انسانی افکار کا اختلاف اور ان کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ایک طبعی امر ہے بلکہ کسی بھی انسانی معاشرے میں اس کا واقع ہونا ایک حقیقت ہے اور اس سے کوئی معاشرہ بچا ہوا نہیں ہے۔روئے زمین پر کوئی ایسا معاشرہ نہیں ہے جس میں ایک سے زیادہ آراء اور ایک سے زیادہ افکار نہ پائے جاتے ہوں۔انسانی معاشرے میں افکار کی کشمکش جاری رہتی ہے اور اسی کشمکش کے نتیجہ میں انسانی معاشرے میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر وجود میں آتے ہیں جن کی بنیادکسی حادثہ یا علم پر ہوتی ہے۔ کیونکہ دین انسانی معاشرے کی ہی ایک اہم ترین چیز ہے اور وہ بھی اسی طرح ہے کہ اس میں بھی بحث و تفکیر کا عمل جاری رہتا ہے جس کے نیتجے میں مختلف مذاہت و مکاتب وجود میں آتے ہیں۔یہاں پر ایک بات اور بھی ہے کہ دین میں لوگوں کا اختلاف اور بعض اوقات متباین آراء بھی موجود ہیں۔دین کے اندر ،فلسفہ دین کے بارے میں ،یہ چیز دین کا مصدر بن سکتی ہے یہ نہیں بن سکتی،اس مذہب میں یہ چیز قابل قبول ہے، دوسرے میں قابل قبول نہیں ہے ایک ہی مذہب میں ایک سے زیادہ آراء پائی جاتی ہیں۔خود نص کے اطلاق کے بارے میں ایک سے زیادہ نظریات ہوتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اور نص کے درمیان ایک طویل زمانہ آ چکا ہے۔اس طویل زمانہ میں بہت سی فکری و ثقافتی تبدیلیاں آئی ہیں اور بہت سے انقلابات آئے ہیں۔اس سے نص کے بارے میں کئی احتمالات نے جنم لیا ہے۔اس میں دینی نص کی بات کی جائے تو مسیحیت میں تو انجیل کے کئی ورژن ہیں اورقرآن کی بات کی جائے تو قرآن کی کئی تفسیریں کی گئی ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ قراۃ النص دین کی اہم ترین دلیل ہے اور ایک طرف سے اس کے نقل ہونے کی شرائط اور دوسری طرف اس کا ہم تک صحیح پہنچنا اہم ہے۔اس کے علاوہ ایک بات بہت ہی اہم ہے کہ زبان کیونکہ مسلسل تبدیلی کی زد میں رہتی ہے اس لئے اس کے مطالب تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پس زبان کی مسلسل حرکت نے متن کو سمجھنے کے حوالے سے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنی عقل و فہم کے مطابق متن سے مختلف معانی کو سمجھتا ہے۔ اس میں متن پڑھنے والے کی ذہنی ساخت،نفسیاتی ساخت، اس کو کس طرح کا علمی ماحول میسر رہا اور دیگر بہت سے عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس اختلاف کے نتیجے میں لسانی اور فکری طور پر مختلف گروہ وجود میں آئے جن کی اپنی اپنی آراء و نظریات ہیں اس کی وجہ سے ہی مذہب پر تحقیق کرنے والوں کی آراء میں فرق پڑا۔
انفرادی طور پر دیکھا جائے تو یہ تباین افکار ایک مساقتی محرک ہے جو معاشرے میں نئی آراء کو فروغ دیتا ہے اور ہر صاحب علم کی رائے کو دوسری آراء کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔یہاں ایک بات نہایت اہم ہے کہ بڑے نظریات اور معاشرے کے بڑے مکاتب فکر آراء کو زیادہ جزیات میں تقسیم نہیں ہونے دیتے بلکہ اس اختلاف کے باوجود یہ ممکن ہے کہ ان تمام مکاتب کی آراء پر تباین صدق آئے۔البتہ یہ بات ضروری ہے کہ علمی و فکری دوڑ اصل مذہب اور فلسفہ تخلیق کے خلاف نہ ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (سورہ الحجرات ۱۳)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔
اس بنیاد پر اخلاقی طور پر اور دینی طور پر یہ قابل فہم ہے کہ کوئی بھی شخص کوئی بھی رائے رکھ سکتا ہے اور اس میں کوئی مکتب فکر،کوئی نظریہ یا کوئی شخصیت مانع نہیں ہو سکتی۔اگر چہ یہ بھی ہے کہ اس کی اس رائے کے حق دفاع کو قبول کیا جائے جو عقل اور مکالمہ کی بنیاد پر ہو گا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہوتا ہے:
((ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ.))(النحل ـ119)
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔
ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی فکری رہنمائی کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کرے جو اس کی رہنمائی کرے اور یہ اس سے متصل ہو کر رہنمائی لے اور اس کے افکار سے خوشی پائے۔اس وجہ سے وہ اپنی مرضی سے کسی دینی رہنما کا انتخاب کر لیتا ہے۔لیکن اگر یہ حق نہ دیا جائے تو پہلےجو بات کی گئی ہے کہ ہر ایک کو رائے کا حق ہے اس کی نفی ہو جائے گی ۔ کسی پر ایک خاص رائے کو مسلط کرنا اور دوسروں کی رائے کوکم اہمیت دینا درست رویہ نہیں ہے۔اس سے معاشرے میں دوسروں کے خیالات کو ختم کرنے کا جواز مل جاتا ہے۔ چند صدیاں پیش ترصلیبی جنگوں میں یہی ہوا تھا اور آج کے زمانے میں انتہاء پسندی کی بنیاد یہی نظریہ ہے جس کے نتیجے میں القاعدہ اور داعش پیدا ہوتی ہیں۔
جب ہم انسان کی انفرادی اور اجتماعی آزادی رائے و افکار کی بات کرتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالی نے عقل جیسی عالی نعمت سے نوازا ہے جو انسان کے لئے اللہ کا تحفہ ہے۔انسان اپنے افکار کو عقل کے ذریعے بناتا ہے اور اسے منطق پر پیش کرتا ہے تاکہ اسے یقین حاصل ہو سکے اور کسی بھی رائے کومکمل آزادی کے ساتھ قائم کر سکے۔کہ اسے اختیار کے ساتھ قبول کرنے کی صلاحیت ہی سے انسان مکلف بنتا ہے،اسی سے انسان زمین پراللہ کا خلیفہ قرار پاتا ہے۔یہی بات اس کا موجب بنتی ہے کہ انسان الہی خطاب کے قابل ہو جائے۔اسی عقل اور اختیار کی وجہ سے انسان ثواب و عقاب کا حقدار ٹھہرتا ہے۔یعنی جب وہ نیک کام کرے گا تو ثواب ملے گا اور اگر برے کام کرے گا تو اسے سزا ملے گی۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس انسان نامی سامی مخلوق کو اختیار کی نعمت سے مالا مال کیا ۔ چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا) (الإنسان ـ3). ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔
ہم اس طبعی فطرت کی بات کر رہے ہیں جسے اللہ تعالی نے اس انسان کے لیے خلق فرمایا ہے۔اللہ نے اس انسان پر بہت سے احسان فرمائے ہیں ان میں سے ایک اہم احسان یہ ہے کہ یہ انسان فکر کرتا ہے اور اپنی رائے کا اظہار کرتاہے۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ انسان اپنے اور اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ برائی کا ارادہ بھی کرتا ہے۔ اورکچھ لوگ دوسروں سے وہ اختیار اور فکری آزادی چھین لیتے ہیں جو اللہ تعالی نے اسے دی ہوئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ ویسے ہی سوچیں جیسے ان کے سلف نے سوچا ہے۔ وہ سلف کی طرح سوچنے کی قید لگا کر براہ راست یا بالواسطہ سوچنے پر پابندی لگا دیتے ہیں۔کچھ ایسے افکار بھی ہیں جو دوسروں کی آزادی پر قدغن لگاتے ہیں جیسے اللہ کی عبادت کرنے سے روکتے ہیں اور اپنی سوچ کے مطابق پیروی کرنے کا کہتے ہیں۔اس طرح یہ دوسروں کی آزادی کے حق کو سلب کر لیتے ہیں۔وہ اپنی آراء کو دوسروں پر ٹھونس دیتے ہیں۔ایسے لوگ اپنی رائے کے نفاذ کے لیے دبدبہ اور دھونس کا سہارا لیتے ہیں۔اس طرح وہ ان لوگوں سے آزادی کو چھین لیتے ہیں جو ان سے مختلف اور ان کی سوچ کے مخالف سوچنا چاہتے ہیں۔یہ مسلط شدہ طاقتور گروہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے اور سب کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے۔
عقل و فکر ایک بڑی نعمت ہیں اور یہ نعمت اللہ کی طرف سے تمام انسانوں کے لیے ہے۔یہ خصوصیت انسان کی اہم ترین خصوصیت ہے اور اس کے مطابق ہی اسی عہدہ و اختیار دیا جاتا ہے۔دنیا میں غلام بنانے کی خواہش رکھنے والے گروہ اس الہی سنت کو قبول نہیں کرتے۔وہ ہر تشدد و جبر کا ذریعہ اختیار کر کے بھی یہی چاہتے ہیں کہ دوسروں کی اس الہی نعمت کو چھین لیں۔یہ فکری غلام بنانے والے چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے اصولوں کے مطابق سوچے۔یہ حریت فکر ان لوگوں کی طرف سے نہیں ہے ۔بلکہ یہ ایک ایسے گروہ کی ہے جو غلام بناتا ہے کہ دوسرا انسان ان کی فکر کو قبول کر لے اور اب قوت و طاقت کے زور پر اسے دوسروں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ان کے مقابل آزادی فکر کے داعی لوگ ہیں۔ان کے مقابل اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔ان کی رائے یہ ہے کہ تحقیق کرنے والوں کو آزادی فکر کے ساتھ سوچنا چاہیے یہی وہ لوگ ہیں جو ان کج فکر لوگوں کے مقابل آزادی فکر کا نعرہ لگا رہے ہیں اور حقیقت کے پیرو ہیں۔
