- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اھل بیت ہی قرآن کے ہم پلہ اور ترجمان ہیں
20 جمادى الاخير 1440هـ

اللہ تعالی نے انسان کو فضول اور عبث پیدا نہیں کیا۔((أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ)) ترجمہ: کیا تم گمان کرتے ہو کہ تمہیں فضول پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس پلٹ کر نہیں آو گے۔(المؤمنون-115( بلکہ حکیم کا یہ کام ارادحکمت سے بالکل خالی نہ تھا۔ ((وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ)) (الأنعام-18) ترجمہ: اور وہ اپنے تمام بندوں پر غالب اور صاحب حکمت اور باخبر رہنے والا ہے (الأنعام-18)

اللہ نے انسان کی تخلیق اپنے ارادے اور اختیار سے کی اس نے انسان کو ایک مختار مخلوق پیدا کیا اسے عقل دی تاکہ غلط اور صحیح کی پہچان کر سکے اور صاحب اختیار ہو، تاکہ بروزقیامت اس کی بہانہ سازی نہ چلے سکے،جو اس نے دنیا میں عمل انجام دیا ہے.خدا کے ہاں اس کی عقل کے مطابق باز پرس ہو سکے، اللہ نے انسان کو علم اور تقویٰ کے ذریعے ایک دوسرے سے ممتاز کیا ہے سب سے قریب خدا کے انسان وہ ہے جو تقوی اور علم میں زیادہ ہو اسی وجہ سے اللہ نے آل محمد علیہم السلام کی افضلیت تمام لوگوں پردی ہے اور اللہ کی ذات نے ان کو الہی پیغام کا حامل قرار دیااور ان کو رسالت عطا کی تاکہ یہ لوگوں تک اسلام کو پہنچائیں۔ 

انتخاب الہی 

ابتدا میں اللہ کی ذات نے یہ چاہا کہ اس کائنات کو کسی واسطے کے ذریعہ خلق کرے اور وہی واسطہ اسلام کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں اور اس مقصد کے لئے اللہ کی ذات نے اپنے خاص بندوں کا انتخاب کیا۔

چنانچہ آیت قرآن ہے

إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ))

بیشک اللہ نے حضرت آدم حضرت نوح ع آل ابراھیم اور آل عمران کو دونوں جہانوں میں چن لیا(آل عمران -33)

توحضرت ابراھیم علیہ السلام کے سلسلہ نسب سے آل محمد ہیں اللہ کے وہ چنے ہوئے افراد ہیں اس پر قرآن مجید کی نص موجود ہے ((إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّـهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ)) (آل عمران – 68)

بیشک حضرت ابراهيم ع کے پیروکار وہ ہیں جنہوں نے انکی پیروی کی اور یہ نبی اور ایمان والے اور اللہ مؤمنین کو دوست رکھتا ہے۔ تاکہ یہ وہ لوگ شمار ہوں جنہوں نے الہی پیغام کو تمام لوگوں تک پہنچایا تاکہ کسی منکر اور مشکک کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ ان ہستیوں کےبارے میں قرآن مجید فرقان حمید کی آیت میں اھل ذکر کا نام دیا ہے تاکہ ہر سوچ و فکر رکھنے والے پرحقیقت تک رسائی ممکن ہو

((وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ))(الأنبياء-7)

ہم نے آپ سے پہلے رسولوں کو وحی کی تم اھل ذکر سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔

لفظ ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور اس پر ایک صریح  آیت دلالت کر رہی ہے

((وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ)) (النحل-44)

ہم نے ذکر کو آپ پر نازل کیا تاکہ جو اس میں نازل ہوا ہے اسے لوگوں کو بتائیں شاید وہ کچھ سوچیں۔

اس بنا پر آل محمد علیہم السلام ہی اہل ذکر ہیں اور علم قرآن کے وارث ہیں ان کے علاوہ جو لوگ بھی  عالم ہیں انہوں نے ان سے سیکھا ہے چنانچہ آیت خداوندی ہے

((ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ))(فاطر-32).

پھر ہم نے اس کتاب کا وارث اور لوگوں کو بنایا جس کو ہم نے اپنے لوگوں میں سے چنا ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور بعض اعتدال پسند ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کی اور خدا کا فضل بہت بڑا ہے۔

اس کے بعد ایک اور دلیل دیتے ہیں قرآن مجید فرقان حمید کی میں آیاہے کہ ہر قوم کا ایک گواہ ہے اور وہی ان کا مرجع اور اعمال پرگواہ ہوگا چنانچہ آیت پروردگار ہے

((وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلَاءِ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ)) (النحل-89)

اور جس دن ہر ایک گروہ میں سے ان پر انہیں میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، اور تجھے ان پر گواہ بنائیں گے، اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے ہدات اور رحمت اور خوشخبری ہے۔

 اس آیت کا مصداق ہر زمانے میں امامت اہل بیت علیہ السلام  ہے جو اس امت کے لیے دینی اور دنیاوی امور میں مرجع حق حیثیت رکھتی ہیں تاکہ لوگوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ انہی کی طرف رجوع کریں اور رسول اللہ صلعم پوری امتوں کے پر گواہ ہیں.

