وہ پست ترین لوگ عیش و عشرت میں ہیں
اور یہ شریف لوگ عذاب میں مبتلا ہیں
کچھ لوگ دن رات محنت کرکے بھی بے حال ہیں
جبکہ کچھ لوگ بے کار کھیل رہے ہیں
اور صبح شام شراب کے جام لنڈھاتے ہیں
ایک ایسا ماحول جس میں سماجی اور انتظامی امور میں بدعنوانی اور امیر و غریب کے درمیان طبقاتی طور پر عدم مساوات کی گھناونی صورتحال موجودتھی، وہاں کے لوگ بے انتہا دولت اور انتہائی غربت کے طبقات میں بٹے ہوئے تھے۔ ایسے ماحول میں ایک بڑے شاعر صدرالدین عینی نے پرورش پائی۔ اس نفسیاتی، جذباتی اور فکری لحاظ سے اندوہناک ماحول میں صدر الدین عینی کے وجود میں جھنجھلاہٹ اور بے چینی اس وقت مزید بڑھ گئی جب انہوں نے تاجک قوم کو جاگیرداری ، غلامی اور طاقتوروں کے ظلم و استحصال کی زد میں آتے دیکھا۔
صدرالدین عینی کی زندگی میں جھانک کر ان کو قریب سے جاننے کی کوشش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان مشکل سماجی حالات پر روشنی ڈالی جائے جن کا سامنا اس وقت کے تاجکستان کو تھا،جو وسطی ایشیا کے ممالک میں شامل تھا۔ تاکہ صدرالدین عینی کی شاعری کے اہم اور بنیادی موضوعات واضح ہوجائیں۔
اس وقت کا تاجکستان جو زمانہ قدیم سے سلطنت بخارا کے زیر اثر تھا اور اس کا بادشاہ روسی شہنشاہیت کے تابع تھا۔ یہ زمانہ نہایت ذلت و پستی اور روسی شہنشاہیت کی غلامی کا زمانہ تھا جس نے ان تمام وسطی ایشیا کے ممالک پر اپنا تسلط جمایا ہوا تھا۔ بحر قزوین (Caspian Sea) کے پار موجودہ جمہوریہ ترکمانستان کے دارلخلافہ شہر عشق آباد تک کا سارا علاقہ روسی شہنشاہیت کے شکنجے میں تھا اور سلطنت بخارا اپنےمضبوط حلیف روسی نظام کے سامنے مکمل طور پر جھک کر پوری تابعداری کرکے اپنے مفادات لے رہی تھی۔ چنانچہ اس نے روسی نظام کے لیے نہایت سستی قیمت پر مزدور فراہم کیے ہوئے تھے اور وہاں اگنے والی اجناس میں کپاس کے حوالے سے نہایت غیر منصفانہ حالات پیدا کیے تھے جس سے کچھ جاگیردار، سلطنت کے شہزادے اور درباری ہی لطف اندوز ہوتے تھے جبکہ وسطی ایشیا کے کسانوں کا بڑا استحصال ہوتا تھا۔ لوگ نہایت غربت ،بھوک اور استحصال کی مکمل ہولناکیوں میں زندگی گزارتے تھے۔
ظلم و زیادتی کے ان ناگفتہ بہ حالات میں مظلوم عوام کی پسی ہوئی آواز کی عکاسی کرنے کے لئے فن شاعری میں ایک نئے ادبی اور شعری نظریے کا سامنے آنا ناگزیر تھا تاکہ اس ناانصافی اور ظالمانہ صورتحال سے بخارا کے عوام کو نجات دینے کے لئے ان کے امنگوں کا ترجمان بن سکے۔ (یاد رہے کہ اس وقت کی سلطنت بخارا ایک وسیع سلطنت تھی جس میں آج کےپورے تاجکستان کے علاوہ جمہوریہ ازبکستان کے بعض حصے بھی شامل تھے۔)
مذکورہ بالا حالات میں اس فن کا فقط ایک فن کی شکل میں سامنے آنا کافی نہ تھا بلکہ دو قسم کے محاذوں کے مقابلے میں ایک توانا فریق کے طور پر بھی سامنے آنا ضروری تھا:
پہلا محاذ ان مفاد پرستوں کے خلاف تھا جو اقتدار کے دسترخوان پر پلتے تھے اور انہی سفاک و وحشی ظالموں کے نہ فقط گن گاتے تھے بلکہ مظلوم لوگوں کی آہوں اور سسکیوں پر لاپرواہی اور مستی کا مظاہرہ بھی کرتے تھے۔
