سوشیالوجی کے ماہرین نے بڑی تحقیقات کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک بات جس کا لوگوں کے درمیان فیصلوں کرنے والے ججز میں ہونا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ جج کو حق بات پرکھنے والا اور عدالت کو قائم کرنے والا ہونا چاہیے۔ حق کی جستجو کرنا اور عدالت کو قائم کرنا یہ دو بنیادی خصوصیات ہیں جن پر کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔اگر معاشرے میں انصاف فراہم کرنے والوں میں یہ دونوں خصوصیات ختم ہو جائیں تو معاشرے میں انصاف کا نظام خراب ہو جاتا ہے،ظلم اور جرائم بڑھ جاتے ہیں۔اس سے معاشرے پر گرفت کمزور پڑ جاتی ہے۔سوشیالوجی کے ماہرین عدالت کو کسی بھی اچھے معاشرے کی بنیاد میں ضروری خیال کرتے ہیں۔حقیقی تہذیب یافتہ معاشرہ وہی ہوتا ہے جس میں تمام ہم وطن عدالت و انصاف کے ساتھ رہیں۔
امیر المومنینؑ نے ان ماہرین سے صدیوں پہلے اس حقیقت کو واضح کر دیا تھا کہ کسی بھی معاشرے کی بہتری اسی وقت ممکن ہے جب اس میں اس کا حاکم حق کے ساتھ فیصلے کرے۔اسی لیے حضرت علیؑ نے شعبہ انصاف کو وہ مقام دیا جس کا یہ مستحق تھا کیونکہ آپؑ خلیفۃ الرسولﷺ تھے اور آپﷺ کے بعد آپ ﷺ کے امور کو سنبھالنے والے تھے۔آپؑ لوگوں کے حقوق کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اسی طرح آپ معاشرے میں عدالت کی اہمیت سے آگاہ تھے۔آپ ؑ نے وہ معاشرہ بنانے کی کوشش کی جس کا حکم اللہ تعالی نے دیا تھا۔
آپؑ نے عدالتی نظام میں جو اصلاحات کیں ان میں سے اہم آپ کی والی مصر حضرت مالک اشتر کو وہ مشہور وصیت ہے ۔یہ وصیت کچھ ان چیزوں کو بھی شامل ہے جن کا انصاف کرنے والے میں ہونا بہت ضروری ہے آپؑ اس میں فرماتے ہیں: اس کے بعد لوگوں کے درمیاں فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب کرنا جو رعا یا میں تمھارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔ اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میں تنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کر نے والوں پر غصّہ کرتے ہوں۔ نہ غلطی پر اَڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے میں تکلّف کرتے ہوں اور نہ ان کا نفس لا لچ کی طرف جُھکتاہو اور نہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔ شہادت میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔ فریقین کی بحثوں سے اُکتانہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے فیصلہ کردیتے ہوں۔ نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے اُبھارنے پراو نچے ہوجاتے ہوں۔ ایسے افرادیقینًا کم ہیں۔ لیکن ہیں۔پھراس کے بعد تم خود بھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کردینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتا ج نہ رہ جائیں انھیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اور مقام عطا کرنا جس کی تمھارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہو نچا نے سے محفوظ ہو جائیں گے۔ مگر اس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرارکے ہاتھوں میں قیدی رہ چکاہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہو تا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔
اس خط میں آپؑ نے مختلف امور کی طرف رہنمائی ان میں سے کچھ یہ ہیں:
۱۔جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ فیصلہ کرتے ہوئے خود کو تنگی میں مبتلا نہ کرے۔اس کی حالت مخلوق خدا میں سب سے کمزور نہ ہو بالخصوص جب فیصلے کرنے اور ان کی تفتیش کرنے میں بہت زیادہ وقت لگ رہا ہو۔
۲۔یہ ضروری ہے کہ جج اپنے فیصلے میں بہت زیادہ غور و فکر کرے۔اور ساتھ فیصلہ صادر کرنے سے پہلے جستجو بھی کرے۔فیصلہ کرنے میں جلدی بالکل نہ کرے۔
۳۔جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں پارٹیوں سے سوالات کرے تاکہ حق تک پہنچ سکے اور کسی غلطی کا مرتکب نہ ہو۔جج کو اگر بعد میں بھی حق بات کا پتہ چلے تو اسے فورا اپنی رائے کو حق کے مطابق کر لینا چاہیے ۔
۴۔جج کو اتنی مالی مدد ملنی چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی وقار کے مطابق زندگی بسر کر سکے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ سلطان کی طرف دیکھنے اور اس کی نظر کے مطابق فیصلے کرنے یا مالی کمزوری کی وجہ سے وہ رشوت لینے لگے۔
