بے شک اسلام اپنی تعلیمات، اقدار اور احکامات لےکر آیا ہے تاکہ انسان اپنے آپ کو اپنی اور اپنے جیسے دیگر انسانوں کی غلامی سے بچائے رکھے اور اس پر ایسے حقوق اور فرائض لازم کیے جن کی وجہ سے اس کا وقار بڑھ سکے۔ اسلام نے انسان کی قدر و قیمت اور اس کی شان بلند کی۔ انسان کی سب سے پہلی تکریم یہ ہے کہ اسے خوبصورت شکل اور مناسب ہیئت دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار اور آسمان کو عمارت بنایا اور اسی نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا، یہی اللہ تمہارا رب ہے، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو عالمین کا رب ہے)) (غافر: 64) نیز فرمایا: (( اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور اسی کی طرف پلٹنا ہے)) (التغابن:3) اچھی خلقت اور خوش شکل بنا کر مکرم بنانے کے بعد الہٰی امتیازات سے نوازا۔ پھر اسے روشن عقل دی، جس کے ذریعے وہ امور کی تدبیر کر سکے اور حق و باطل، خیر و شر اور نفع و نقصان کے مابین تمیز کر سکے۔ اسی نعمت عقلی کے ذریعے اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کیا اور اس کی عزت افزائی کی۔ ((اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی)) (الاسراء: 70) اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہتر شکل و صورت، عقل و منطق اور دیگر نوازشات کے ذریعے مکرم بنانے کے بعد اسے دی گئی تمام نعمتوں اور امتیازات کی تحفظ کو عمومی حقوق و فرائض کی صورت میں لازم قرار دیا۔
ان تمام حقوق و فرائض کے ذکر سے قبل یہ مضمون ہم سے حق کے معنی جاننے کا تقاضا کرتا ہے
لغت میں حق سے مراد: وہ امر ثابت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں: "یہ امر حق ہے" یعنی ایسا امر جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن اصطلاح میں حق کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
"بے شک حق فرد یا اجتماع یا ان دونوں کے لیے ثابت شدہ ایک مصلحت کا نام ہے، جسے شارع حکیم مقرر کرتا ہے"۔
"حق وہ ہے جو شارع کا مقرر کردہ ہے اور اسے اس کی حمایت حاصل ہے"۔
بہر حال حق وہ ہے جسے شارع نے ثابت کیا ہو اور جسے لوگوں کےلیے مقرر کیا ہو۔
انسانی حقوق جنھیں شارع نے مقرر کیا ہے اور ثابت کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
1۔ زندگی کا حق:
اسلام نے واضح انداز میں فرد کے زندہ رہنے کے حق کا بہت اہتمام کیا ہے۔ کسی بھی قسم کی جارحیت یا اس زندگی کا قتل اور کسی فرد کا قتل تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ پس یہ بات انسانی حقوق میں شامل نہیں ہے کہ کسی دوسرے انسان کو ناحق قتل کیا جائے،بلکہ انسان کسی بھی ذریعے سے اور کسی بھی حال میں خود اپنی زندگی کے خاتمے کا بھی حق نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ((اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ (حکم) مقرر کر دیا کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی اور بتحقیق ہمارے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے پھر اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لوگ ملک میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے)) (المائدہ: 32) دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ((اور تم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کیا کرو، ہم انہیں رزق دیں گے اور تمہیں بھی، ان کا قتل یقینا بہت بڑا گناہ ہے)) (الاسراء: 31)
2۔ سوچنے اورآزادی رائے کا حق:
اسلام سوچنے اور ذہن کو کام میں لانے، کائنات کے عجائبات کو دیکھنے اور جہالت کے سرداروں، والدین کی زیردستیوں، معاشرے کے جبر اور ان کی پیرویوں سے چھٹکارہ پانے کی دعوت دیتا ہے۔ چناں چہ اسلام نے بہت سی عبرت آمیز مثالیں پیش کی ہیں:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ((کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میں غور نہیں کیا اور(یہ نہیں سوچا کہ) شاید ان کی موت کا وقت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟)) (الاعراف: ۱۸۵) نیز ارشاد فرمایا: ((اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر طرح کے پھلوں کے دو جوڑے بنائے، وہی رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں)) (الرعد: ۳)