جب ہم ان کی رائے کو منطق کی نظر میں دیکھتے ہیں تو یہ بات ہر صاحب فکر کے نزدیک واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی فکر کتنی کج روی کا شکار ہے۔وہ اس فکر کو تمام انسانوں کے لیے بطور نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ایک بات طے ہے کہ کوئی بھی انسانی فکر غلط ہو سکتی ہے اور کسی بھی رائے پر بحث ہو سکتی ہے۔کوئی بھی کسی کو رائے کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔کسی ایک طرف کو غلط اور دوسری کو درست قرار دے دینا درست نہیں ہے۔ہاں البتہ اگر کوئی آزادی فکر سے تحقیق کر کے کسی ایک نتیجہ کو اختیار کر لیتا ہے تو یہ اکراہ نہیں ہو گا کیونکہ جو دلیل سے حقیقت کو کشف کرتا ہے وہ مجبور نہیں ہے وہ آزاد ہے ۔ پس وہ چاہے تو اس نظریہ کو مان لے یا رد کر دے۔یہ عقل و منطق کے خلاف ہے کہ ایک ایسی بات پر جبر و اکراہ کیا جائے جو اللہ نے دی ہے۔ یہ آزادی فکر اس کی بے شمار نعمات میں سے ایک نعمت ہے۔اللہ تعالی نے کسی کو اپنے اوپر ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا۔بہت سی قرآنی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جبر و اکراہ سے ایمان لانا قبول نہیں ہے۔ایمان لانے کے لیے بہت ہی ضروری ہے کہ آزادی کے ساتھ ایمان لایا جائے۔اللہ نے تمام انبیاء و رسل کو صرف و صرف تبلیغ کے لیے بھیجا ہے۔اورانسان کو ایمان اختیار کرنے اور کفر اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ ))(الكهف ـ29)
اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔
اللہ تعالی کی یہ نعمت مومن و کافر ہر کسی کے لیے اس کی زندگی میں میسر ہے ارشاد باری ہے:
(كُلًّا نُّمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا))(الإسراء ـ20)
ہم (دنیا میں) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے رب کے عطیے سے مدد کرتے ہیں اور آپ کے رب کا عطیہ ـ(کسی کے لیے بھی) ممنوع نہیں ہے۔
اگر اللہ تعالی چاہتا تو دنیا جہاں کے سارے کے سارے لوگ ایمان لے آتے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:
(وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ)(يونس ـ99)
اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی مشیت یہ نہیں ہے کہ سارے لوگ مومن بن جائیں۔یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاءؑ کو زبردستی بھی منوانے سے منع فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالی آزادی فکر اور دلیل سے قبول کرنے کا حکم دیتا ہے ارشاد باری ہے:
(ا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)(البقرة ـ256).
دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
ان تمام ادلہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آزادی فکر سے اپنی رائے کو قائم کرنا یہ اللہ کی ایک نعمت ہے اور اس میں جبر و اکراہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے دنیا کو مقام امتحان و آزمائش قرار دیکر ایمان کے معاملے میں جبر و اکراہ کو روا نہیں رکھا جو انسان کے لیے سب سے بہترین اور فائدہ والا تھا تو دوسرے افراد یا تسلط پسند گروہوں کے لئے فکری جواز کیا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ دوسروں پر اپنے خیالات اور نظریات مسلط کرتے ہیں ، اگرچہ یہ توحید یا توحید کے دفاع کے نام پر ہی کیوں نہ ہو ؟ انشاء اللہ ان سوالات کا جواب دوسرے مقالات میں پیش کریں گے۔