اھل بیت ع سنت نبوی کی روشنی میں

قرآن مجید میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں جو بھی نازل ہوا ہے وہ سب کچھ صحیح سنت نبوی کی تائید میں آیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اپنی خواہش نفس سے گفتگو نہیں کرتے اس بارے میں خداوند قدوس نے قرآن مجید میں آپ تائید فرمائی ہے ((وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى)) (النجم-3-4-5) ترجمہ: میرا حبیب اپنی خواہش سے گفتگو نہیں کرتا جو بھی گفتگو کرتا ہے نازل ہونےوالی وحی پر  مشتمل ہوتا ہے اسے بہت طاقتور ہستی نے یہ سب کچھ تعلیم فرمایا ہے

یہ آئمہ علیہم السلام اللہ کی کتاب کے بعد دوسرے سے  ثقل ہیں یہ ایسے نور ہیں جن سے پیغام محمدی کو سمجھنے کے لیے ہدایت لی جاتی ہے پیغام محمدی جس گھر میں نازل ہوا ہے اس گھر کے یہ حقیقی سرچشمہ ہیں سنت محمدی بھی انہیں کے ساتھ اور قرآن کے ساتھ تمسک رہنے کا حکم دیتی ہے تاکہ لوگ ہدایت اورصراط مستقیم پر قائم رہیں ان کے بارے میں صحیح اور متواتر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث وارد ہوئی ہے

"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ الثَّقَلَ الأَكْبَرَ وَالثَّقَلَ الأَصْغَرَ إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لاَ تَضِلُّوا وَلاَ تَبَدَّلُوا وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّطِيفَ الْخَبِيرَ أَنْ لاَ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأُعْطِيتُ ذَلِكَ، قَالُوا: وَمَا الثَّقَلُ الأَكْبَرُ وَمَا الثَّقَلُ الأَصْغَرُ؟ قَالَ: الثَّقَلُ الأَكْبَرُ كِتَابُ اللهِ سَبَبٌ طَرَفُهُ بِيَدِ اللهِ وَسَبَبٌ طَرَفُهُ بِأَيْدِيكُمْ وَالثَّقَلُ الأَصْغَرُ عِتْرَتِي وَأَهْلُ بَيْتِي"

ترجمہ :بے شک میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک ثقل اکبر ہے اور دوسرا سے ثقل اصغر اگر تم ان دونوں سے متمسّک رہو گے تو کبھی بھی میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے بے شک میں نے لطیف اور خبیر سے دعاکی کہ یہ کبھی بھی جدا نہ ہوں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس والے آئیں اور میری دعا اللہ نے قبول فرمائی آپ سے پوچھا گیا،کہ ثقل اکبر کیا ہے اور ثقل اصغر کیا ہے؟ آپ ارشاد فرمایا کہ ثقل اکبر اللہ کی کتاب ہے جسکی ایک  طرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری تمہارے ہاتھ میں ہے اور ثقل اصغر میری اہل بیت ہے آپ نے اس حدیث میں واضح طور پر بتایا کہ کتاب یعنی قرآن مجید اور اہلبیت کو جدا نہیں کیا جاسکتا یہ ایک چیز ہیں جو ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں جو بھی اپنے دین اور دنیا کی سلامتی چاہتا ہے وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت جوکہ اللہ کی اطاعت ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے اس نے گویا کہ اللہ کے حکم کی مخالفت کی ہے چنانچہ آیت خداوندی ہے

((قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ)) (آل عمران-32)

ترجمہ :اے میرے حبیب کہہ دو کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم ان  سے منہ پھیرو گے تو بے شک خداوند قدوس کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

 اس آیت کی بنا پر قرآن مجید کی اور اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت گویا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے اور یہی اسلام حقیقی ہے جو اللہ کی ذات چاہتی ہے اس کی تائید میں رسول کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک اور حدیث بیان کی ہے جس میں اہل بیت علیہم سلام کی منزلت اور مرتبہ کو اس انداز میں بلند کیا  کہ اھل البیت علیہم السلام کو نوح علیہ السلام کی کشتی سے تشبیہ دی ہے آپ نے فرمایا۔

"مثل أهل بيتي فيكم كسفينة نوح من ركبها فقد نجا ومن تخلف عنها غرق وهوى".

 میرے اہل بیت کی مثال تم میں کشتی نوح جیسی ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جو اس میں رہ گیا وہ غرق ہو گیا.

آئمہ اطہار کی احادیث:

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ کی ذات نے ہمیں پاک کیا اور اس مخلوق پر گواہ قرار دیا ہمیں اللہ نے جو کچھ زمین میں ہے اس پر حجت قرار دیا اور ہمیں قرآن کے ساتھ اور قرآن کو ہمارے ساتھ قرار دیا ہم ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گےاسی طرح کسی نے دریافت کیا کہ اگر ہمیں قرآن سے کچھ مشکل لگے تو کس سے پوچھیں؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آل محمد سے قرآن کے بارے میں پوچھو.

2 :امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے لوگوں پر ضروری ہے کہ وہ قرآن کو پڑھیں جیسے نازل ہوا ہے اگر اس کی تفسیر کی ضرورت ہو تو وہ ہماری طرف رجوع کریں ہم ان کی ہدایت کریں گے۔

3: امام جعفر صادق علیہ السلام سے قرآن مجید کی آیت

 ثم أورثنا الكتاب الذين اصطفينا من عبادنا (فاطر ـ32)

پھر ہم نے اس کتاب کے وارث ان ہستیوں کو قرار دیا کہ جن کو اپنے بندوں میں سے ہم نے چنا۔ کےبارےمیں پوچھا گیا توآپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ آل محمد علیہم السلامہیں

4 :امام موسی کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے

نحن الذين اصطفانا الله فقد ورثنا علم هذا القرآن الذي فيه تبيان كل شيء"

 ہم وہ ہے جسے اللہ نے چنا اورقرآن کے علم کو ہماری وراثت قرار دیا اس میں ہر چیز کو واضح انداز میں ذکر کیا ہے۔