- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


قرآن کے ترجمان
22 جمادى الاخير 1440هـ

اللہ کی ذات نے چاہا کہ اس کائنات کے نظام کو واسطوں کے ذریعے چلایا جائے اور انہیں کو مخلوقات کے درمیان واسطہ قرار دیا جائے۔ اس مخلوق میں سب سے اہم انسان کی ذات ہے جسے اللہ نے عزت دی ہے اور زمین پر اسے خلیفہ قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے

((وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ..........)) (البقرة -30)

ترجمہ: اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کو کہا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں

اورتاکہ باشعور مخلوق کے ساتھ اللہ کی ذات کا رابطہ استوار رہے اللہ نے درمیان میں واسطوں کو اختیار کیا اور یہ جو درمیان میں واسطہ ہے وہ وہی چاہتے ہیں جو جو اللہ کی ذات چاہتی ہے حکمت اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ ان افراد کو جنہیں چنا گیا وہ نبی المرسلین ہوں جو الہی منصب خلافت کےاعلی حقدار ہوں اورچونکہ یہ اللہ کی عظیم امانت ہے جسے انہوں نے لوگوں کی ہدایت کے لئے اٹھایا ہوا ہے یہ ایسی امانت ہے جو بشارت بھی دیتی ہے اور ڈراتی بھی ہےچنانچہ آیت ہے

((كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ..)) (البقرة -213)

لوگ ایک امت تھے اللہ نے نبیوں کو بھیجا جو ان کو خوشخبری بھی سناتے ہیں اور ڈراتے بھی ہیں اور ان کے ساتھ اللہ نے کتاب مجید کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں جس نے میں وہ اختلاف کریں۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان کے رہبر اور خاتم المرسلین قرار پائے تمام سابقہ ادیان سماوی کا خاتمہ ہوا قرآن مجید کو ان ادیان کا ستون قرار دیا گیا  قرآن مجید ایک دستورحیات ہے جس میں گزشتہ تمام آسمانی ادیان اور صحیفوں کا خلاصہ موجود ہے اس میں بعض قوانین نسخ ہوئے اور بعض ثابت ہیں اس میں ہرزمانے کی شریعتوں کا تذکرہ ہے اور چونکہ اللہ تعالی کی جانب سے موت کا فیصلہ حتمی ہے جو سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آئی (( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ)) (الزمر-30)، بے شک تو بھی مر جائے گا اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔

اس بنا پر ضروری تھا کہ اس کے نعم البدل کو واضح طور پر ذکر کیا جائے جو پاک چنے ہوئے افراد ہوں تاکہ  انہیں قرآن مجید پر رکھا جائے وہ قرآن کے احکام اور قوانین کو لوگوں کو بیان کریں اور انہیں امامت کا رتبہ دیا جائے۔

اور وہ بارہ اماموں کی امامت کی جگہ پر ہو اور وہ قیامت تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ہوں اللہ اور لوگوں کے درمیان واسطہ ہوں قرآن کے ہم پلہ ہوں بعد اس کے کہ وہ اللہ کے پوشیدہ رازوں کو واضح کریں اور مسلمانوں کو احکام اور قوانین سکھائیں

اھل بیت کے چناؤ پر قران کی گواہی

 (إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)) (آل عمران -33)

بے شک اللہ نے آدم نوح ال ابراھیم آل عمران کو دونوں جہانوں پر چن لیا ہے بعض کی بعض میں سے بعض کی ذریت سے ہیں  اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ اس آیت میں اللہ کی ذات نے جس نظریہ کو ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ صرف اللہ کی ذات کو ہی اپنے خاص بندوں کو چننے کا اختیار ہے اللہ ہی جسے چاہے چنتا ہے وہی چنی ہوئی ہستیاں اس آیت کا مصداق ہیں اوہ افراد آدم،نوح ، آل ابراھیم اور آل عمران ہیں اور قرآن مجید نے محمد و آل محمد کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ انکے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعے سے سے جوڑا ہےان میں سے بعض بعض کی ذریت ہیں اس آیت کے ذریعے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ہستیاں اللہ کی چنی ہوئی ہستیاں ہیں اور انکا چناؤ بھی اللہ کی جانب سے ہےیہی وہ واسطہ ہیں جسے اللہ نے ذکر کیا اور انہی ہستیوں نے ہدایت الہی کیا پیغام ہم تک پہنچانے کا ذمہ لیا نبوت اور امامت انہی میں سے ہے اس آیت یہ کا سہارا یہ آیت قرار پاتی ہے

 (إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّـهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ) (آل عمران - 68)

