- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام میں عورت کا مقام
28 ذو الحجة 1441هـ

گزشتہ انسانی معاشروں میں بلکہ گزشتہ ادیان میں بھی جب کبھی ہم میں سے کوئی عورت کے حقوق کے بارے میں آگاہ ہوتا ہے تو اس میں ہمیشہ ایک منفی پہلو ہی نظر آتا ہے کہ عورت ہمیشہ مرد کی خدمت کرنے اور اس کی خواہشات پوری کرنے کےلئے ہے۔ اسی طرح آج کے دور میں بھی بعض ممالک اور بعض جدید معاشروں میں کہ جہاں عورت کی آزادی کے بڑے نعرے لگائے جاتے ہیں، عورت کی حالت انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن ہے۔ خاص کر جب وہ اپنی جسمانی اور روحانی ساخت کے بر خلاف پوری زندگی خود کماتی ہے اور خود ہی اپنے آپ پر خرچ کرتی ہے۔ جبکہ اسلام نے جو مقام عورت کو دیا ہے کہ وہ اقدار و تربیت اور حقوق کے ایک منظم نظام کے سائے میں اپنے ارتقاء کا سفر جاری رکھ سکتی ہے۔ اس نظام نے عورت کا ہاتھ تھام کر وہاں سے نکال دیا ہے جہاں مرد اسے رکھنا چاہتا تھا اور ایسا مقام دیا ہے جو اس کا خالق اس کےلئے چاہتا تھا اور جہاں آج عورت پہنچی ہوئی ہے۔

اسلام نے عورت کےلئے جو حقوق دئے ہیں ان کے بارے میں جان لینے سے پہلے ضروری ہے کہ عورت پر جتائے جانے والی ان ”منّتوں“ پر ایک نظر کریں جنہیں لوگوں کے بنائے گئے قوانین نے عورت کےلئے بنایا ہے اور انہیں ”حقوق“ کہا ہے۔ جبکہ ان قوانین میں عورت خود ”گروی“ کی طرح قیمت چکاتی ہے۔ اور مرد کی جبلت کے مطابق اپنی سوچ بنانے اور اس سے برابری کے چکر میں اسے سختی اٹھانی پڑتی ہے۔ جبکہ شارع مقدس اسلام نے مرد و عورت دونوں کے فطری فرق کی رعایت کی ہے۔ اور ان دونوں کے جوہری فرق کے لحاظ سے بھی ان کی رعایت کی ہے۔ مرد عورت کے عاطفی میلانات کے علاوہ، خواہ وہ جسمانی مضبوطی اور ذاتی ہنر اور ملکہ میں برابر بھی ہوں تب بھی مرد و عورت کا الگ الگ لحاظ کیا گیا ہے۔

اور اگر ہمیں مرد و عورت کے حقوق کی تقسیم میں کہیں فرق نظر بھی آتا ہے تو یہ کوئی کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں، بلکہ یہ مختلف اور متنوع کردار کی طرح ہے۔ پس اس بات کو کسی کمال یا نقص سے مربوط کرنا انصاف کی بات نہیں۔ یہ فرق مختلف کاموں کے تناسب اور اس کے برابر حق کے مطابق ہے۔ )وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا) (النساء ـــ23(

ترجمہ:  اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو، مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

یعنی مرد و عورت کے حقوق میں فرق ان کی خلقت میں فرق کی وجہ سے ہے۔ اسی لئے عورت کے اس کی اپنی حالت کے مطابق کچھ حقوق ہیں، پس ضروری نہیں کہ وہ حقوق مرد کے تناسب سے ہوں۔ اور اسی طرح مرد کے بھی کچھ حقوق اسی کے تناسب ہیں۔ عورت کے یہ حقوق در حقیقت شارع مقدس کی طرف سے اسے ایک حقیقی اور مستقل شخصیت ہونے کےلحاظ سے  ملے ہیں۔ کسی اور سے موازنہ کرتے ہوئے نہیں دئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ عورت کے اپنے کچھ ذاتی حقوق بھی ہیں جیسے معاشرتی حقوق، اقتصادی اور مالی حقوق وغیرہ۔ کیونکہ اسے بھی ایک مرد کی طرح ویسے ہی تمام حقوق حاصل ہیں کہ وہ کمال تک پہنچے، اور ایک اچھی زندگی گزارے، اور ایک باعزت مستقبل اور آزاد شخصیت بنے۔ (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُون)) (النحل ـــ 97)

