھانا مانگے تو اسے کھانا دیا جائے۔ قیدی کے سامنے کھانے کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ اس کا وقار بھی محفوظ رہے۔
اگر معنوی اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے انسانی رویے کی بنیاد رکھی جس کی مثال اس وقت قیدیوں سے سلوک کے لیے نہیں ملتی تھی ۔ یہ سب دین اسلام کی روشنی سے ہی ممکن ہو سکا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلم قیدیوں سے عام مسلمانوں کو پڑھانے کا کام لیا۔یہ تو بدر کے قیدیوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن سلوک تھا ۔جہاں تک قینقاع،بنی نضیراور بنی قریظہ کے قیدیوں کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا تھا آپ نے فرمایا:میں تمہیں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی حضرت علیؑ نے اسی نظریہ کو آگے بڑھایا جو کہ ایک الہی نظریہ تھاحضرت علیؑ نے اپنی اولاد او راصحاب کو حکم دیا کہ وہ قیدیوں کے حقوق کو ادا کریں اور عملی طور پر اس پر عمل کر کے بھی دکھایا۔ آپ نے ہمدردی اور احسان کے ساتھ سلوک کیا آپ نے ان کی سلامتی کے لیے اقدامات فرمائے او ران سے انتقام لینے سے منع فرمایا۔امام ؑ قیدیوں سے فرماتے تھے:میں صبر اختیار کرتے ہوئے تمہیں قتل نہیں کروں گا میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔آپ قیدیوں سے اسلحہ لے لیتے، پھر قتل نہ کرنے کی قسم لیتے پھر ان کو کچھ دراھم دے دیتے یا پھر ان کے لیے رزق روزی کے اسباب مہیا کر دیتے۔
آپ نے انسانی رویے کی تاکید فرمائی حضرت علیؑ نے ایک محکمہ بنایا تھا جس کا کام فقط جنگ کے مجرموں اور مقاتلیں کے بارے میں کام کرنا تھا۔یہ محکمہ ان مسلمانوں کے معاملات کو بھی دیکھتا تھا جنہوں نے بغاوت کی تھی۔یہ محکمہ مجرم کو انصاف دلانے کے لیے بنایا گیا تھا۔مجرم کے گناہ کو معین کرنا،اس پر گواہ پیش کرنا اور ان کو دوسروں کے لیے عبرت بنانا شامل تھا۔ آپ نے ہمیشہ انسانیت کی اہانت سے منع فرمایا۔آپ ؑ کی سزا ہمیشہ قیدی کے جرم کے مطابق ہوتی تھی اور آپ کا نظام حق و عدل پر تھا یہ سزا بھی ان کو ملتی تھی جنہوں نے لوگوں کے حقوق کو غصب کیا ہوتا اور ان کی زندگی اجیرن کی ہوتی تھی۔
حضرت علیؑ نے قیدی کو اس کی قید کے دوران تمام حقوق ادا کرنے کا حکم دیا آپؑ نے قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دیے گئے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا۔امام ؑ نے فرمایا کہ :قیدی کو کھانا کھلانا اور اس کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا ضروری ہے اگرچہ اسے صبح قتل کیا جانا ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی کو قید کیا ہے اس پر اس قیدی کا حق ہے اگرچہ اس قیدی کے قتل کرنے کا وقت قریب ہی کیوں نہ آ گیا ہوکہ اسے قصاص میں قتل کیا جانا ہو۔اس پر آپ علیہ اسلام کی اپنی اولاد کو وہ وصیت شاہد ہے جو آپ علیہ السلام نے اپنے قاتل عبدالرحمن بن ملجم ملعون کے بارے میں کی تھی۔ اس کے ساتھ اس سے اچھا معاملہ کرنے کو کہا۔ اس کو قصاص میں ویسی ہی ضرب لگانے کا حکم دیا جیسی ایک ضربت اس نے لگائی تھی۔اس سے اسیر کے بارے میں قرآنی حکم واضح ہوتا ہے ،جب آپ کا فرمان سامنے آتا ہے کہ:یہ قیدی ہے اس کو اچھی جگہ رکھو اور اس کے آرام کا خیال رکھو۔ آپ نے اس فرمان کی مزید تاکید کی اور فرمایا:اس قیدی کو قید خانے میں ڈال دو اور کھانا کھلاو،اس سے اچھا سلوک کرو،اگر میں زندہ رہا تو جو اس نے میرے ساتھ کیا اس کے بدلہ لینے کا میں زیادہ حقدار ہوں۔اگر چاہوں تو بدلہ لوں اور اگرچاہوں تو معاف کردوں اور گر چاہوں تو صلح کر لوں۔اگر میں مر جاوں تو یہ سارے امور تمہاری طرف ہیں۔اس کے بعد امام علیؑ اپنے بیٹے امام حسنؑ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس وقت آپؑ بستر شہادت پر تھے اور فرمایا:اے بیٹے اپنے قیدی پر نرمی کرو اور اپنے اسیر پر رحم کرو،اس پر شفقت کرو،اس کی آنکھون کی طرف نہیں دیکھتے ہو کہ اس کی آنکھیں خوف سے اندر دھنس گئی ہیں اور اس کا دل خوف و دہشت سے کانپ رہا ہے۔امام حسن ؑ نے امیر المومنین ؑ سے عرض کیا:اے بابا جان اس فاجر نے آپ کو شہید کیا ہے،ہمیں اس سانحے میں مبتلا کیا ہے اور آپ ہمیں نرمی کا حکم دے رہے ہیں؟حضرت علی ؑ نے امام حسن ؑ کو جواب دیا: ہاں،اے بیٹے ہم اہلبیتؑ ہیں،ہم جرم سے زیادہ سزا نہیں دیتے صرف اور صرف کرم و عفومیں ہی اضافہ کرتے ہیں۔رحمت و شفقت ہماری پہچان ہے اس کی پہچان نہیں ہے۔تمہیں میرے حق کی قسم جو تم پر ہے میرے بیٹے اسے اپنے کھانے سے کھلانا اور جس سے خود پیو اسی سے اسے سیراب کرنا۔اس کو بیڑیاں اور ہتھکڑیاں مت پہنانا،اگر میں چلا جاوں تو اسے ایک ہی وار سے قتل کرنا۔اس کا مثلہ نہ کرنا۔میں نے تمہارے نانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر میں زندہ رہا اور چاہا تو میں اسے معاف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں،میں جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے،اگر میں نے اسے معاف کردیا تو ہم اہلبیت کسی گناہ کرنے والے سے زیادتی نہیں کرتے سوائے یہ کہ معاف کر دیں۔
امیرالمومنینؑ نے کسی بھی اسیر کی فکر و نظریہ کا احترام کیا یہ ایسی بات ہے جس کی مثال نہیں ملتی آپؑ نے فرمایا:آپ قیدی پر بیعت کرنے اور اطاعت میں داخل ہونے کا اختیار دیتے ،اگر کوئی بیعت کر لیتا تو اس کو آزاد کر دیتے اور وہ آزاد ہو جاتا اور اگر بیعت سے انکار کرتا تو اس سے اس کا اسلحہ لے لیتے اور اس بات کی قسم لیتے کہ وہ دوبارہ قتل و غارت نہیں کرے گا اور اسے چھوڑ دیتے۔
بخدا یہ ایک انتہائی اعلی ہدف ،اعلی اخلاق اور بلند شرف رکھنے والی شخصیت کا ہی اپنے دشمن سے رکھا جانے والا سلوک ہے اور یہ سوائے امیر المومنین ؑ کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔مخالف جو بھی ہو یہ امیر المومنینؑ ہی کر سکتے ہیں کہ جاہلیت کے طریقہ کے مطابق بدلہ کے کلچر کو ختم کر دیں اور اسلام کے طریقہ کو رائنج کریں۔اس حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ بہت سارے اسیر قیدی امیر المومنین کی طرف مائل ہو جاتے تھے ۔اس حسن سلوک کی وجہ سے وہ دشمن کے لشکر کو ترک کر دیتے،اسلحہ چھوڑ دیتے اور مسلمانوں کے درمیان امن و سلامتی کے ساتھ رہنے لگتے تھے۔
اس طرح آپؑ نے اسلامی شریعت کی برتری کو بیان کیا اور ہر طرح کے ابہام کو دور کر دیا۔ امیر المومنین ؑ کی جنگوں کے اہداف سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے لوگوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف لے کر جانا ہے؟کیسے لوگوں کی بصیرت کو بڑھانا؟ آپؑ نے قرآن اور شریعت محمدیہ کے مطابق اور آسمانی نصوص کی روشنی میں حقیقی اسلامی نظریہ کو دیکھا ۔آپ نے سنگدلی اور نفرت کے ماحول کو ختم کیا اور آپ اسلام کی حقیقی تشریح کرنے والے قرار پائے۔