کہ بے شک لوگوں میں اولاد ابراھیم علیہ السلام میں سے وہ ہے کہ جس نے حضرت ابراھیم کی اتباع کی یہ نبی اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اللہ مومنوں کا ولی ہے۔

یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کو اللہ کا چنا ہوا نہیں مانتے ہیں کی یہ افراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت سے چنے ہوئے اور پیغام رسالت کے لیے معین کردہ ہیں اور اللہ ان کا مولا ہے اور ان کو غلطیوں سے بچاتا ہے اللہ کی ذات نے عالم ذر میں ان ہستیوں کے بارے میں عہد وپیمان لیا تھا۔

چنانچہ آیت خداوندی ہے

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـذَا غَافِلِينَ)) (الأعراف -172)

ترجمہ اور جب تیرے پروردگار نے بنی آدم سے عہد لیا جب وہ ظاہر ہوئے انکی ضروریات اور ان کو گواہ بنایا ان کی نسلوں پر کے میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے یک زبان بولے ہاں ہم گواہی دیتے ہیں اور تم قیامت کے دن یہ کہو گے کہ پروردگار ہم غافلین میں سے تھے ۔

قول اور فعل میں دنیا میں ہم نے پرواہ نہیں کی جوكہ اورمشیت اور اختیار کا عالم تھا

((وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.......)) (الكهف -29)

اللہ نے فرمایا کہ کہہ دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے جسے اللہ چاہتا ہے تو وہ ایمان لاتا ہے اور جس جاتا ہے اسے کافر رکھتا ہے ۔

یہ تمام ان کے بلند مقام کی وجہ سے تھا اس سے بڑھ کر کچھ انکی عظمت اور لوگوں پر فوقیت کے راز ہیں وہ انکے ظرف اور عقول پر فیض الہی نازل ہوتی ہے چنانچہ آیت پروردگار ہے

((وأنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ..)) (الرعد - 17)

اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ آگیا

یہ سب اللہ کے کے زمین پر خلیفہ ہیں اللہ نے انھیں علم اور تقوی کی بنا پر افضلیت دی ہے باقی تمام لوگوں

((إنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)) (الحجرات -13)

بے شک اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہ ہے کہ جو تم میں سے سب سے زیادہ متقی ہے خدا جاننے والا اور باخبر ہے سورۃ حجرات آیت نمبر 13

 ( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)) (الزمر-9).

کہہ دو کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں یہ نشانیاں عقلمندوں کے لئے ہے

ان کے عظیم تقوی اور ان کے لدنی تعلیم کی وجہ سے یہ علم اور تقوی میں بلند مرتبہ کی جانب بڑھ رہے ہیں اس کے بارے میں قرآن مجید میں اشارہ موجود ہے

(( وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّـهُ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ)) (البقرة-282)

کہ اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں تمہیں سب کچھ پایا بیشک اللہ جاننے والا ہے

اللہ نے رسول اعظم سے سلسلہ وحی کو شروع کیا اور وہ پہلے معلم قرار پائے ان کے بعد بارہ اماموں پر الہام کے ذریعے انکے دل میں اپنی بات پہنچائی یا کسی جگہ سے ان کو اپنی بات سنائی چونکہ رسول اعظم کو اللہ کی ذات کو رحمت العالمین کی ذات قرار دیا ہے ان کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ))(الأنبياء-107)

اے میرے حبیب ہم نے تجھے دونوں جہان کی رحمت بناکر بھیجا ہے

اس آیت کی کی بنا پر ائمہ اہلبیت ہی رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم کے بعد دونوں جہانوں کی رحمت کرار پائے کیونکہ خدا نے ان کو بھی وہی بلند مقام دیا ہے اور اپنے درمیان واسطہ قرار دیا ہے گزشتہ گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ اللہ کے چنے ہوئے بندے ہیں ان ہستیوں کو یونہی اچانک نہیں لے لیا بلکہ اللہ کی ذات نے اپنے قواعد کے اوپر ان کو پورا پایا اور ان ہستیوں کو چن لیا اس چیز کی تاریخ گواہ ہے  لوگوں اور علماء کے جنہوں نے رسول کریم صلی وسلم اہل بیت علیہ السلام کے دور میں زندگی گزاری یا ان کے بعد جو دور میں لوگ آئے ہیں یہ سب گواہی دیتے ہیں حتیٰ تاریخ بھی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اھل البیت علیہم السلام ہی سب سے متقی پرہیز گار اور اللہ کی کتاب کو لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والی ہستیاں ہیں