سوچنے، ذہن کو کام میں لانے اور امور کائنات سے آگہی حاصل کرنے کی طرف دعوت دی جانے کے باوجود انسان نے سوچ و بچار سے گریز کیا اور چیزوں کو حقیقت بین نظر سے نہیں دیکھا۔ جس طرح قرآن عبرت دلاتا ہے: ((۔۔۔ ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں،۔۔۔)) (الاعراف: 179)
پس انسان کسی فکر، رائے یا دین کا پابند نہیں ہے اسے اپنے اختیاراور رائے کی آزادی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ((اور کہہ دیجئے: حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے،۔۔۔)) (الکہف: 29)
نیز فرماتا ہے: ((دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے،۔۔۔)) (البقرہ: 256)
3۔ برابری کا حق:
یہ ایسا حق ہے جسے اسلام نے انسانوں کے لیے مقرر کیا ہے، اسلام نے نسلی تفریق کو مسترد کیا ہے اور اس کے خلاف لڑا ہے۔ یہاں مساوات سے مراد: لوگوں کے مابین عدل اورانصاف سے کام لینا ہے۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں: "فلان اپنی رعایا کے ساتھ مساوات سے پیش آیا" یعنی ان کے درمیان عدل سے کام لیا اور حق دار کو اس کا حق دیا ہے۔ اسلام دین مساوات ہے یعنی ہر حق دار کو اس کا حق دیتا ہے اور لوگوں کے ساتھ انصاف کرتا ہے اور انسان کو اپنے حقوق کے حصول اور فرائض کی ادائیگی کے قابل بناتا ہے۔ بے شک نسل، قبیلہ اور رنگ قانون کے سامنے ایک انسان کو دوسرے انسان کے درمیان فرق نہیں کر سکتے۔ ((اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقیناً وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔)) (الحجرات: 13)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے، آپ ؐ نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے ارشاد فرمایا: "بے شک اللہ تعالیٰ نے اسلام کی آمد کے ساتھ دور جاہلیت کی نخوت اور آبا و اجداد کے ذریعے فخر و مباہات کرنے کو ختم کیا ہے۔ آگاہ رہو! لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آدم کو مٹی سے پیدا کیاگیا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقیناً وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے"۔
4۔ ملکیت کا حق:
ملکیت انسان کی فطرت میں موجود ہے اور جس کسی نے فطرت کو ممنوع قرار دیا اس نے گویا فطرت سلیم سے انحراف کیا۔ یقیناً اسلام نے انسانوں کے لیے اس حق کو مقرر کیا ہے اور کبھی بھی اسے ممنوع قرار نہیں دیا، جس طرح مارکسی اشتراکیت نے اسے ممنوع قرار دیا تھا اور نہ ہی رسی اجنبیوں کے ہاتھ میں دی، جس طرح سرمایہ دارانہ نظام نے کیا ہے۔ اسلام بغیر کسی افراط و تفریط کے عادلانہ اصول و ضوابط کے ذریعے حق ملکیت کو عطا کرتا ہے۔
ملکیت سے متعلق اسلام کی نظر کا خلاصہ دو نکات میں پیش کیا جاتا ہے:
الف۔ بے شک مال اللہ کا ہے اور اس نے انسانوں کو اس کا حق دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ((ان سے پوچھ لیجیے: آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ کہدیجئے: (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے،۔۔۔)) (الانعام: 12) اور فرماتا ہے: ((۔۔۔اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے،۔۔۔)) (الحدید: 7)
ب۔ اسلام استحصال اور دوسروں کا مال کھانے سے روکتا ہے۔ اس ضمن میں ارشاد فرماتا ہے: ((اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اسے حکام کے پاس پیش کرو تاکہ تمہیں دوسروں کے مال کا کچھ حصہ دانستہ طور پر ناجائز طریقے سے کھانے کا موقع میسر آئے)) (البقرہ: 188))
نیز فرماتا ہے: ((۔۔۔ تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھایا کرو مگر یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کرو ( تو کوئی حرج نہیں ہے) اور تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے))۔ (النساء: 29)