- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام میں حیوانوں کے حقوق
17 ذو القعدة 1440هـ

اسلام جدید عصری زندگی اور اس کی ضروریات کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے نیز اس کی مختلف صورتوں سے صرف نظر نہیں کرتا۔ کیوکہ اس کا آئین سب سے زیادہ درست، جامع زندگی اوراس کی مختلف صورتوں کے موافق ہے۔ چونکہ اسلام کے احکامات زندگی اور س کے لوازمات پرمشتمل ہیں اور مسائل پیش آنے کی صورت میں ان کی راہ حل اسلام پیش کرتا ہے،اس میں انسانی حقوق سمیت دیگر مخلوقات کے حقوق شامل ہیں۔

قران مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے "اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز سے واقف ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگروہ اس سے آگاہ ہوتاہےاور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور خشک وتر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو”سورہ انعام:59)

"اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اورہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندےہیں تمہاری طرح کی امتین ہیں،ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب)اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے”(انعام:38)

ہماری گفتگو اسلام کی جدید عصری راہ حل کے ضمن میں ہے جس میں حیوانوں کےلئے مقرر کردہ حقوق شامل ہیں،ان میں سے کچھ مستحب ہیں جبکہ کچھ واجب ،جوکہ مکمل طور پرحیوانوں سے بہتر انداز میں پیش آنےاور اس کے استعمال سے متعلق ہیں اور یہ اختیار انسانوں کو دیا ہو اہے۔ جبکہ اس اختیار کے غلط استعمال کی صورت میں جیسے حیوان کی زندگی کو بچانے اور اسے بلاوجہ نقصان پہنچانے کے سلسلے میں اسلام نے مقرر کیے ہیں۔اگر یہ اختیار انسان کے اس نفع سے متعلق ہے جیسے وہ عقلی اور شرعی طورپرحیوانوں سے حاصل کرتا ہے اور اگر وہ اس اختیار کا درست استعمال نہ کرے تو وہ زندگی اور اس کی فطرت پرظلم کرنے اور حد سے تجاوز کرنے والا شمار ہوگا جس کی حفاظت کی خاطر خالق نے ایک متحرک نظام وضع کیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرمایا:

“اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے تاکہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرواوربعض کاگوشت کھاؤ،اورتمہارے لئے ان میں منفعت ہے اور تاکہ تمہارے دلوں میں حاجت ہوتو ان پر (سوارہوکر)پہنچ جاؤ نیز ان پر اور کشتیو ں پر تم سوارکیے جاتے ہو”(غافر،80-79)

"کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کےلئے مویشی پیدا کئے چنانچہ اب یہ ان کے مالک ہیں۔اورہم نے انہیں ان کے لئے مسخر کردیا چنانچہ کچھ پر یہ سوار ہوئے ہیں اور کچھ کو کھاتے ہیں اور ان میں ان کےلئے دیگر فوائد اور مشروبات ہیں تو کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے؟”(یس 73-71)

"اور اس نے مویشیوں کو پیداکیا جن میں سے تمہارے لئے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو”(نحل 05)

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں کا شکر،ان کی بقا کا انتظام اور ان کی دیکھ بھال لازمی ہوجاتی ہے،اسی لئے حضور اکرمؐ نے وصیت فرمائی ہے کہ :“جب اسے چراگاہ میں اتارا جائے تواسے چرنے دیا جائے، جب پانی کے قریب سے گزرے تو اسے پانی پلایا جائے،اس کے منہ پر نہ مارے کیونکہ وہ اپنے رب کی تسبیح کرتا ہے،اس کی پیٹھ پر نہ بیھٹےسوائے راہِ خدا میں، اس کی طاقت سے بڑھ کر نہ لا داجائے اور اس کی استعداد سے زیادہ اسے نہ چلایاجائے”

آپؐ نے اس کے علاوہ بھی حقوق مقرر فرمائے ہیں۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرمؐ کی نظر ایک ایسی اونٹنی پر پڑی جس پر گنجائش سے زیادہ سامان لادا گیا تھا توآپؐ نے اس کےمالک کو طلب فرمایا،جب وہ نہیں ملا تو آپؐ نے فرمایا جاؤ اس کو بتادو کہ وہ کل کے بدلے کےلئے تیار ہوجائے"۔

اسی طرح آپؐ سے روایت ہے فرمایا:“۔اور میں جہنم میں ایک بلی کی مالکہ کو دیکھا جو اس کے منہ پر ماراکرتی تھی،اسے کھلاتی تھی اور نہ اسے زمین میں سے کچھ کھانے بھیجتی تھی اور میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ایک کتے کے مالک کو دیکھا جس نے اسے پانی پلایاتھا”۔