جبکہ دوسرا محاذ قوم کی مجموعی حالت کی عکاسی کرنے والی اس منفی شکل کے خلاف تھا جو حزن و ملال میں ڈوب کر مکمل مایوسی کے انداز میں موجود تھی۔ درحقیقت مظلومیت کی یہ منفی شکل بھی ایک طرح سے اقتدار پر قابض سلطنت کے آگے ذلت کے ساتھ ہتھیار ڈال دینا اور جبر و استبداد کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی تھا ۔ ان حالات میں قوم کی صحیح ترجمانی کے لیے ایک نظم لکھی گئی جو اس وقت کے حالات میں فنی اور سماجی لحاظ سے زبان زد عام خاص ہوگئی۔ اس نظم میں بیک وقت اس دکھ اور غم و غصے کی عکاسی ہوتی تھی جو محنت کش طبقہ سے لیکر دانشوروں تک کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی تھی نظم میں کہا گیا تھا:
آہ میرے راستے میں ایک دھول اٹھی
آہ اے میرے چمن میں کھلنے والی کلی
انہوں نے مجھے اس زور سے تازیانے مارے
آہ اے میرے چمن میں کھلنے والی کلی
انہوں نے مجھے گھوڑے کی پشت سے باندھ دیا
اور مجھے قید کی زنجیروں میں جکڑا !
(امین کار) کے علاقے میں کوئی پانی نہیں
جس طرح ان کے کارندے (علم خان) کے ہاں کوئی شفقت و مہربانی نہیں
میرے کھلونوں کو اپنی حفاظت میں رکھو!
آہ اے میرے چمن میں کھلنے والی کلی
اور میرے دوستوں کو مجھ پر بیتی باتیں بتا
کہ مجھے قید کی زنجیروں میں جکڑا گیا ہے
اور میں نے اپنی صراحی پتھر کے اوپر رکھ دی ہے
آہ! اےمیرے چمن میں کھلنے والی کلی
میرا رومال مٹی میں پڑا رہا
اور انہوں نے مجھے جکڑ کر قیدی بنایا
یہ نظم جاگیردارانہ فاشسٹ نظام کی واضح تصویر ہے۔ اس میں ایک چھوٹی بچی کی کہانی بیان کی گئی ہے جسے حکومتی کارندوں نے اسیر کر کے مارا پیٹا تھا۔ اسے صراحی میں پانی لینے تک سے روکا تھا۔ امیر بخارا کے نوکر انسان نہیں تھے بلکہ وہ ایسے سفاک تھے جو لوگوں کی کھال ادھیڑتے تھے۔ وہ لوگوں پر مختلف قسم کے ٹیکس لگاتے تھے اور نہایت شقاوت کے ساتھ ان سے ٹیکس لیتے تھے۔ جو شخص نقدی یا اجناس کی شکل میں ٹیکس نہیں دے سکتا تھا اس کے گھر کو قرق کر لیتے تھے یا اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو اسیر کر کے لے جاتے تھے۔ ملک کے کسان ہر طرف بھٹک رہے تھے۔جس علاقے میں ان کی اہانت و تذلیل ہوتی تھی اور انھیں قیدی بنایا جاتا تھا وہ اسے چھوڑ کر ملک کے مختلف شہروں کی طرف کام کی تلاش میں نکل پڑتے تھے۔ وہ لوگ حکمران کے ہاتھ میں موجود کارخانوں اور انڈسٹریز کے لیے خام مال کی طرح ہو کر رہ گئے تھے۔
تاہم ملکی دانشوروں اور مفکرین نے اس ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کیا۔ قوم و ملت پر مسلط حکمرانوں کے جبر و استبداد کے باوجود ان کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا۔ انہوں نے لوگوں سے ظالم کے آگے ہتھیار ڈالنے اور خوف اور ہراسانی کے فریم ورک کو چھین لیا ۔پس وہ ملک میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے ایک آزاد انقلاب کا مطالبہ کرتے ہوئے سامنے آگئے۔ چنانچہ تاجکستان، ازبکستان، آذربائیجان، قازقستان، تاتاری اور وسطی ایشیا کے دیگر ممالک میں کئی ایک آزادمنش مفکرین اور انقلابی دانشور نمودار ہوئے۔انہوں نے اپنی تمام تر تخلیقی ادبی اور فکری صلاحیتوں کو ڈکٹیٹرشپ اور جاگیرداری کے خلاف جدوجہد کے لیے استعمال کیا۔ان مفکرین میں احمددانش مرزا اخوندوف، فرقت، ابائی اور عبداللہ طوقائی جیسے لوگ شامل تھے اور ان میں بھی سب سے آگے عظیم شاعر صدرالدین عینی تھے جو غلامی کے آگے مزاحمت کی سب سے بہترین مثال تھے۔
اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے ساتھ بہت گہرے اور دلی تعلق اور ظالم حکمرانوں کے مقابل اپنے لوگوں کی آزادی کی جدوجہد میں اپنی حقیقی اور مؤثر شرکت کے ذریعے یہ عظیم شاعر نہ صرف تاجکستان ، بلکہ ظلم کی چکی میں پسنے والے تمام ممالک کے مظلوم انسانوں کی امنگوں کا ترجمان بن گیا۔ انہوں نے شاعری اورزندگی کے جس راستے کا انتخاب کیا تھا اسے روح انسانی کے مشترکہ جوہر کے نام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور حریت و استقلال کی خاطر کیے جانے والے جہاد اور کوشش کا دینی واسلامی حکم بھی کہا جا سکتا ہے۔
عینی کون ہیں؟:
صدرالدین سعید مراد زادہ عینی سن 1878ء میں ازبکستان کے شہر بخارا کے ایک گاؤں (سقطاری) میں پیدا ہوئے اور وہاں انہوں نے دس سال تک مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے کسانوں، تاجک، ازبک، عرب اور مشہد سے نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کے ساتھ زندگی گزاری۔ صدرالدین عینی نے ان تمام لوگوں کی زبانیں سیکھیں جن کے ساتھ رہنے اور ان کی ضروریات اور مشکلات سے آگاہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد سعید مراد خواجہ پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ چنانچہ سعید مراد خوجہ نے بھی اپنے بیٹے پر یہی اثرات چھوڑے۔ انہیں خود جس طرح شعر و شاعری پسند تھی،ا سی طرح وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی شعری نصوص کو زبانی یاد کرے۔ بلکہ وہ کبھی کبھی اپنے بیٹے کو شعر کہنے کی مشق بھی کراتے تھے۔ چنانچہ جب ایک دن ان کے بیٹے (صدرالدین)نے فن شاعری کے رموز اور شاعر کی تعریف کے بارے میں جب ان سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: (اے میرے بیٹے مجھے شاعر نہ کہا کر، انسان ایک یا دو بیت شعر کہنے سے شاعر نہیں بنتا۔ لفظ شاعر شعور کے مادے سے نکلا ہے۔ اس کے باوجود بھی انسان کے حقیقی شاعر ہونے کے لئے فقط شعور کافی نہیں ۔ حقیقی شاعر ایسو، صائب، بیدل اور حافظ جیسا ہوتا ہے جو زندگی کو اس طرح جانتا ہے کہ زندگی کے تمام چیلنجز کا جواب اپنی شاندار نظموں کے ذریعہ دے سکتا ہے۔ صدرالدین عینی کے لیے فن شاعری میں یہی پہلا درس تھا جو اس نے سیکھا۔
سن 1890ء میں جب ان کے خاندان میں بد حالی اور غربت کی حالت شدت اختیار کر گئی تو وہ اپنے بھائی محی الدین کے ساتھ بخارا کی طرف روانہ ہوئے ۔صدرالدین عینی کبھی سکول نہیں گئے ۔ ؔ(نہ گاؤں میں نہ ہی شہر میں) کیونکہ سارے سکول ایک ظالم نظام کے مطابق چلتے تھے جہاں جدید علوم حاصل کرنے پر پابندی تھی۔ دوسری طرف صدرالدین عینی اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کمانے پر بھی مجبور تھے۔ لہذا اسکول جانے کا وقت ہی نہ تھا۔ یہی بات صدرالدین عینی کے دل میں وہ ایک چنگاری کی مانند تھی جس نے اسے ملک میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ابھارا۔
ادب کی دنیا میں صدر الدین عینی کا نام سن 1895ء میں مہان(خوار)، محتاج ،تعیس(دکھی) اور معذب (اذیت دہ) کے طور پر شامل ہوا ۔ صدرالدین عینی کے یہ تخلص تاجکستان اور ازبکستان کے لوگوں کی حقیقت اور حالات بلکہ اس وقت وسطی ایشیا کے لوگوں کی عام حالت کے بھی عکاس ہیں۔ عینی کی شاعری میں اداسی ضرور تھی لیکن اس میں وہ گرمجوشی بھی تھی جو غم و غصہ اور طنز سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روشن مستقبل کی امید دلاتی تھی۔
مثال کے طور پر ایک قطعہ ملاحظہ ہو:
محبوب کو امیر اور طاقتور عاشق چاہیئے!