۵۔جج کے لیے ضروری ہے کہ اپنے فیصلے پر پوری طرح دماغ لڑائے اور فیصلہ کرنے میں کسی طرح بھی جلدی نہ کرے،فیصلہ کرنے سے دو منٹ پہلے سوچے،فیصلے کے نفاذ میں جلدی نہ کرے کہ ایک بات ذہن میں آئی اور فیصلہ کر دیا۔جج کو معاملے پر بہت زیادہ سوچ و بچار کے بعد ہی مطمئن ہونا چاہیے۔جج کو ہر معاملے میں احتیا ط کرنی چاہیے اور احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ جج ہمیشہ دور اندیش ہوتا ہے۔
۶۔جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ شبہات اور شک سے پرہیز کرے کیونکہ حضرت علیؑ کا فرمان ہے شک سے رکیں۔اس کا مطلب یہ ہے قاضیوں کو سب سے زیادہ اس چیز سے محتاط رہنا چاہیے جس کے بارے میں ان کے خلاف کوئی بھی بات کی جا سکتی ہو۔
۷۔جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانونی کاروائی کے لیے ملزم اور بے گناہ کے سامنے جو چارج شیٹ ہے وہ پیش کرے تاکہ سچائی کو واضح کیا جا سکے اور ثبوتوں کے ساتھ بات کی جائے۔جج ہر دو فریق کی بات سننے کا پابند ہے حضرت علیؑ کے اس فرمان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے:وہ انہیں دلائل کے ساتھ پکڑتا ہے۔
۸۔ججز کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ باحوصلہ ہوں،غضبناک اور تلخ رویہ نہ رکھیں،بوریت اور معاشی پریشانی کا اظہار نہ کریں اور حق بات تک صبر کا اظہار کیے بغیر پہنچ جائیں۔
۹۔جج کے لیے یہ ضروری ہے کہ چاپلوسی کر کے دھوکہ نہ دے،نہ ہی تعریف کے ذریعے بہکاوے میں آئے اور نہ ہی کسی ایک فریق کی بات سے فیصلہ میں کمزور پڑے۔
حضرت علیؑ نے عدالت کے حوالے سے کچھ اور اہم نکات کو مالک اشترؒ کے نام کے علاوہ بھی بیان کیا ہے۔ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ قاضی کے فیصلوں میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ایک جیسے موارد میں مختلف فیصلے انتہائی منفی اثرات کے حامل ہوتے ہیں اور عدالتی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔یہ عدل اجتماعی کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔فیصلوں میں یکستانیت کا نہ ہونا اور ان کا اختلاف لوگوں کی نظر میں پورے عدالتی نظام کو مشکوک کر دیتا ہے۔ان کے معاملات الجھ جاتے ہیں۔اس طرح عام لوگوں کا ذہن قانونی نظام سے متنفر ہو جاتا ہے۔امام علی ؑ قاضیوں اور ذمہ داران سےفرماتے ہیں: جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ہے . پھر وہی مسئلہ بعینہٌ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ اس پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہے تو وہ سب کی رایوں کو صحیح قرار دیتا ہے . حالانکہ ان کا اللہ ایک , نبی ایک اور کتاب ایک ہے .(انہیں غور تو کرنا چاہیئے ) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کر کے اس کے حکم بجا لاتے ہیں یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ہے اور یہ اختلاف کر کے عمداً اس کی نا فرمانی کرنا چاہتے ہیں . یا یہ کہ اللہ نے دین کو ادھورا چھوڑدیا تھا اورا ن سے تکمیل کے لئے ہاتھ بٹانے کا خواہشمند ہوا تھا ،یا یہ کہ اللہ کے شریک تھے کہ انہیں اس کے احکام میں دخل دینے کا حق ہو, اور اس پر لازم ہو کہ وہ اس پر رضا مند رہے یا یہ کہ اللہ نے تو دین کو مکمل اتارا تھا مگر اس کے رسول نے اس کے پہنچانے اور ادا کرنے میں کوتاہی کی تھی،. اللہ نے قرآن میں تو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور اس میں ہر چیز کا واضح بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ قرآن کے بعض حصے بعض حصوں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں .چنانچہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کا بھیجا ہوا ہوتا , تو تم اس میں کافی اختلاف پاتے اور یہ کہ اس کا ظاہر خوش نما اور باطن گہرا ہے. نہ اس کے عجائبات مٹنے والے اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں . ظلمت (جہالت ) کا پردہ اسی سے چاک کیا جاتا ہے ۔
یہاں خوبصورت بات یہ ہے کہ موجودہ دور کا عدالتی نظام انصاف کی فراہمی میں ان بہت سے اصولوں پر مبنی ہے۔یہی باتیں دنیا کی بڑی بڑی عدالتی اکیڈمیون میں پڑھائی جاتی ہیں اور یہ سب ایک طویل عدالتی تجربے کے بعد ہوا ہے جس کے لیے انسانیت کو ایک لمبا سفر طے کرنا پڑا ہے۔حضرت علی ؑ نے اپنی ان وصیتوں میں ان قوانین و قواعد کو انصاف کی فراہمی کے لیے کسی بھی جج کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔یہ عدالتی نظام اور کسی ایک جج ہر دو کے لیے رہنمائی کا باعث ہے۔حضرت علیؑ نے جن تعلیمات کا تذکرہ فرمایا ہے یہ انفرادی اور اجتماعی عدالت کے قیام کے لیے انہتائی ضروری ہے۔ہم جس مثالی عدالتی نظام کی بات کرتے ہیں اس کے قیام کے لیے ان خصوصیات کا ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر وہ ممکن نہیں ہے