علاوہ ازیں حضرت امیرالمؤمنین علی ؑ نے فرماتے ہین کہ :جانوروں سے شفقت سے پیش آؤ،اپنا بوجھ اس پر نہ لادو، لگام سمیت اسے پانی نہ پلاؤاور اس کی برداشت سے زائد اس پر سماان نہ لادو”۔

اسی طرح اسلام نے حیوانوں کو ذبح کرنے سے منع فرمایا مگر یہ کہ اس میں کوئی شرعی یا عقلی غرض ہو یا کوئی اور نفع ہو،جس طرح اس کے گوشت،چمڑے، اون یا کسی اور چیز کی خاطر کہ جو ایک مناسب فائدہ شمار ہوتاہے۔ چونکہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: "کسی بھی جانور یا پرندے کو ناحق نہ مارا جائے، اگر ایسا کیاجائے تو مارنے والے کو بروز قیامت سزا ملےگی”۔

امیرالمؤمنین ؑ نے خود کبھی ایسا نہیں کیا اور نہ دسروں کو ایسا کرنے کی اجازت دی بلکہ اسلام نے جانوروں کوڈرانے اوران کو مقابلوں میں پیش کرنے سے منع فرمایا ہے نیز انہیں فخرو مباہات کے طور پر پیش کرنے سے بھی روکا ہے اور ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے اپنے شکار کی خاطر زندہ مرغی کو کام میں لایا اور نہ رات کے وقت پرندوں کو حفاظت کےلئے ساتھ لانے کی اجازت دی۔

اور پرندوں کے بچوں کو ان کے گھونسلوں سے نہ اٹھایا جائے جبتک وہ اڑنے کے قابل نہیں ہوتے کیونکہ ان میں اڑنے کی صلاحیت جب تک نہیں آتی وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوتے ہیں۔

جو جنگلی جانور کھانا حاصل نہیں کرسکتے ان کو کھانا فراہم کرنےکےسلسلےمیں امام رضا ؑ نے ان الفاظ میں وصیت فرمائی ہے: "جو کوئی اپنے گھر میں کھانا کھائےاور اس سے کچھ گرے تواسے کھالینا اور جو کوئی صحرا میں یا کسی کھلی جگہ کھائے تواسے گرے ہوئے کھانوں کے ٹکڑوں کو پرندوں اور بے گھر جنگلی جانوروں کےلئےچھوڑ دیناچاہیے۔

جو کوئی کسی شرعی یا کسی اور مقصد کی خاطر کسی حیوان کو ذبح کرنا چاہے تو اسلام نے ذبح کرتے وقت کچھ اخلاقیات کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔ ان میں سے یہ کہ جانور کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا،اس کی آنکھوں کے سامنے سے چھری کو چھپا کے رکھنا،اسے دکھاتے ہوئے نہ باندھنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے وہ خود  ہی مرجائے اور ذبح کرنے میں جلدی کرنا”۔

رسول اکرمؐ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نےتمہارے اوپر ہر چیز کے ساتھ احسان کو واجب قرار دیاہےجب تم جنگ کرو تو بہتر طور پر جنگ کرو اور جب تم ذبح کرو تو بھی بہتر طریقے سے ذبح کرو تمہیں چاہئے کہ چھری تیزکرے اور ذبح تیز کرے اور ذبح کرتےہوئے جانور سے پیارکرے۔

جس طرح حضرت امام زین العابدین ؑ نے جانوروں کو ذ بح کرنے سے قبل اسے پانی پلانے کی تاکید فرمائی ہے ،ان کے نانا نبی اکرم ؐ نے ایسے حیوانوں کو ذبح کرنے سے منع فرمایاہے جس کے چھوٹے بچے ہوں مگر یہ کہ وہ بیمار ہو انہوں نے فرمایا:بغیر کسی سبب کے بچہ رکھنے والے جانوروں کو ذبح کرنا مکرو ہ ہے۔

آپؐ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:ایک ایسے گدے کو دیکھا جس کے اوپر اس کے مالک نے کوئی نشانی لگائی تھی تو آپؐ نے فرمایا کہ جس نے بھی ایسا کیاہے اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔

یہ ایک عظیم انسانی حقوق کے فوری پہلو ہیں جنہیں اسلام نے حیوانوں کے ساتھ مختص کیاہےجسے اسلام نے بہتر طور پر انسان پر فرض کیاہےجو انسان کی عالمگیریت اور اس کے جانوروں کے ساتھ برتاؤ کا بہتریں ثبوت ہے۔