اھل بیت ع کی منزلت اوررتبہ پر قرآن میں آیات:

 اللہ کی ذات نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اہلبیت علیہ السلام کی منزلت کو اپنی آیتوں میں بیان کیا اور اسی بلند اورعظیم منزلت کی بناء پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ان سے محبت اور مودت رکھیں یہی ہستیاں اوردروازہ ہے جہاں سے اللہ تک پہنچا جاتا ہے یہ دوسرے ثقلین ہیں جو قرآن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں

 (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فسأكتبها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ) (الأعراف -156)

فرمایا کہ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور میری رحمت  متقی اورزکوۃ دینے والوں کے لیےہے اور جو لوگ ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں

یقین میں اضافہ کے لئے اللہ کی ذات نے قرآن مجید میں صریح اور واضح انداز میں فرمایا اللہ کی ذات یہ چاہتی ہے کہ ان ہستیوں کو  نجاست سے پاک رکھے اور بڑی نجاست شرک ہے جس کو قرآن مجید میں اس انداز میں بیان فرمایا

(إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا)) (الأحزاب -33)

بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں اہل بیت السلام کی عظمت کی طرف اللہ نے اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہی میری کتاب کے وارث ہیں

((ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا)) (فاطر-32)،

پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا

چونکہ یہ کتاب اللہ کے ہاں محفوظ ہے آیت پروردگار ہے

((إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)) (الحجر-9)

ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں

ساتھ ہی یہ آیت قرآن مجید میں کسی قسم کی زیادتی، کمی اور کی تحریف کی نفی کر رہی ہے اس میں باطل نہیں آسکتا یہ کتاب غلطیوں سے پاک ہے اور اس علم کے جو وارث ہیں وہ بھی غلطیوں سے پاک ہیں تاکہ قرآن مجید کو اس انداز میں بیان کریں جیسا اللہ کی ذات چاہتی ہے ان کی اپنی کوشش کچھ بھی نہیں ہے یہ عصمت اہل بیت السلام کی دلیل ہے جو قرآن کے ساتھ ملی ہوئی ہے یہ اہل بیت السلام کی پاکیزگی کی دلیل ہے کہ جو قرآن کی پاکیزگی کے ساتھ ملی ہوئی ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ اللہ کی کتاب کی حفاظت ایسے بندے کریں کہ جو معصوم نہ ہو کیونکہ کیا دلیل ہے کہ انہوں نے اسی طرح تفسیر کئے کہ جس طرح اللہ چاہتا ہے ان کو قرآن اہل بیت السلام کا قرآن کے ساتھ ملا ہونا ان کی عظمت کی معصوم ہونے کی دلیل ہے اس کے بعد اس کی تائید میں اور بھی قرآن مجید کی آیات وارد ہوئی ہیں کے جس میں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں کے پاس کتاب اور حکمت اور امامت کا علم ہے جس کو قرآن نے ملک کے عظیم کا نام دیا ہے ان کی تمام دینی اور دنیاوی منزلت کو مدّنظر رکھتے ہوئےارشاد ہے

(أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا) (النساء-54)

ترجمہ: یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے تو پھر ہم نے آلِ ابراہیم علیھ السّلام کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم سب کچھ عطا کیا ہے

((قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ شَكُورٌ )) (الشورى -23)

ترجمہ:چنانچہ آیتیں پروردگار ہے کہ این اے حبیب انہیں کہہ دو کہ میں کوئی بھی اجر رسالت نہیں مانگتا سوائے میری آل سے محبت رکھو اور جو ایک نیکی لائے گا اس میں اور نیکیوں کا اضافہ کریں گے بے شک اللہ معاف کرنے والا اور جس کا شکر ادا کیا جائے۔  

