- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


وحیِ الہی کا سفر۔۔۔۔نزول ِقرآن کے مراحل اور وحی کی کیفیت
11 رمضان 1441هـ

جو بھی یہ سنتا ہے کہ قرآن مجید خاتم الانبیاﷺ پر نازل ہوا تو اس کے ذہن میں اس نزول کے بارے میں ایک خاص کیفیت تشکیل پاتی ہے کہ یہ نزول اس طرح کا ہو گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان عام حالات میں گفتگو کرتے ہیں اور الفاظ سے معانی کو سمجھتے ہیں اس کا پورا ایک طریقہ کار موجود ہے اس نزول کے سنتے ہی انسان کا اسی یا اسی طرح کی کیفیت کی طرف متوجہ ہو جانا ممکن ہے۔جب ایسی تعبیریں بھی موجود ہوں جن کی وجہ سے گمراہی کا بھی امکان ہو تو اس کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔

یہ مضمون اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کرتا ہے جو کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ قرآن مجید جب نازل ہوا تو مجمل تھا نص نہیں تھا۔یہاں اس بات کو سمجھنا بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے نبی اکرمﷺ کا بیان، شان نزول،سبب نزول،نظم آیات و سور بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر کرتی ہیں۔ان سب کا انکار کر کے قرآن کو درست انداز میں نہیں سمجھا جا سکتا ۔

قرآن مجید خود اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ قرآن کس زمانے میں نازل ہوا اور اس کی کیفیت کیا تھی؟ اسی اہمیت کے پیش نظر آیات میں اس کی وضاحت آئی ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید کو ماہ مبارک رمضان میں نازل کیا اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جو اسلام سے پہلے بھی مہینے کا نام تھا۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ:۱۸۵)

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کرے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا اور وہ چاہتا ہے کہ تم مقدار پوری کرو اور اللہ نے تمہیں جس ہدایت سے نوازا ہے اس پر اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار کرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔

جس رات قرآن نازل ہوا اس رات کے بارے میں بتایا گیا ہے ارشاد باری ہوتا ہے:((حم (1) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (3) فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (4)أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (5) رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (6))(الدخان ـ 1 ـ 6)

۱۔حا، میم ۔ ۲۔ اس روشن کتاب کی قسم ۔۳۔ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے، یقینا ہم ہی تنبیہ کرنے والے ہیں۔۴۔ اس رات میں ہر حکیمانہ امر کی تفصیل وضع کی جاتی ہے۔۵۔ ایسا امر جو ہمارے ہاں سے صادر ہوتا ہے (کیونکہ) ہمیں رسول بھیجنا مقصود تھا۔۶۔ (رسول کا بھیجنا) آپ کے پروردگار کی طرف سے رحمت کے طور پر، وہ یقینا خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

 جس رات قرآن نازل ہوا اس رات کو  لیلۃ القدر کا نام دیا گیا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ (سورۃ القدر: ۱ ) ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ۔

جہاں تک قرآن مجید کے نازل ہونے کی کیفیت کا تعلق ہے کہ قرآن کیسے نازل ہوتا تھا؟ تو اس بارے میں قرآن  مجید خود بہت واضح ہے۔اللہ تعالی وحی کے ذریعے اپنے انبیاءؑ سے کلام کرتا ہے اور وحی  لغت میں جلدی سے  خفیہ انداز مین پہنچائے گئے پیغام کو کہتے ہیں جو براہ راست نہیں ہوتا۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ)) (الشورى ـ51)

اور کسی بشر میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے ماسوائے وحی کے یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ کوئی پیام رساں بھیجے پس وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے، بے شک وہ بلند مرتبہ ، حکمت والا ہے۔

قرآن مجید کے نزول کی کیفیت کو بیان کرتی یہ آیت مجیدہ بتا رہی ہے کہ قرآن مجید کا نازل ہونا کیسے دوسروں سے مختلف ہے۔اللہ تعالی سے جو وحی آتی ہے وہ  پردے کے پیچھے سے  اپنے نبی کو پیغام پہنچانے کی صورت میں ہوسکتی ہے جیسے اللہ تعالی  حضرت موسیؑ سے کلام کیا کرتا تھا ۔اسی طرح یہ وحی حضرت جبرائیلؑ یا کسی دیگر فرشتے کے ذریعے ہو سکتی ہے یہ  مشاہدہ یا سننے کے ذریعے ہو تی ہے جیسے کہ ہمارے نبی اکرمﷺ کو ہوتی تھی۔اسی طرح وحی سونے میں خواب  کے ذریعے بھی  ہوتی ہے جیسا کہ حضرت  ابراہیمؑ نے  خواب دیکھا تھا وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں اس طرح سے اللہ کے پیغامات آسمان سے زمین پر پہنچتے ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن کو  قلب پیغمبرﷺ پر  بتدریج نازل ہوا ہے اللہ تعالی   اس کیفیت کو قرآن مجید میں یوں بیان فرماتا ہے:((وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًا)) (الأسراء ـ 106) اور قرآن کو ہم نے جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن مجید کو حضرت جبرائیل ؑ کے ذریعے نازل فرمایا اور یہ عام قرات نہیں تھی بلکہ خاص ترتیل کی صورت میں نازل کیا گیا  یہ پڑھنے کا خاص انداز ہے جس پر یہ نازل ہوا ارشاد ربانی ہے:

((وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا))(الفرقان ـ32) اور کفار کہتے ہیں: اس (شخص) پر قرآن یکبارگی نازل کیوں نہیں ہوا ؟ (بات یہ ہے کہ) اس طرح (آہستہ اس لیے اتارا) تاکہ اس سے ہم آپ کے قلب کو تقویت دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے۔

قرآن مجید ایک اور عنوان سے دیگر کتب سماویہ سے مختلف ہے کہ وہ تمام ایک بار ہی نازل کر دی گئی مگر قرآن کا   نزول  تدریجی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ((وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ))(الأعراف ـ 145)

اور ہم نے موسیٰ کے لیے (توریت کی) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھی (اور حکم دیا کہ) اسے پوری قوت سے سنبھالیں اور اپنی قوم کو حکم دیں کہ اس میں سے شائستہ ترین باتوں کو اپنا لو، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانا دکھا دوں گا۔

قرآن مجید قراۃ کی صورت میں  نازل ہوا ایسا نہیں ہوا کہ قرآن ایک مکتوب صورت میں نازل ہوتا رہا ہو، جیسا کہ پہلی کتابیں ہوتی تھیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید مختلف مراحل میں  سوروں اور آیات کی شکل میں تدریجا بار بار نازل ہوتا رہا قرآن میں ارشاد باری ہوتا ہے: ((وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًا))(الأسراء ـ 106)

اور قرآن کو ہم نے جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔

قرآن الگ الگ حصوں میں تقسیم ہو کر نازل ہوا ایسا نہیں کہ ایک بار ہی ایک کتاب کی صورت میں نازل ہو گیا ہو اس کی وضاحت اللہ تعالی  کے فرمان سے ہوتی ہے  جب کفار نے کہا کہ یہ قرآن ایک بار ہی نازل کیوں نہیں ہو جاتا ؟ اس پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا(سورۃ الفرقان :۳۲)

اور کفار کہتے ہیں: اس (شخص) پر قرآن یکبارگی نازل کیوں نہیں ہوا ؟ (بات یہ ہے کہ) اس طرح (آہستہ اس لیے اتارا) تاکہ اس سے ہم آپ کے قلب کو تقویت دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے۔

ایک بات  سمجھ لینا ضروری ہے کہ قرآن مجید کا ایک نزول دفعی یعنی یکبارگی بھی ہے  جو اللہ تعالی نے قرآن کو  ایک ہی بار میں بیت المعمور پر نازل فرما دیا تھا جہاں سے قلب مبارک خاتم الانبیاءﷺ پر  بار بار حصوں میں نازل ہوتا رہا۔

لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا)الفرقان :۳۲)

(بات یہ ہے کہ) اس طرح (آہستہ اس لیے اتارا) تاکہ اس سے ہم آپ کے قلب کو تقویت دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے۔

قرآن مجید کی   آیات مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر پیش آمدہ واقعات کے اعتبار سے نازل ہوتی رہی ہیں اور ان میں اہم چیز یہ ہے کہ یہ پورا عمل تدریجی تھا۔ایک معاشرہ تشکیل پانا ہے اور معاشرہ  کو تکامل  پسند ہونا چاہیے  اسی لیے نبی اکرمﷺ پر قرآن مجید حضرت جبرائیل ؑ  کے ذریعے تقریبا بیس سال کی طویل مدت میں ناز ل ہوا اور آخری نازل ہونے والی آیت آیت اتمام تھی:

 ((.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ))(المائدة ـ 3)

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

سورہ مبارکہ علق کی آیات پہلی نازل ہونے والی آیات تھی:

(اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(5))(العلق ـ 1ـ5).

۱۔ (اے رسول) پڑھیے! اپنے پروردگار کے نام سے جس نے خلق کیا۔۲۔ اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔۳۔ پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔۴۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔۵۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

قرآن مجید مسلسل بیس سال کی مدت میں نازل ہوا  امام حسینؑ کا فرمان مبارک ہے:

"نَزَلَ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُور، ثُمَّ نَزَلَ فِي طُولِ عِشْرِينَ سَنَةً"

قرآن ایک ہی بار میں ماہ رمضان میں بیت المعمور نازل کیا گیا اور پھر وہاں سے بیس سال کی مدت میں اتارا گیا۔

اس سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ قرآن مجید ایک ہی بار میں بیت معمور پرتئیس رمضان کو  ہجرت سے پہلے دسویں سال میں نازل کیا گیا اور آخری بار قرآن  میں سے  جو نازل ہوا وہ ماہ ذی الحجہ گیارہ ہجری میں تھا۔