اور اگر میں اس کی طرف مائل ہو جاؤں
عینی فقیر جو سونے کا محتاج ہے
بتا ! میرا کیا حال ہوگا؟
سن 1905ء کے انقلاب نے عینی کے خیالات کی نشوونما اور شاعری پر بڑا اثر ڈالا 1905 سے 1917 تک کا عرصہ وہ تھا کہ جس میں عینی نے زندگی اور ادب کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا۔ ان کا ماننا تھا کہ جاہل قوم کبھی بھی آزادی کی قدر و قیمت نہیں سمجھ سکتی۔ اس لئے سب سے پہلے ایک شاندار ثقافت اور روشن خیالی کا ہونا ضروری ہے۔ یہ بات سن 1905ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد کھل کر ان کے سامنے آ گئی ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر سن 1909ء میں ایک خفیہ سوسائٹی قائم کی جسے تربیۃ الاطفال کا نام دیا گیا اور یوں بڑی مشکل سے مقامی سطح پر انہوں نے یہ پرائیویٹ سکول قائم کیا جس میں وہ بچوں اور طلبہ کے لئےاشعار اور نظمیں لکھتے اور ان کو پڑھانے میں اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ اس سکول کا قیام ایک عظیم کام تھا جس نے بخارا کے امیر اور اس کے کارندوں کی نیندیں اڑا دیں۔ کیونکہ اس میں انسانیت سکھائی جاتی تھی اور دوسروں کے احترام کے ساتھ اخوت و بھائی چارگی کا درس دیا جاتا تھا۔
اپنی قوم کے لئے آئینی کی جدوجہد فقط اسی سکول کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ عملی طور پر حقیقی جدوجہد کرنے میں بھی مصروف رہے۔ جب وسطی ایشیا میں جاگیردارانہ اور آمرانہ استحصال شدت اختیار کرگیا اور غریب کسانوں نے اپنے اوپر عائد قرضہ اتارنے کے لیے مجبور ہو کر اپنی زمین اور جو کچھ ان کے پاس تھا بیچنا شروع کر دیا تو اس شاعر کے پاس بغاوت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پس انہوں نے کسانوں کو اپنی زمین وغیرہ نہ بیچنے کے حوالے سے اس طرح نصیحت کی:
سن اے میرے دوست سن!
اے میری زندگی کے ساتھی سن!
اے میری روح کی خوشحالی، اے میری کمزوری!
میں تمہیں حکمت کا ایک لفظ کہنا چاہتا ہوں، سُن!
اپنی زمین نہ بیچ!
اسے نہ بیچ۔۔۔۔ یہ مہربان ماں ہے۔
یہ بنجر ہوگی، سیاہ ہوگی، لیکن یہ مشک کی طرح خوشبو سے بھرپور ہے
اسے نہ بیچ، ہرگز نہ بیچ، ہرگز نہ بیچ!