لیکن امت اسلامیہ نے نہ اللہ کی کتاب کو تھامے رکھا اور نہ ہی رسول کی وصیت کو جس میں آپ نے اپنے اہلبیت علیہم السلام کی محبت اور ان کی اتباع کا حکم دیا تھا اور ان کی عظمت کوبیان کیا تھا جس کی وجہ سے اس امت کے حصے میں قتل اور انتشار اور مختلف اذیتیںآئیں کوئی بھی کام سیدھا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا یہاں تک کہ جو قرآن میں نازل ہوا اور سنت نبوی میں ہے اسکی اتباع کی جائے قرآن مجید میں اھل بیت کی منزلت پر رسول اللہ فرامین قرآن میں ذکر کی گئی دلیلوں سے ثابت ہوا اللہ کی ذات نے اہل بیت السلام کو ہی چنا ہے وہیں اللہ کے مقرب اور اس کے علم کو اٹھائے ہوئے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باربار وصیت بھی کے قرآن کے بعد یہ دوسرا ثقل ہیں آپ نے ان کی ایک کے بعد دوسرے کی امامت کی بھی تاکید کی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو بھی اللہ سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرے اور جو مجھ سے محبت کر رہا ہے وہ میری عترت سے محبت کرے میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری اہل بیت ہے جو میری اہلبیت سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ قرآن سے محبت کرے اس گفتگو سے لوگوں کے درمیان یہ واضح ہو گیا کہ اگر قرآن مجید کی تفسیر لینی ہو یا احکام اور شریعت کے الہی شریعت کے قوانین لینے ہو تو انہی ہستیوں کی طرف رجوع کیا جائے پورا قرآن مجید میں ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے یہاں تک قیامت تک کہ قرآن مجید میں قیامت تک آنے والی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے اہل بیت السلام کے حق میں فرمایا اللہ عزوجل نے قرآن مجید،علم قرآن ، اسکی تاویل، اس کی رحمت اور اس کی توفیق محمد و آل محمد سے محبت کرنے والوں کے لئے ان کے دشمنوں سے دشمنی کرنے والوں کے لیے قرار دی ہے وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ)) (النحل-44)

 ہم نے اس قرآن کو نازل کیا تاکہ لوگوں کو آپ بیان کریں کہ جو ان کی طرف نازل ہوا ہے کہ شاید وہ فکر کرنے والے ہو جائیں وہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہیں یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر اکٹھے رسول کے پاس آئیں گے اسی وجہ سے اھل بیت علیھم السلام اور پہلے امام علی ابن ابی طالب دوسرا ثقل یعنی اللہ کی کتاب کے بعد قرار پائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب کی منزلت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس اکٹھے آئیں گے۔

ثقل ثانی ہونے میں آئمہ اطھار کے فرامین

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب نے اہل بیت السلام کی منزلت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا "بے شک اللہ کی ذات نے ہمیں پاک کیا اور ہمیں معصوم رکھا اور ہمیں اپنی مخلوق پر گواہ بنایا اور اپنی زمین پر حجت قرار دیا ہمیں قرآن کے ساتھ اور قرآن کو ہمارے ساتھ قرار دیا ہم ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے" اسی طرح امام علیہ السلام نے اہل بیت السلام کے بارے میں فرمایا" ہم اہلبیت جیسا کوئی نہیں ہے ہمارے اندر قرآن نازل ہوا ہے اور رسالت بھی ہم میں سے ہے" اس کے علاوہ بہت زیادہ متواتر اقوال ہیں جو اہلبیت علیہ السلام کی منزلت اور مرتبہ کو ذکر کر رہے ہیں یہ قرآن کے ہم پلہ ہیں اللہ کی رسی ہیں جسے اللہ نے تمسک رہنے کا حکم دیا ہے امام سجاد علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے ابن سلام نے فرمایا"قرآن مجید میں ہماری مثال اس طاق کی ہے جس میں چراغ ہو اور ہم وہ چراغ ہیں اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہواور وہ قندیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں قندیل ایک جگمگاتے ستارے کے مانند ہو جو ایک مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہے اور مبارک درخت زیتون درخت ہے جو نہ مشرق والا ہو نہ مغرب والا اور قریب ہے کہ اس کا روغن بھڑک اٹھے چاہے اسے آگ مس بھی نہ کرے یہ نور بالائے نور ہے اور اللہ اپنے نور کے لئے جسے چاہتا ہے ہماری ولایت کی ہدایت دے دیتا ہے "

آپ کے فرزند حضرت امام باقر علیہ السلام کا فرمان ہے اللہ نے ہماری اہل بیت السلام کی ولایت کو قرآن کا اور تمام آسمانی کتابوں کا محور قرار دیا اور قرآن محکم ان کے گرد گھومتا ہے، اسی کی وجہ سے قرآنی کتب دی گئی ہیں اوریہی ایمان کو ظاہر کرتی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کے قرآن اور آل محمد کے اقتداء کرو اپنی زندگی کے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا میں تمہارے اندر دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک بڑاثقل ہے اور ایک چھوٹا ثقل ہے بڑا ثقل میرے رب کی کتاب ہے اور چھوٹا میری عترت اہل بیت ہے دونوں کی حفاظت کرنا ان دونوں کے ساتھ اگر آپ متمسّک رہے تو آپ کا بھی گمراہ نہیں ہو گے۔