آپ کا نام حضرت خدیجہؑ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی تھا خویلد مکہ کے سرداروں اور اشراف میں سے تھے۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت زائدہ بن الاصم تھیں۔ آپؑ ہجرت سے اڑسٹھ برس پہلے پیدا ہوئیں ۔حضرت خدیجہؑ بعثت کے دسویں سال وفات پا گئیں اس وقت ان کی عمر پنسٹھ برس تھی،آپ کی وفات ہجرت سے تین برس پہلے ہوئی۔آپ کی تدفین مکہ مکرمہ میں بنی ہاشم کے قبرستان میں ہوئی جہاں اہل اسلام نے ایک بڑا قبہ مبارک تعمیر کیا تھا جو وہابی تکفیری تحریک تک وہاں موجود تھا اب قبہ کو گرا دیا گیا اور اس کے ارد گرد جگہ خالی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ حضرت خدیجہؑ کو طاہرہ کے لقب سے یاد کرتے تھے جو آپ کے اعلی مرتبے،عقلمند ہونے ،حسن اخلاق اور اعلی شان کی وجہ سے تھا۔حضرت خدیجہؑ تجارت کرتی تھیں جس سے آپ نے بہت منافع کمایا آپ بہت سے غلاموں ،سونا اور چاندی کی مالکہ تھیں۔اللہ تعالی نے آپؑ کے مال کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کا کام لیا اور اسلام پر خرچ ہوا۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
"ما قام الإسلام الا بأموال خديجة وسيف علي" اسلام کو خدیجہؑ کے مال اور علیؑ کی تلوار کے ذریعے قوام ملا۔
تاریخ دانوں اور محققین نے دقیق ابحاث کے بعد کہا ہے کہ حضرت خدیجہؑ نبی اکرمﷺ کے ساتھ شادی کے وقت کنواری تھیں۔ابن شہر آشوب نے کہا ہے کہ نبی اکرمﷺ سے شادی کے وقت آپ کنواری تھیں۔جہاں تک رقیہ اور زینب کی بات ہے وہ ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ ؑ کی بہن تھیں آپؑ کی بیٹیاں نہ تھیں۔ان بچیوں کا باپ ابوہالہ بند بن نباش تھا۔ابوالقاسم کوفی نے کہا ہے کہ شیعہ و سنی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قریش کےتمام سرداروں اور اشراف نے حضرت خدیجہؑ کا رشتہ مانگا لیکن آپ نے سب کا انکار کر دیا،سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان سب اشراف کو تو انکار کر دیا جائے اور تمیم کے ایک اعرابی سے رشتہ قبول کر لیا جائے؟یعنی ابوھالہ بن نباش کا رشتہ قبول کر لیا جائے جو تمیمی اعرابی تھا۔
یہ ابوہالہ دراصل ہالہ کے شوہر ہیں اور یہ ہالہ حضرت خدیجہ ؑ کی بہن ہیں۔ابو ہالہ کا انتقال ہوا تو وہ آپ کی بہن ہالہ اور ان کی بیٹیاں آپ کے ساتھ منتقل ہو گئیں۔یہ دو بچیاں زینب و رقیہ وہ تھیں جن سے عثمان بن عفان نے ایک دوسری کے بعد شادی کی۔
حضرت خدیجہؑ اور رسول اکرمﷺ کی شادی
نبی اکرمﷺ مکہ اور اطراف مکہ میں صادق اور امین کے نام سے مشہور ہو چکے تھے کہ خدیجہ بنت خویلدؑ جو معروف تاجرہ تھیں آپﷺ کے ساتھ تجارت کا فیصلہ کیا اورآپﷺ کو بلایا۔آپﷺ نے اس دعوت تجارت سے اتفاق کیا اور حضرت خدیجہؑ کا مال لے کر شام کا سفر کیا۔جب نبی اکرمﷺ بہت بڑے منافع کے ساتھ تجارتی قافلہ لے کر واپس آئے تو آپ کے امانتداری کے ساتھ منافع نے لوگوں کو کافی حیران کیا۔یہیں سے حضرت خدیجہ ؑ نے شادی کی پیشکش کی جسے نبی اکرمﷺ نے قبول کر لیا۔
ظہور اسلام اور ایمان خدیجہؑ
نبی اکرمﷺ اور حضرت خدیجہؑ آرام دہ زندگی گزار رہے تھے کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالی نے آپﷺ کو نئے دین کی وحی کی۔حضرت خدیجہؑ اپنے شوہر کی کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے والی پہلی خاتون تھیں۔اسی بات کی ابن عباس نے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا:"أن أول من آمن به وصلّى خلفه هما علي بن أبي طالب وزوجته خديجة بنت خويلد عليهما السلام"
سب پہلے جو ایمان لایا اور حضرت محمدﷺ کے پیچھے نماز پڑھی وہ علی بن ابی طالبؑ اور آپ کی زوجہ خدیجہ بنت خویلد ؑ تھیں۔