بخارا کے امیر نے جلد ہی عینی کے کاموں کے خطرات اور لوگوں پر اس کے اثرات کو بھانپ لیا اس لیے اس نے انہیں کچھ مال و دولت دے کر اپنے مجرموں کے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس غرض سے اس نے باقاعدہ اپنے قاصد بھیج کر عینی کو اپنے دربار میں بلایا لیکن عینی نے اس کے دربار میں جانے سے صاف انکار کر دیا اور اپنے انکار پر ڈٹ بھی گئے۔ اس انکار کے بعد امیر کے قاصدوں نے ان کی کتابیں اور تصنیفات جلانے کی دھمکی بھی دی۔ بالآخر بخارا کے امیر نےعینی کو نیچا دکھانے کے لئے ایک مایوس کن کوشش میں کہا: ( یہ شاعر ہمارے دربار کے لائق ہی نہیں) یہ تو امیر بخارا کا بالکل سچا قول تھا کہ عینی واقعاً درباری شاعر نہ تھا۔ وہ اس جیسے درباروں کا گداگر بننے سے کہیں زیادہ بلند و برتر تھا۔
عینی کی جدوجہد جاری رہی اور وہ اس فرقہ واریت کے خلاف اتحاد اور بھائی چارگی کی طرف دعوت دینے میں سب سے پیش پیش تھا جسے روسی رژیم اور اس کے حلیفوں نے پھیلایا تھا ۔عینی اس فرقہ واریت کے خلاف مزاحمت کر رہا تھا اور لوگوں کو اس کی اصلیت اور اس کی وجوہات کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا۔ چنانچہ روسی رژیم کے خلاف جنگ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں عینی پہلی صفوں میں تھا۔ اس لئے انہوں نے عینی کے سکول کو بند کر دیا اور ہر طرف ان کا پیچھا کرنا شروع کیا۔ جب 1915-16ء کی عظیم بغاوت شروع ہوگئی تو صدرالدین عینی اس میں بھی پیش پیش تھا۔ اسی طرح 1917 کے انقلاب میں جب وسطی ایشیاء کو روسی رژیم کے خلاف اکٹھا کیا گیا، ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں شاعرعینی بھی تھا، تب حکومتی کارندوں نے انہیں گھر سے باہر نکالا، زدوکوب کیا، وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں زندان میں ڈال دیا ۔
اس دور میں عینی کے اشعار نے نئی پیش رفت کو شاعرانہ اظہار کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے ان لفظوں میں اس انقلابی تبدیلی کی عکاسی کی:
آہ اے میرے وطن میرے لیے تیری جدائی بہت سخت ہے
اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو اپنی یہ عاجزانہ زندگی تجھ پر وار دیتا
تو دیکھ رہا ہے کیا میں صبر کر سکتا ہوں؟
جبکہ لرزتے ہوئے بلبلوں کو سفاک کوے قتل کر رہے ہیں!
ادبی پختگی کے مرحلے میں صدرالدین عینی کی شاعری میں لوک داستانیں نمودار ہوئیں جن کی گونج پورے ملک میں سنائی دی:
کل کی فجر قریب ہے
پس تیار ہو جاؤ اے مشرق کی قوم
لیکن تم نے دیکھا کہ کیا اہل مشرق سوتے ہیں؟
فجر سے پہلے ؟
یقیناً غلامی کا لباس!
اب یہ اہل مشرق کے لئے ابدی لباس نہیں رہا
پس غیرت کے ساتھ جدوجہد کرو
یا موت کے مستحق بن کر مرو۔
صدرالدین عینی کا انتقال 1954 میں 76 سال کی عمر میں ہوا جب کہ وہ ایک ایسے انقلابی شاعر بن چکے تھے جنہوں نے اپنی قوم وملت کو تجدید اور جدیدیت کے تمام مراحل سے گزرتے ہوئے دیکھا۔
صدرالدین عینی نے زندگی ،قوم ،آزادی، بہار اور بھائی چارگی کو اپنی جدوجہد کے مختلف مراحل اور سطحوں سے وابستہ رکھتے ہوئے مالامال کیا۔ انہوں نےاپنی فکر اور زندگی میں ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کے دل و دماغ کو آپس میں جوڑا اور اپنے مشترکہ ورثے کو اپنے مختلف وسائل کے ذریعے تخلیقی انداز میں بے پناہ ترقی دی۔ صدر الدین عینی اگرچہ فرزند تاجکستان ہیں لیکن انہوں نے تاجک اور ازبک دونوں زبانوں میں اشعار لکھ کر بیک وقت دونوں قوموں سے داد تحسین وصول کی۔ آزادی اور انسانی وقار کے نام پر عینی نے اپنی زندگی میں جتنی قربانیاں دی ہیں ان کے علاوہ بھی ان کی شخصیت ان کی قوم اور پورے وسطی ایشیا کی اقوام کی فکر پر گہرا اثر رکھتی ہے۔