ترجمہ: جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔

اسلام میں عورت کے حقوق کے بارے میں جاننے کےلئے ضروری ہے کہ ہم حقوق کی یہ دو قسمیں بیان کریں۔ فطری حقوق اور اکتسابی حقوق۔ یا عربی اصطلاح کے مطابق ضروری (بدیہی) حقوق اور کمالی حقوق۔ پس ضروری و بدیہی حقوق وہ ہیں جن میں کوئی شک کوئی بحث نہیں۔ مثلاً شادی کا حق، عزت نفس کا حق، ضروریاتِ زندگی جیسے روٹی، کپڑا مکان فراہم کئے جانے کا حق اور علاج، امن اور تعلیم کا حق وغیرہ۔ جبکہ عورت کے کمالی حقوق میں سیر و تفریح، باہر جانا اور تجارت کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ البتہ یہ سارے (کمالی) حقوق ایک نیک عورت کی مصلحت کےلئے کچھ شرائط اور ضوابط کے ساتھ مربوط ہیں۔ یہ شرائط و ضوابط بعض اوقات معاشرے کی مصلحت کی وجہ سے بھی ثانوی درجے کی حیثیت سے عورت کے بعض حقوق کو مقید کرتے ہیں۔

پس بنیادی طور پر اسلام نے مرد اور عورت کو انسانی قدر و قیمت کے اعتبار سے برابر قرار دیا۔ اور پھر ان دونوں  کو ان کے اعمال کی قبولیت کے لحاظ سے بھی مساوی قرار دیا۔ یہ ان کے عمل کا حق ہے۔ ”(سورہ النحل/97) اسلام نے عورت کو یہ حقوق اسی وقت عطا کئے جب بعض معاشرے عورت کو مرد کے برابر یا نزدیک سمجھنا تو دور کی بات، اسے انسان سمجھنے میں بھی تردد کا شکار تھے۔

جہاں تک معاشرے میں اجتماعی ذمہ داری اور دوسروں کے کاموںپر نگرانی کا تعلق ہے تو اسلام نے عورت کو بھی مرد کی طرح اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ ذمہ داری دی ہوئی ہے۔ یہ اصلاح کی ذمہ داری بھی معاشرہ سازی میں عورت کا حق کی طرح ایک حق ہے۔ جس طرح معاشرے کی بہتری کےلئے عورت کا رائے دینا اور سیاسی عمل میں کردار ادا کرنا اس کا حق ہے۔

اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عورت پر بھی برابر واجب ہے۔

الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِناتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِياءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَيُطِيعُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)) (التوبة ـــ71(

ترجمہ: اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔

ان معاشرتی امور میں عورت کو ذمہ داری سونپنا شارع مقدس کی طرف سے معاشرے کے نظام کو رو بہ عمل لانے میں مرد کی طرح عورت کی بھی اہلیت کا اعتراف ہے۔ اس لحاظ سے مرد عورت میں ان کی ظرفیت کے تقاضوں کے علاوہ کوئی فرق نہیں۔

جہاں تک عورت کےلئے حصول علم کا حق کی بات ہے اور اس علم کے ذریعے اسے اپنے دوسرےحقوق کی طرف بڑھنے کی بات ہے تو اسلام نے علم حاصل کرنا مرد کی طرح عورت پر بھی واجب قرار دیا ہے۔ اس میں عورت کےلئے کسی قسم کا کوئی عذر نہیں۔ ”طلب العلم فریضة علیٰ کلّ مسلمٍ و مسلمة“ پس ان تمام صورتوں کی بناء پر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عورت اور مرد کے حقوق کے درمیان جو تھوڑا بہت فرق ہے وہ در حقیقت ان دونوں کے جسمانی وجود اور صلاحیتوں میں فرق کی وجہ سے ہے۔ یہ فرق مرد و عورت کی ضروریات، تقاضے اور مردانہ و زنانہ قدرت اور صلاحیتوں کے مطابق ان کے واجبات میں بھی پایا جاتا ہے۔