حضرت خدیجہ ؑ کو نبی اکرمﷺ کے ہاں اعلی مقام حاصل تھا آپ کی خاص منزلت تھی۔نبی اکرمﷺ اپنی پوری زندگی آپ کو نہیں بھولے آپ ہمیشہ ہر محفل میں حضرت خدیجہ ؑ کا ذکر بھلائی اور تعریف سے کیا کرتے تھے۔آپﷺ نےفرمایا:
"والله لقد آمنَت بي إذ كفر الناس، وآوتني إذ رفضني الناس، وصدّقتني إذ كذّبني الناس، ورُزِقَت مني حيث حُرِمتُموه"
خدا کی قسم وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے میرا انکار کیا،اس وقت میرے پاس آئیں جب لوگوں نے دوری اختیار کی،اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور اس وقت مجھ پر خرچ کیا جب لوگوں نے روکا۔
حضرت خدیجہؑ کا اسلام پھیلانے میں اہم کردار ہے۔انہوں نے مال خرچ کر کے اور خود زحمت کر کے اسلام کی دعوت پھیلائی۔آپؑ نے خود کو نبی اکرمﷺ کے عظیم مشن کے لیے وقف کر دیا اور اس راستے میں قریش کی جانب سے اذیتوں اور مشکلات کا سامنا کیا۔یہ ایام آپ کی زندگی کے مشکل ترین ایام تھے ان ایام میں حضرت خدیجہ ؑ ایک پناہ گاہ بنی رہیں ۔
حضرت خدیجہؑ کی حمایت اسلام
حضرت خدیجہؑ نے آپﷺ کی بہت زیادہ مالی مدد کی اور یہ بات معلوم ہے کہ کسی بھی انقلاب یا اصلاحی تحریک میں ابتدائی دور مشکل ہوتا ہے اور ابتدا میں ہر تحریک کمزور ہوتی ہے۔ایسے میں ان تحریکوں کو جاری رکھنے اور لوگوں کو ثابت قدم رکھنے اور ضروریات کو پورا کرنے اور نشرواشاعت کرنے کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمدﷺ پر خصوصی کرم کیا اور ان کو حضرت خدیجہؑ کی سخاوت و عطا کے ذریعے بڑا مال عطا کر دیا۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی (الضحی ۸) اور آپ کو تنگ دست پایا تو مالدار کر دیا۔
نبی اکرمﷺ اس فضل کو کبھی نہیں بھولے اور ہمیشہ حضرت خدیجہؑ کے اس جذبے کا ذکر کرتے رہے فرمایا کرتے تھے:
"ما نفعني مالٌ قط، مثل ما نفعني مالُ خديجة" کسی مال نے مجھے خدیجہ ؑ کے مال جیسا فائدہ نہیں پہنچایا۔
خاص طور پر جب آپﷺ اور خاندان بنی ہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تھا جہاں انتہائی تنگی کی زندگی تھی۔اس طویل مدت میں جو اس گھاٹی میں گذری جب قریش مکہ نے مکہ سے بے دخل کر دیا تھا تو اس وقت حضرت خدیجہ ؑ کے مال اور ابوطالبؑ کی سرپرستی سے ہی ان شدید مشکلات پر قابو پا سکے۔
حضرت خدیجہؑ کی وفات
نبی اکرمﷺ حضرت خدیجہ ؑ کے پاس آتے ہیں آپ ﷺ حضرت خدیجہ ؑ کو دیکھتے ہیں اور اس وقت ان کو اس حالت میں دیکھ کر غم و الم آپﷺ کے قلب پر طاری ہو جاتا ہے، آپﷺ فرماتے ہیں آپ کو یوں دیکھ کر مجھے دکھ ہو رہا ہے۔جب حضرت خدیجہ ؑ کی روح پاک پرواز کر گئی۔حضرت فاطمہ زہراؑ آپﷺ سے لپٹ گئیں اور بار بار کہنے لگیں میری امی کہاں ہیں؟ میری امی کہاں ہیں؟ اس وقت حضرت جبرائیلؑ نازل ہوئے اور رسول اکرمﷺ سے کہا حضرت فاطمہ ؑ سے کہیں:
"أن الله بنى لأمك بيتا في الجنة من قصب، لا نصب فيه ولا صخب.
اللہ تعالی نے آپؑ کی ماں کے لیے جنت میں لکڑی سے گھر بنایا ہے جس میں نہ کٹاو ہے اور نہ ہی شور ہے۔
حضرت ابوطالبؑ اور حضرت خدیجہؑ کا انتقال ایک ہی سال میں ہوا اسی لیے نبی اکرمﷺ اور مومنین نے اس سال ان دونوں پر بہت غم کیا۔اسی لیے اس سال کو عام الاحزان کہا جاتا ہے۔یہ ہجرت سے تین سال پہلے ہوا۔نبی اکرمﷺ پر حضرت خدیجہؑ کی وفات کا بہت اثر ہوا،آپ کا چلے جانا نبی اکرمﷺ پر گراں گزرا۔آپ ایک وفادار اور مخلص خاتون تھیں جو اس وقت آپ کے ساتھ کھڑی ہوئیں جب بہت مشکل وقت تھا۔آپ کی زندگی ایک مسلسل جدو جہد کا نام ہے جس میں آپ نے اپنا سب کچھ اسلام کے لیے قربان کر دیا۔ حضرت خدیجہؑ کو بنی ہاشم کے قبرستان میں حجون میں دفن کیا گیا۔جب آپﷺ نے حضرت خدیجہ ؑ کو قبر میں اتارا اس وقت ان کی عمر پنسٹھ برس تھی۔کافی عرصہ نبی اکرمﷺ کے گھر پر غم کا اثر رہا جو آپ کے جانے سے پیدا ہوا تھا۔